سیب آسمان کی طرف بھی گِر سکتا ہے۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

قسمت کے متعلق ہر شخص کی اپنی ایک رائے ہے، زیادہ تر افراد قسمت کے کھیل کو جبر سمجھتے ہیں کہ ان کی قسمت کے فیصلے آسمانی دنیاؤں میں پہلے سے طے ہیں اور اس سے فرار ممکن نہیں۔
مذکورہ رائے جہاں ایک طرف فرد کو ترکِ کوشش میں الجھاتے ہوئے مایوسی کی طرف دھکیلتی ہے ،وہیں بہت سے افراد کیلئے اطمینان کا باعث بھی ہے کہ چونکہ مستقبل کے فیصلے فرد کی مرضی کے بغیر کئے جا چکے ہیں تو کیوں نہ غیر ضروری ذمہ داری اور پریشانی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے توکل پہ تکیہ کیا جائے۔
لیکن مجموعی طور پر ایسے افراد خوشی و امید سے عاری ہوتے ہیں جن پہ قسمت زیادہ مہربان نہیں رہی ، کہ ہمارے ساتھ ہی قسمت ایسی نامہربان کیوں ہے؟
ایسے خیالات کا آنا لازم ہے کہ کیوں ایک طرف تو کسی شخص کو دنیا کی تمام دولت میسر ہے جبکہ دوسری طرف انسان ایک وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے ، ایک آسانی سے ہر چیز حاصل کرنے پر قادر ہے جبکہ دوسرا شخص تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی کسی خواہش کی تکمیل کو ترستا ہے، آخر یہ کن گناہوں کی سزا ہے ؟
آسمانی طاقتوں کے بہشتِ زریں کا وعدۂ فردا ایسے لوگوں کی آخری امید ٹھہرتا ہے۔
لوگوں کا ایک گروہ ایسے وعدوں کو دل سے نہیں مانتا، یہیں سے آپٹیمزم (Optimism) کے علم کی بنیاد پڑی کہ اگر خوش رہنے چاہتے ہوتو ہمیشہ مثبت سوچ رکھو، تمہارے دماغ سے اٹھتی یہی مثبت لہریں تمہارے مستقبل پر مثبت اثرات ڈالیں گی اور تم خوش قسمت لوگوں کی فہرست میں خود کو پاؤ گے۔
انسان کیلئے اس فلسفے پر آمادہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کے تلخ حقائق کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا آسان نہیں ، ایک خلش، ایک ناراضگی ہمیشہ اس کے دماغ میں رہتی ہے۔
موٹیویشل سپیکرز ایسے فرد کو ہر حال میں خوش رہنے ، شکر گزار رہنے اور دوسروں کو معاف کرنے کی تلقین کرتے ہیں کہ اسی رویے سے قسمت کے ستارے اس کی طرف متوجہ ہوں گے، لیکن اس سب کے باوجود مشکلوں میں گھِرا شخص اندرونی طور پر مطمئن نہیں ہوپاتا، گویا کہ زندگی کی خوشیوں کو اسے دنیا کی ٹیوب سے ٹوتھ پیسٹ کی طرح نچوڑنا ہے۔
اس سے ایک قدم آگے انسانوں کا ایک دوسرا گروہ ہے، جن کا دعوی ہے کہ انسان خود ہی اپنی قسمت کا معمار ہے، محنت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو انسان کی قسمت بدلنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، یعنی کہ بچپن سے بچے کے ذہن میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ، پڑھو گے لکھو گے بنو کے نواب۔
یہ آرگومنٹ بظاہر طاقتور معلوم ہوتا ہے، قصے کہانیوں ، فلموں، کتابوں اور زندگی کے واقعات میں ہمیشہ یہی بتایا جاتا ہے کہ کیسے دن رات محنت کرتے ہوئے ایک شخص دولت، شہرت، صحت ، خوشی و کامیابی کو پا گیا،دوسرے الفاظ میں محنت کے بغیر کسی ثمر کا حصول ممکن نہیں،
اس فلسفے کی منفی حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ محنت تو کروڑوں افراد کرتے ہیں لیکن محنت کا پھل صرف چند ہی لوگوں کا مِل پاتا ہے، ایک فرد پوری زندگی محنت کرتے ہوئے بھی حقیقی کامیابی سے محروم رہ سکتا ہے، ایسے فرد کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ دنیا کو بدلنے کی بجائے، خود کو بدلو، خود پہ محنت کرو، پہلے اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ دنیا میں مقابلے کیلئے اتر سکو، گویا کہ فرد کے سامنے اس بات کو بطور حقیقت رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی فطرت میں مکمل نہیں اور اس کی شخصیت کمزوریوں و خامیوں سے بھرپور ہے جن پہ اسے قابو پانا ہے۔
یہ ایک بھیانک تصویر ہے، یعنی کہ اگر فرد پیدائشی طور پر دولتمند، صحت سے بھرپور اور خوش قسمتی کا تاج سر پہ سجا کے پیدا نہیں ہوا تو اسے یا تو تمام عمر اس مفلوج زندگی کو صلیب کی طرح گھسیٹے رہنا ہے یا پھر آخری سانس تک اس دنیا اور اپنی شخصیت کے ساتھ ایک جدوجہد جاری رکھنی ہے۔
کیا یہی فرد کی تخلیق کا مقصد ہے ؟
انسانوں کی اکثریت دوسروں کے معاملے میں تو ان خرافات کو شاید قبول کرنے پہ تیار ہوجائے لیکن کوئی ایک فرد بھی خود کو ایسے معاملات کے سپرد نہ کرنا چاہے گا۔
کیا کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں؟
کیا امید کی کوئی شمع بھی روشن نہیں؟
سب سے پہلے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ کوئی بھی رائے حتمی نہیں، کوئی بھی فلسفہ حرفِ آخر نہیں، مثلا مٹیریالزم کے حامی اس بات پہ مصر ہیں کہ مادّے کا وجود شعور سے پہلے کا ہے جبکہ آئیڈیالسٹ پریقین ہے کہ پہلے انرجی یعنی شعور تھا، اسی سے مادّہ بنا، ان دونوں گروہوں کے پاس انتہائی باوزن دلائل وافر مقدار میں موجود ہیں، اسے آپ تصویر کے دو رخوں سے تعبیر کر سکتے ہیں اور یہ دو مختلف پہلو فلسفہ، سائنس اور مذہب اپنے اپنے رنگ میں پیش کرتے ہیں، مختلف نکتۂ نظر رکھنے والے یہ دونوں گروہ بیک وقت صحیح بھی ہیں اور غلط بھی۔
زندگی کا ہر فلسفہ اس کائنات کے ہمہ کارہ حق کا صرف ایک پہلو ہی ہوتا ہے اور ان پہلوؤں کی تعداد لامتناہی ہے، اگر آپ اپنی قسمت پر ماتم کرنے کو ہی کائناتی حقیقت مانتے ہیں تو آپ اسی پہلو تک محدود رہیں گے اور زندگی کی کشتی قسمت کی جان لیوا لہروں کے سپرد کرکے بالآخر بھنور میں جا ڈوبیں گے، اگر آپ دوسرے پہلو پہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ خود ہی اپنی قسمت کے معمار ہیں تو گویا کہ آپ ایک بھاری ذمہ داری کو شعورا قبول کر رہے ہیں اور قسمت کی ان بے رحم لہروں کے خلاف جدوجہد میں زندگی غرق کر بیٹھیں گے، سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ آپ کو وہی ملے گا جس کا آپ خود انتخاب کریں گے۔
آپ کسی بھی نکتۂ نطر یا کسی بھی فلسفے کے حامی ہوں، حتمی بات یہ ہے کہ آپ ہی بر حق ہیں، اور آپ کے مخالفین کی آپ کے ساتھ اختلاف کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ بھی حق پر ہیں۔
کائنات کا حق صرف ایک ہی ہے ، وہ یہ کہ اس حق کی لامتناہی جہتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک جہت بذاتِ خود ایک حق ہے، آپ کو صرف انتخاب کرنا ہے ۔
فرد کی زندگی اور قسمت کو لے کر ان حقائق کی تعداد دو یا چار نہیں، بلکہ لامتناہی ہے، آپ کو صرف انتخاب کرنا ہے کہ قسمت کی کونسی جہت آپ زیادہ پسند کرتے ہیں۔
نیوٹن نے کائناتی طاقتوں کی صرف ایک جہت کو پیش کیا کہ سیب زمین کی طرف اس کی کششِ ثقل کی وجہ سے گرتا ہے، مضبوط دلائل کی بنیاد پر انسانوں کی بھاری اکثریت اس سے متفق ہوئے بغیر نہ رہ سکی، لیکن یہ حق کی صرف ایک سمت ہے، مخالف دلائل کے سامنے آنے سے ہم میں سے ہر ایک فرد یہ یقین کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ سیب آسمان کی طرف بھی گر سکتا ہے۔
اسی تقابل کو سامنے رکھئے کہ قسمت کی تعریف، اس کے جبر و قدر، اس کے سامانِ تعمیر و تباہی چند ایسے افراد کی دریافتیں ہیں جو اپنی اپنی ایک جہت کا انتخاب رکھتے تھے، آپ کے پاس اپنی قسمت کے انتخاب کیلئے بے شمار جہتیں موجود ہیں ،آپ کو صرف اپنی پسند کا انتخاب کرنا ہے، سیب کا آسمان کی طرف گرنا کوئی انہونی بات نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply