بچوں سے زیادتی، صرف قصور ہی کیوں؟ (قسط نمبر 5)۔۔۔۔وقاص اے خان

لیکن بات صرف میڈیکل پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے کہ ہم قانون میں دی گئی گنجائشوں کا غلط استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 کے تحت اگر دو یا دو سے زیادہ افراد کسی مرد/بچے سے زیادتی کریں تو اس کی سزا موت ہے۔ اگر دو مرد/مرد۔بچہ رضا مندی سے یہ جنسی عمل کریں تو اس کی سزا عمر قید ہے۔ اب قانون میں یہ سزا تو بہت سخت ہے لیکن کیسا المیہ ہے کہ عام حالات میں اس قانون کے تحت مجرم کو سزائے موت یا عمر قید دینے کی روایت ہی موجود نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ پچھلی قسط میں بیان کی گئی وجوہات کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ پہلے مرحلے سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں اور عدالت تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ اور اگر کوئی شخص اپنے بچے یا کوئی مرد اپنےساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کا قانونی بدلہ لینے کی ٹھان ہی لے تو تفتیش کے مرحلے پر چالان سے پہلے اس کیس کو اتنا خراب کر دیا جاتا ہے کہ عدالت کے پاس سوائے ضمانت کے کچھ بچتا ہی نہیں۔

قانونی طور پر اس طرح جرم کو ثابت کرنے کے لیے دو چیزیں چاہئیں۔ میڈیکل اور گواہ۔۔ پچھلی قسط میں آپ نے دیکھا کہ میڈیکل کی سطح پر کیا مسائل ہیں اور عوام اور پولیس اپنی غیر ذمہ داری و بے وقوفی سے کس طرح سے تمام ثبوت ضائع کر بیٹھتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر سپرم کا ثبوت ضائع ہو جائے تو 70 فیصد کیس تو ویسے ہی دم توڑ دیتا ہے اور ڈاکٹرز کے پاس میڈیکل لینے اور زیادتی ثابت کرنے کا ایک ہی طریقہ بچتا ہے کہ کیا مرد/بچے کی اینس (دبر) میں کوئی چیز داخل کی گئی یا نہیں؟ دبر کے دہانے کے معائنے سے اگر ڈاکٹر محسوس کرے کہ کچھ داخل ہوا ہے تو وہ زیادتی کی تصدیق کر دیتا ہے اور ایسی صورت میں ملزم چالان ہو جاتا ہے۔ اور عدالت میں کیس شروع ہو جاتا ہے۔

لیکن ٹھہریے! اتنی آسان نہیں یہ منزل۔ بلیک میلروں کی اس دنیا میں اس قانون سے کھلواڑ بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے پروفیشنل گروہ بھی موجود ہیں جو عزت دار لوگوں کی عزت سے کھیل کر پیسہ کماتے ہیں۔ کیونکہ، مرد/بچے کے ساتھ زیادتی میں سپرم کا ثبوت اکثر ضائع ہو جاتا ہے اور واحد پیمانہ “دخول” کا ہوتا ہے اس لیے بلیک میلر گروہ اکثر بغیر کسی جنسی عمل کے اپنے مرد/بچے کی دبر میں کوئی بھی پنسل یا ٹھوس چیز داخل کر کے دہانے کو زخمی کر دیتے ہیں اور میڈیکل کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس میڈیکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا اور پولیس کے پاس چالان مکمل کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں یہ بات درمیان میں رہ جاتی ہے، عزت دار شخص کی پگڑی اچھل جاتی ہے اور بلیک میلر معاملے کو دبانے کے پیسے وصول کر کے راہ پڑتے ہیں۔

خیر! چلتے ہیں عدالت کی جانب۔ میں نے بطور وکیل یہ دیکھا ہے کہ اِکا دُکا آنے والے ایسے کیسز میں سے 95 فیصد کیسز تو بغیر ڈی این اے کے ہوتے ہیں اور ان میں دخول کی میڈیکل رپورٹ ساتھ لگی ہوتی ہے۔ اب اگر کسی مرد کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے لیکن ثبوت صرف دخول کا ہے، سپرم ڈی این اے ساتھ نہیں تو آپ بتائیے کہ اگر وکیل صفائی یہ موقف اختیار کرے کہ یہ دخول جان بوجھ کر بلیک میل کرنے کے لیے مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا ہے اور حقیقت میں ایسا ہوا ہی نہیں تو عدالت کیا کرے گی؟ جبکہ عدالت یہ جانتی ہو کہ ایسا ہوتا ہے اور بلیک میلر گروہ پیسے اینٹھنے اور بدنام کرنے کے لیے بھی دخول کی میڈیکل رپورٹس مصنوعی طریقوں سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لہذا مرد سے زیادتی کے کیسز میں وکیل صفائی کی یہ سب سے مضبوط دلیل کام دکھا جاتی ہے اور حقیقی زیادتی کا شکار مردوں کو بھی انصاف نہیں مل پاتا بلکہ جارح/زیادتی کرنے والا باعزت بری ہو کر آ جاتا ہے اور مزید بے خوفی سے اپنا عمل شروع کر دیتا ہے۔

اور پھر عدالت میں کیس ثابت کرنے کے لیے میڈیکل رپورٹ ہی تو کافی نہیں۔ ہمارے قانون کا ماننا ہے کہ زیادتی کے وقت گواہ نے بھی دیکھا ہو۔ کیا مضحکہ خیز قانون سازی ہے۔ کیا جنسی فعل کرتے وقت یا زیادتی کرتے وقت گواہوں کو پاس بٹھا کر ایسا عمل کیا جائے گا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کے ساتھ جنسی زیادتی ہو اور اس عمل کو دیکھنے والے گواہ بھی ہوں؟ معدوم سے مواقع کے علاوہ ایسا حقیقت میں ممکن نہیں۔ اور عدالت ،گواہوں کی غیر موجودگی جبکہ میڈیکل کے عمل پر بھی سوال اٹھ سکتے ہوں کو کیس کی کمزوری مانتے ہوئے مجرم کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیتی ہے۔ ان کیسوں کے علاوہ جن میں میڈیا کی مکمل توجہ حاصل ہو ایسے کیسز میں انصاف نہیں ہو پاتا اور یہ عمل رک نہیں پاتا۔

دور جدید میں گواہوں کی کمی کو ایک چیز پورا کرتی ہے اور وہ ہے ٹیکنالوجی۔ مثال کے طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج۔ شہروں میں اگر ایسا عمل ہو تو سی سی ٹی وی فوٹیج اب آسانی سے دستیاب ہیں۔ لاہور سیف سٹی پراجیکٹ اس کی ایک مثال ہے جہاں ہر آنے جانے والے کی حرکات و سکنات نوٹ ہو رہی ہوتی ہیں اور بوقت ضرورت ان کی فوٹیج حاصل کی جا سکتی اور عدالت میں بطور ثبوت پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بینک اور دیگر سرکاری عمارتوں کے علاوہ عوام میں شعور و آگہی کے آنے سے گھروں اور دوکانوں کے باہر کیمرے نصب ہیں جن سے بوقت ضرورت یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کون، کسے، کب کس جانب لے گیا۔ اس سے گواہوں کی عدم موجودگی کیس کے میرٹ پر اثر انداز نہیں ہوتی اس لیے لاہور جیسے شہروں میں ان پراجیکٹس کے آنے کے بعد ایسے جرائم نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں لیکن قصور سیف سٹی پراجیکٹ کا افتتاح چونیاں واقعہ سے چند دن پہلے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے کیا۔ یہ پراجیکٹ زینب قتل کیس کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کیا تھا جسے اب مکمل کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھیں قصور ایک شہر کا نام ہے اور ضلع قصور بہت بڑا ہے۔ سیف سٹی کیمرے قصور شہر تک محدود ہیں اسی لیے زینب قتل کیس کے بعد اب ایسا کوئی مزید واقعہ بھی شہر میں سامنے نہیں آیا۔ لیکن قصور کے تین تحصیل ہیڈکوارٹرز اور سینکڑوں دیہات کا کیا کریں جہاں یہ سہولت سرے سے ہی موجود نہیں؟

زینب کا قاتل عمران سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پکڑا گیا تھا۔ فوٹیج میں اس کا چہرہ تو واضح نہیں تھا لیکن اس کی جسمانی ساخت، ڈیل ڈول اور عمر کا اندازہ ضرور ہوتا تھا جس سے تفتیشی اداروں کو یہ جاننے میں آسانی ہوئی کہ ان کا مطلوب مجرم کیسا ہے اور انہیں کیا تلاش کرنا ہے۔ چونیاں واقعے میں ایسا نہیں ہے۔ (جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply