معاشرہ اور تن فروشی۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

علم الانسان کے ماہرین تن فروشی کو قدیم ترین پیشہ بتلاتے آ رہے ہیں، اور ایسا ہے بھی، پہلے پہل یا تو کسی خاتون نے مجبوری کی حالت میں کسی مرد سے اجرت لے کر اس پیشے کی شروعات کی، یا پھر کسی مرد نے کسی خاتون کی نسوانیت سے متأثر ہوتے ہوئے کچھ مال دولت کا لالچ دے کر اپنی خواہش پوری کی اور اس دھندے کی بنیاد رکھی، معاملہ جو بھی ہو مگر واقع یہ ہے وقت کے ساتھ یہ پیشہ ایک مضبوط ادارے کی شکل اختیار کر گیا، اور تمام جدید و قدیم تہذیبوں و علاقوں میں اس پیشے کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ یہ ادارے مضبوط ہاتھوں، زیادہ تر حکومتِ وقت یا مقامی طاقتوں کے زیرِ اثر پروان چڑھنے لگے، مگر اہم سوال یہ ہے کہ اس پیشے سے منسلک خواتین کِس نفسیاتی و معاشرتی سطح سے تعلق رکھتی ہیں، عمومی تصّور یہ ہے کہ غربت ، جنسی خواہش کی زیادتی اور دھونس دھمکی سے ورغلائی خواتین اس پیشے کو اپناتی ہیں، مگر یہ حقیقت نہیں، اگرچہ جزوی طور پر ایسا ہے، مگر مذکورہ تین وجوہات کی بنیاد پر دھندہ کرنے والی خواتین کی تعداد کُل کا ایک تہائی سے زیادہ نہیں، زیادہ تر “مستورات ” ایک خاص مجرمانہ ذہن کی مالک ہوتی ہیں ، جیسے بعض مرد نفسیاتی طور پر دوسروں کی نسبت زیادہ مجرمانہ ذہن رکھتے ہیں، اسی طرح خواتین بھی ایک جیسی نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ مردانہ مجرمانہ علّت ، قتل، چوری و ڈکیتی جیسی وارداتوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جبکہ صنفِ نازک کا معاملہ مختلف ہے، عورت اپنی فطرت میں ظلم و جبر کو پسند نہیں کرتی، اس لئے مجرمانہ ذہنیت کے اظہار کیلئے وہ قتل و غارت کی بجائے لطائفِ فطرت کو مسخ کرنا پسند کرتی ہے، اسی کی انتہائی شکل تن فروشی ہے۔
(یعنی کہ جلال و جمال کا بنیادی فرق یہاں بھی واضح ہے )۔

تاریخ میں پہلی دفعہ اس “پیشۂ طالب و چارہ گر ” کے خلاف سلطنتِ روم میں قدم اٹھایا گیا، قیصرِ روم قنسطنطین (ترکی کے شہر استنبول کا پرانا نام، قنسطنطنیہ اسی قیصرِ روم کے نام پہ رکھا گیا کہ اس نے پہلی دفعہ اس شہر کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصّہ بنایا تھا) نے جب عیسائیت قبول کی تو کچھ مذہبی و اخلاقی قوانین کا نفاذ کیا گیا، جن میں سرِ فہرست سلطنت میں موجود تمام “دارالعوام ” کو بند کرنا تھا ، اگرچہ اس قانون کے اطلاق پر قنسطنطین (Constantine) کے دربار میں موجود کچھ پیرانِ فہم و تجربہ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اشارتاً سمجھانے کو کوشش کی کہ فاحشخانوں کے بند ہونے کی صورت میں، طلب گارِ حسن و شباب شارعِ عام پر ہر عزت دار عورت کی چادر کھینچنے سے دریغ نہ کریں گے، اور کسی کی بہو بیٹی محفوظ نہ رہ سکے گی، اس کے علاوہ دھندہ کرنے والی خواتین چھپ کر اپنے گھروں یا کرائے کے مکانوں میں اپنے گاہکوں کی تسکینِ جاں کا سامان مہیا کریں گی، جس سے ہر دوسری گلی میں ایک غیر اعلانیہ کوٹھا وجود پائے گا، جس میں جنسی بیماریوں کے بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے، مگر قیصرِ روم نے ان کی بات ان سنی کرتے ہوئے تمام کوٹھے قوتِ ریاست سے بند کرا دیئے، ایک دو سال کے عرصے میں ہی جنسی جرائم و بیماریوں کو شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھ کر شہنشاہ نے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے دوبارہ دھندہ کرنے والی خواتین کو حکومتی سطح پر اجازت دے دی اور پیرانِ فہم و تجربہ کی دوراندیشی کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔

ضمنی طور پر یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ ماضی قریب میں ترکی کی موجودہ حکومت نے اس پیشے سے متعلقہ کسی بھی قسم کی پابندی کو اٹھا لیاہے، صرف یہ کہ اس کام کیلئے حکومت سے باقاعدہ لائسنس لیا جائے اور دھندہ کرنے والی خواتین، اپنی طبی صحت اور کوٹھے کا اندراج حکومت کے پاس کراتے ہوئے سالانہ ٹیکس ادا کرے، اس سے نوجوانوں کے عزت دار خواتین سے بدسلوکی اور جنسی جرائم و بیماریوں سے روک تھام میں مدد ملے گی اور ٹیکس کی مد میں حکومت کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔

اس حسّاس موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کی بنیاد ایک اہم سوال ہے، کیا معاشرے کیلئے ایسے قحبہ خانوں کی ضرورت ہے؟ کیا اس کے بغیر معاشرہ اخلاقی طور پر زیادہ بہتر نشونما نہ پائے گا؟
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی گنجائش نہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں، مگر کیا انسانی نفسیات, شدتِ جذبات، معاشرتی الجھنوں و جمالیاتی تجسّس کی تسکین اس کے بغیر ممکن ہے؟
یہاں کچھ احباب اسلام کے سنہری دور کی مثال دیتے ہوئے میری تحریر کو خرافات سے تعبیر کر سکتے ہیں، مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر تو اسلام کے سنہری دور سے مراد قرونِ وسطہ ہے تو یہ بات تاریخ کا ادنی طالبعلم بھی جانتا ہے کہ مذکورہ پیشے کی جتنی دادرسی اس دور میں مسلمان سلاطین کے ہاتھوں ہوئی، اس کی مثال ملنا مشکل ہے، اس پر بحث ہوئی تو بے شمار مثالیں دینے پر خاکسار قادر ہے، اور اگر اس سنہری دور سے مراد خلفاء کا زمانہ ہے تو سمجھنا چاہئے کہ تب ہر شخص کی چار چار ازواج ہوا کرتی تھیں ، یہاں ادباً یہ طالبعلم لونڈیوں کا ذکر کرنے سے قاصر ہے۔

اس مشکل کا حل کیا ہے؟ یقینا درمیانی راستہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ہے، دنیا میں خواتین کی تعداد مردوں سےزیادہ ہے، جنگ ، جدل، حادثات میں مرد اور بچپن کے امراض میں لڑکوں کی شرحِ اموات زیادہ ہے، اس لیے صنفِ بہتر کی کثیر تعداد مردانِ میدانِ عمل کیلئے باعثِ مسرت و شادمانی تصور کی جانی چاہیے۔
مگر مسئلے کے اس حل، تعدد الزوجات، میں دو مختلف نوعیت کے مسائل درپیش ہیں، پہلی نوعیت کے مسئلے میں ایک نکتہ بنیادی اور دو ضمنی ہیں،

ضمنی نکات یہ کہ ہر مرد کی اتنی آمدن نہیں کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کا سوچ سکے، اس کے حل کیلئے ضروری ہے کہ خواتین کیلئے حکومتی سطح پر نوکری و عزت دارانہ پیشے کے مواقع فراہم کئے جائیں، دوسرا ضمنی نکتہ مرد حضرات کی صحت سے متعلق ہے، فی زمانہ مردوں کی اکثریت ایسی صحت کی حامل نہیں کہ ایک سے زیادہ شادیوں کے متحمل ہو سکیں، اس کیلئے کھیل کود کا فروغ، بہتر خوارک کا انتظام، آب و ہوا کو آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش، نیم حکیموں کا خاتمہ اور سب سے بڑھ کر ذہنی دباؤ سے چھٹکارا ضروری ہے۔
مگر پہلی نوعیت کے مسائل میں بنیادی نکتہ جدید عورت کی نفسیات ہے، میڈیا اور جدید تعلیم کے زیرِ اثر پروان چڑھی نسل کسی طور سوکن برداشت کرنے کو تیار نہیں، اسی طرح جدید خاندانی نظام کی بنیاد ایک شوہر اور ایک بیوی ہے، نہ کہ دو یا چار بیویاں۔
دوسری نوعیت کا مسئلہ دو نکات پر مشتمل ہے،

پہلا نکتہ عورت کی انفرادیت ہے، کیا تاریخ و معاشرے میں عورت کا وجود صرف مرد کی تسکین کیلئے ہے، اس کا جواب اگر نفی میں ہے تو ایک سے زیادہ شادیوں کا تصّور دم توڑتا دکھائی دیتا ہے، اور اگر ایسا ہے تو کوٹھے کا وجود ناگزیر ہو گا

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسرا نکتہ وہی جو شروع میں عرض کیا تھا کہ اس پیشے سے متعلقہ خواتین ایک خاص نفسیاتی رجحان رکھتی ہیں، اور وہ کسی ایک مرد کی ہمسفر رہنا پسند نہیں کرتیں۔
ان مسائل کا کیا حل ہے، اس موضوع پر تحقیق کیلئے دروازے کھلے ہیں مگر موضوع کی حساسیت ماہرین کو قلم اٹھانے سے روکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply