ملائشیا دورے کی منسوخی اور مسلم اُمہ۔۔عمیر فاروق

کوالالمپور میں ہونے والی مسلم جی سیون سمٹ میں پاکستان کی عدم شمولیت کے فیصلے  پہ اگر جذباتی رائے کافی دی جا چکی تو کچھ غیر جذباتی تجزیہ بھی کرنے میں مضائقہ نہیں۔

یہ درست کہ موجودہ او آئی سی دراصل عرب لیگ کی ہی ایک ایکسٹینشن کی طرح ہے جو عرب دنیا کے مسائل القدس وغیرہ پہ تو حساس ہے لیکن عجم کے مسائل کشمیر یا روہنگیا پہ سردمہری اور عدم دلچسپی کا رویہ رکھتی ہے۔

یہ بھی درست کہ مسلم دینا کے مسائل کے ضمن میں عرب اور عجم کی سوچ میں نمایاں فرق ہے جو وقت کے ساتھ بڑھے گا ،گھٹتا نظر نہیں آتا اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف عرب دنیا پہ ہے۔

یہ سچ کہ مہاتیر محمد نے دوبارہ وزیراعظم بننے سے قبل فلسطین کے مسئلہ پہ مغرب کو مجبور کرنے کے لئے پٹرولیم کو ڈالر میں نہ بیچنے کی تجویز جب سے دی وہ امریکہ کی نظر میں کھٹکتا ہے اور سعودیہ کے موجودہ بائیکاٹ کے پیچھے امریکہ کا بھی ہاتھ ہے۔

تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ صرف امریکی ایما پہ ہوا بلکہ مذکورہ عرب ممالک خود بھی ایران، ترکی اور قطر کی پالیسیوں سے برگشتہ تھے انکی اپنی خواہش بھی یہی تھی۔

یہ بھی درست ہے کہ او آئی سی ایک غیر فعال تنظیم ہے جس کی عملی باگ دوڑ سعودیہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ نا صرف امریکہ اور اسرائیل کی خواہش ہے کہ مذکورہ تنظیم غیر فعال رہے بلکہ سعودی پالیسی بھی یہی ہے۔

لیکن یہ سمجھنا بھی غلط ہوگا کہ سعودیہ اور امارات کے خدشات صرف منفی اور مذکورہ ممالک کی شمولیت کے بارے میں تھے ان کا ایک خدشہ حقیقی اور سنجیدہ بھی تھا کہ او آئی سی کے متوازی ایک مسلم تنظیم قائم ہونے جارہی ہے اور مستقبل میں آپسی اختلافات مزید بڑھیں گے اور پاکستان دوسرے گروپ کا حصہ بننے جارہا ہے۔ یہی وہ خدشہ تھا جس کو دور کرنے کے لیے  پاکستان نے ان ممالک کا دورہ کرنا ضروری سمجھا۔ اور ان ممالک کو بھی اس سمٹ کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دی لیکن فی الحال ایران کے ساتھ بالخصوص انکے اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ میز پہ بیٹھنے کو تیار نہیں اور ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ بالفرض اگر ایسا ہوگیا تو مشرق وسطی کی سیاست میں یہ ایک ایسا دھماکہ ہوگا کہ امریکہ اور اسرائیل کا  شدید منفی ردعمل سامنے آئے گا جس کو یہ ممالک تو کیا پاکستان بھی افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ اپنی کمزوریوں کا بھی خوب علم ہو اور ان سے آنکھیں بند کر لینے ، یا کڑُھنے یا انکا ڈھول پیٹنے کی بجائے انکا حل تلاش کیا جائے۔

پاکستان نے اپنی پوزیشن سے بالخصوص دونوں ممالک کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کسی ایسی تقسیم کے حق میں نہیں اور پاکستانی مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی نئی تقسیم جنم بھی نہ لے۔ گوکہ آگے جا کر یہ ممکن بھی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سعودیہ اپنی روایتی پالیسی آگے جاکر تبدیل کرجائے۔ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا،بلکہ ابھی شروع ہوا ہے جلدبازی میں کوئی فیصلہ  لینے کی بجائے غلطی کیے بغیر صورتحال کے کھلنے کا انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے فی الحال ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی پوزیشن کو ملائشیا وغیرہ نے بھی سمجھا ہے جو مہاتیر کے بیان سے نظرآتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں صورتحال کیا رخ اختیار کرسکتی ہے ؟ معاملے  کی ایک جہت اور بھی ہے جسے فراموش کرنا غلط ہوگا اور یہ ڈویلپ ہوتی صورتحال ہے۔

یہ بطور الزام کہہ دینا آسان ہے کہ پاکستان سعودیہ کے سامنے جھک گیا لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جس کا چند پیروں میں اظہار ممکن نہیں ہے اور یہ ہے پاک امریکہ سعودیہ تعلقات کی تکون ، یہاں اسرائیل کو امریکہ میں شامل سمجھا جانا چاہیے۔ تاریخی طور پہ سعودیہ امریکہ پہ انحصار کرتا آیا  ہے،انکی ایران دشمن پالیسی کی ایک وجہ امریکہ اسرائیل بھی تھے جس نے مجموعی طور پہ عربوں کو کمزور کیا اور اس کا فائدہ اٹھا کر امریکہ نے عرب بہار کے بعد سعودیہ کو ڈی سٹیبلائز کرنے کی بھی کوشش کی سعودی اتنے بھی بیوقوف نہیں جتنا ہم تصور کرلیتے ہیں یہ وہی دور تھا جب سعودیہ نے راحیل کو بطور مشیر طلب کیا ،پاکستان کو سعودیہ نا صرف اپنا قابل اعتماد اتحادی سمجھتا ہے بلکہ اپنے دفاعی نظام کا ضروری حصہ بھی سمجھتا ہے کم و بیش وہی تعلق جو ہمارا چین کے ساتھ ہے۔

تب سے سعودیہ اپنی روایتی پالیسی ترک کرچکا اور امریکہ ، روس اور چین کے ساتھ بیک وقت تعلقات بڑھا رہا ہے امریکہ اسی وجہ سے پرنس محمد سے ناراض ہے کیونکہ اسے خوف ہے کہ بالآخر سعودیہ دفاع اور پالیسی میں اس کے اثر سے آزاد ہوجائے گا اس لئے اس سٹیج پہ پاکستان اور سعودیہ دونوں ہی امریکہ کو بھڑکانے کا رسک نہیں لے سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جیسا عرض کیا کہ یہ ابھی آغاز ہے وقت کے ساتھ دونوں محاذوں پہ صورتحال کھلتی جائے گی مسلم دنیا میں عرب و عجم کی تقسیم ممکن بھی ہے اور سعودیہ کی پالیسی رفتہ رفتہ تبدیل ہونا بھی ممکن ہے اگرچہ ایسا ہوا تو امارات اور عمان کا امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہی جانے کا امکان زیادہ ہے۔ فی الوقت کسی تقسیم کا حصہ بننے کی بجائے دونوں طرف اپنی بھرپور موجودگی رکھنا زیادہ بہتر ہے تاکہ وقت آنے پہ حالات دیکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply