تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی اُمتِ مسلمہ کے پیارے رسول، خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے کی جرأت کرتا ہے تو شمعِ رسالت کے پروانے گستاخی کرنے والے کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ جس زبان سے بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں غلط الفاظ نکلتے ہیں، وہ زبان اللّٰہ عزووجل کی قدرت سے یا تو خود ہی گنگ ہو جاتی ہے یا اس کی زبان ہمیشہ کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ ایک غیر ملکی نے جب مسلمانوں کے عقائد کے بارے میں تحقیق کی تو اس نے ایک ہی بات کو اپنی تحقیق کا حاصل بتایا کہ ہر مسلمان اپنے دل میں عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تڑپ لیے ہوۓ ہے اور جہاں کہیں بھی ان کے نبیﷺ کی ذاتِ اقدس کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو اس کے لیے مسلمان اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ہر مسلمان عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اپنی جان قربان کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔ یہ وہ بہادر قوم ہے جو اپنے ایمان کے لیے اپنی جان تو دے دیں گے لیکن کبھی بھی دشمن کے سامنے کلمہِ حق کہنے سے باز نہیں آئیں گے۔ تاریخ میں ایسی ہی ایک مثال ہمیں تقسیمِ ہند سے قبل لاہور کے رہائشی غازی علم الدین میں نظر آتی ہے۔ غازی علم الدین پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھا جس کی عمر 19ﺳﺎل تھی۔ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻨﺪ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے ﻧﮯ ﻋﻠﻢ الدین ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ طوفان ﺑﺮﭘﺎ ﮐﺮ دیا۔ 1923ء ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻨﺪﻭ مہاشے راج پال ﻧﮯ رنگیلا رسول کے نام سے ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﷺ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ ﮐﺘﺎبچہ شائع کیا۔ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺿﯽﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﺟﺴﮯ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭ ناشر مہاشے ﺭﺍج پال ﻧﮯ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﯿﺎ۔ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﺎﺯﯾﺒﺎ ﺑﺎﺗﯿﮟ اور گستاخانہ مواد ﺩﺭﺝ تھا جسے ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﻏﻢ ﻭ ﻏﺼﮯ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ ﺩﻭﮌ ﮔﺌﯽ۔مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کو للکارا گیا تھا تو مسلمانوں میں غیض و غضب کا پایا جانا فطری بات تھی۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺒﻠﺸﺮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺩﺍﺋﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺳﯿﺸﻦ ﮐﻮﺭﭦ ﻧﮯ مہاشے ﺭﺍج پال ﮐﻮ ﻣﺠﺮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺰﺍ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻻﮨﻮﺭ ﮨﺎئی کورٹ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﭘﯿﻞ ﮐﯽ۔ ﺳﻤﺎﻋﺖ
ﻣﯿﮟ ﻣﺠﺮﻡ ﺭﺍج پال ﮐﻮ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ گیا ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ سرے سے ﻣﻮﺟﻮﺩ ہی نہیں ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺎئی کورٹ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺷﺮوع ﮐﺮ ﺩﯼ۔ غازی علم الدین ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺭﺷﯿﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻭﺯﯾﺮ ﺧﺎﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮨﺠﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮨﻨﺪﻭ ناشر ﺭﺍج پال ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻧﻌﺮﮮ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ تلاﻃﻢ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮨﺠﻮﻡ ﮐﮯ ﻧﻌﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﻧﺞ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﻨﮉ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ عشقِ محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جو طوفان امڈا تھا، اس کی تلاطم خیز موجوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ قوت و حرارتِ ایمانی سے ہر دل لبریز تھا۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ۔
“مسلمانو! ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺭﺍج پال ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡﷺ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺪﺍﻟﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺍﻓﺰﺍﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔”
ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ان الفاظ کا غازی علم الدین کے دل پر گہرا اثر ہوا۔ ﺍس نے فوراً ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﺴﺘﺎﺥِ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﻮ ﺟﮩﻨﻢ واصل ﮐﺮ ﮐﮯ
ﮨﯽ ﺩﻡ ﻟﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ اﺱﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﺭﺷﯿﺪ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺭﺍج پال ﮐﻮ ﺍﺱ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﺎ ﻣﺰﺍ ﭼﮑﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻗﺮﻋﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﮐﯽﺍﻭﺭ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﺮﺗﺒﮧ غازی ﻋﻠﻢ الدین ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺁﯾﺎ، ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ ﺭﺷﯿﺪ، ﻋﻠﻢ الدین ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﺳﺘﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ اللّٰہ رب العزت ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺷﺎﯾﺪ غازی ﻋﻠﻢ الدین ﮐﮯ ﮨﯽ ﻧﺼﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ 6 اپریل 1929ء کو غازی علم الدین بازار کے لیے روانہ ہوا اور ایک روپیہ میں ایک خنجر خریدا۔ اس نے خنجر کو اپنی پتلون میں چھپا لیا اور راج پال کی دکان سے کچھ فاصلے پر راج پال کا انتظار کیا۔ راج پال ابھی نہیں پہنچا تھا۔ غازی علم الدین نہیں جانتا تھا کہ راج پال کیسا نظر آتا ہے؟ اس نے آس پاس کے لوگوں کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ راج پال کہاں تھا۔ راج پال دکان میں داخل ہوا اور علم الدین نے اسے نہیں دیکھا لیکن جلد ہی کسی نے اسے اطلاع دی کہ راج پال اندر موجود ہے۔ علم الدین دکان میں داخل ہوا اور راج پال پر حملہ کر دیا۔ اس نے اپنا خنجر راج پال کے سینے میں گھونپ دیا۔ وہ زمین پر گر پڑا اور فوراً دم توڑ گیا۔ پولیس نے علم الدین کو گرفتار کر لیا اور اسے لاہوری گیٹ پولیس اسٹیشن لے گئے ۔ بعد ازاں علم الدین کو سینٹرل جیل میانوالی منتقل کردیا گیا۔ اس قتل کی وجہ سے پنجاب اور اس سے باہر کے علاقوں میں کافی مذہبی تناؤ پیدا ہوا۔ غازی علم الدین کا مقدمہ لڑنے والے وکیل کا نام فرخ حسین تھا۔ استغاثہ کی طرف سے دو گواہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ قصوروار تھا۔ اس کے بعد ممتاز ہندوستانی وکیل ، اور بعد میں بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا۔ قائداعظمؒ نے ناسازگار حالات کی بنیاد پر اپیل کرتے ہوئے کہا کہ علم الدین ابھی صرف 19 یا 20 سال کا ہے، انہوں نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس بحث کو عدالت نے مسترد کر دیا۔ غازی علم الدین کو مجرم قرار دیا گیا اور اسے تعزیرات ہند کے مطابق سزاۓ موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢؒ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﻧﮯ غازی ﻋﻠﻢ الدین ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻟﮍﺍ۔ علم نہیں کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے لیکن بعض جگہ یہ درج ہے کہ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢؒ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ غازی ﻋﻠﻢ الدین ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺮﻡ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۔ ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ الدین ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ کہہ ﺩﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟﮐﯿﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻗﺘﻞ ﭘﺮ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻓﺨﺮ ﮨﮯ، ﮐﻮﺭﭦ ﻧﮯ ﻋﻠﻢ الدﯾﻦ ﮐﻮ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺩﯼ۔ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﻟﺒﺮﻝ ﺗﺼﻮﺭ کیے ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﮐﮯ زبردست ﺣﺎﻣﯽ ﺗﮭﮯ، ﮨﻨﺪﻭ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻧﮯ ﺍﻥ پر الزامات لگاۓ اور وہ کڑی تنقید کی زد میں رہے ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢؒﻧﮯ ﺍﺱ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ:
“ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ کے لیے ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡﷺ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮨﮯ۔ ”
بالآخر وہ دن آ ن پہنچا جب شمعِ نبوت کے اس پروانے کو سزاۓ موت دی جانی تھی۔ 31 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1929ﺀ کو ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ الدین ﮐﯽ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ عمل دﺭﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ۔ اس ﺳﮯ ﺍس ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﭼﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍس ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﻧﻤﺎﺯ ادائیگی ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ الدین ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﮔﮭﺎﭦ ﭘﺮ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭘﮭﻨﺪﺍ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﻮﮔﻮﮞ کے سامنے جو تاریخی کلمات کہے، وہ یہ تھے:
“ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ! ﮔﻮﺍﮦ ﺭﮨﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ گستاخ ﺭﺍج پال ﮐﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺟﮩﻨﻢ واصل ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﺎ ﻭﺭﺩ ﮐﺮتے ہوۓ ﺣﺮﻣﺖِ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﻧﭽﮭﺎﻭﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔”
ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ الدین ﺷﮩﯿﺪ ﮐﻮ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ ﺍﻥ کا جسدِ خاکی بغیر ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ کے ﺟﯿﻞ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻨﺎ دیا، ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ شاعرِ مشرق ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﻢ ﭼﻼﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﮨﺎﻧﯽ کروانے ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮧ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﺁﺭﺍﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ، نمازِ جنازہ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ۔15 ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﺴﺪِ ﺧﺎﮐﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺮﻭﺗﺎﺯﮦ ﺗﮭﺎ۔ غازی علم الدین ﺷﮩﯿﺪ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﺳﮯ غازی ﻋﻠﻢ الدین ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯿﮟ،ﺍﺱ لیے ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺳﮑﺘﮯ۔ ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻋﺎﺷﻖ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﻮ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺩﮮ۔
کہا جاتا ہے کہ غازی علم الدین شہید کی آخری رسومات میں تقریباً 600000 افراد شریک ہوئے۔ جب علامہ اقبالؒ نے غازی علم الدین کی لاش قبر میں رکھی ، تو انہوں نے آنسوؤں سے تر آواز میں اعلان کیا: “ہم صرف بات کرتے رہے ، بڑھئی کا بیٹا ہم سے آگے نکل گیا”۔
ناقدین اور ممتاز بائیں بازو کے کارکنان و مصنفین نے اس کا ذکر شدت پسندی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کیا ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ قومی رہنماؤں کے اس طرح کے بیانات مسئلے ہیں۔ جبکہ دائیں طرف سے عوام نے غازی علم الدین ، جسے اسلام کے ہیرو کے طور پر دیکھا اور مانا جاتا ہے ، اور علامہ اقبالؒ بھی اس قول کی تعریف کرتے ہیں۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﻧﮯ ﻏﺎﺯﯼ ﻋﻠﻢ الدین ﺷﮩﯿﺪ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ۔ﻋﻠﻢ الدین ﺷﮩﯿﺪ ﮐﯽ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﯼ۔ اس واقعے کے بعد ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﻮ ﺟﺮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﺎ ﭘﯿﺶ ﺧﯿﻤﮧ ثابت ہوئی۔تخلیقِ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻮﮨﯿﻦِ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ”ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﯿﻨﻞ ﮐﻮﮈ“ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ 1982ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺟﻨﺮﻝ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺤﻖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ ﻗﯿﺪ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﷺ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﯽ سزا، سزاۓ موت رکھی۔ دورِ حاضر میں جب فرانس میں حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں جو گستاخی کی گئی ہے اور جو گستاخانہ خاکے بناۓ گئے ہیں، ان گستاخانہ خاکے بنانے والوں کو اور ان کو سرکاری سرپرستی فراہم کرنے والوں کو بھی سزاۓ موت دی جانی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر سے کوئی غازی علم الدین آۓ گا اور وقت کے راج پال کا خاتمہ کر دے گا۔
Facebook Comments