اچھا ایسا کرو۔۔۔۔اسرار احمد

السلام علیکم سیٹھ جی! بارہ سالہ عبدالرحمن نے دکان پر پہنچ کر با آواز بلند سلام کیا
کبھی جلدی بھی آجایا کرو ٹائم دیکھو کہاں پہنچ گیا ہے بشارت علی نے سلام کا جواب دیئے بغیر ناگواری سے کہا۔۔۔اچھا ایسا کرو پہلے دکان کی صفائی کر لو مجھے ایک تنکا بھی نظر نہ  آئے،پتہ نہیں تمہارا دھیان کدھر رہتا ہے،بشارت علی نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

عبدالرحمن مشینی انداز میں اپنے کام میں جت گیا،بشارت علی کی ہدایات وقفے وقفے سے جاری تھی۔آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد پسینے میں نہایا اپنے کام سے فارغ ہوا تو بشارت علی کا نیا فرمان تیار تھا۔۔۔۔اچھا ایسا کرو یہ سامنے والے تھان نکالو انہیں کھول کر دوبارہ لپیٹو اور ایسے رکھو کہ ایک بھی سلوٹ نظر نہ  آئے،اور ہاں پہلے میرے لیے ایک چائے کا کہہ کر آؤ۔۔۔۔۔۔عبدالرحمن ابھی کام میں مصروف تھا کہ بشارت علی کے فون کی گھنٹی بج اٹھی،
اچھا بھیجتا ہوں ابھی بھیجتا ہوں فون بشارت علی کے گھر سے تھا۔
اچھا ایسا کرو ،عبدالرحمن کے کام کرتے ہاتھ اچانک رک گئے،یہ ہزار روپے لو بشارت علی نے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہا میرے گھر جاؤ اور جو بھی سودا سلف وہ کہیں وہ لا کر دو،اور ہاں کام کر کے سیدھا یہاں آنا پتہ نہیں پھر کہاں کہاں پھرتے رہتے ہو،عبدالرحمن سر ہلا کر رہ گیا۔

وہ واپس آیا تو دکان پر گاہک موجود تھے۔۔۔دونوں سیلز مین چھٹی پر ہونے کی وجہ سے بشارت علی خود کپڑا دکھا رہا تھا،عبدالرحمن کو دیکھا تو چلا اٹھا کہاں رہ جاتے ہو تم کتنی مرتبہ سمجھایا ہے پر تم پر کہاں اثر ہوتاہے۔  گودام میں جاؤجو کل کپڑا آیا تھا اس میں سے کچھ تھان لے کر آؤ بشارت علی اچانک اپنی بات کاٹ کر بولا۔بھاری بھرکم تھان اٹھائے جب وہ واپس آیا تو بشارت علی اور گاہکوں کی بحث جاری تھی۔۔یہ چھوڑیں آپ یہ دیکھیں، بشارت علی اس کے لائے ہو ئے تھان دکھاتے ہوئے بولا لیکن گاہک اٹھ کر چلے گئے۔

یہ کیا اٹھا لائے ہو؟۔۔۔ کب سمجھو گے،کیوں کرتے ہو تم ایسا؟بشارت علی کا بھاری ہاتھ اس کے منہ پر انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔مجھے اس بات کی سزا دے رہے کہ میں نے تم پر ترس کھا کر کام پہ رکھا ہوا ہے،ورنہ جیسے تمہارے کرتوت ہیں کوئی تمہیں ایک دن بھی نہ  رکھے۔سال ہونے کو آیا ہے اور تمہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ کس گاہک کو کس قسم کے کلر دکھانا چاہیے۔۔۔۔۔بشارت علی غصے سے دھاڑا۔
عبدالرحمن ہمیشہ کی طرح گال سہلا کر پھیلاوا سمیٹنے لگا۔۔۔

اچھا ایسا کرو گھر جاؤ اور کھانا لے آؤ،بھوک سے برا حال ہے۔۔۔۔عبدالرحمن گودام سے تھان رکھ کر واپس آیا تو بشارت علی نے نیا حکم جاری کر دیا۔واپسی پر اس کے ہاتھوں میں دو ٹفن تھے ایک بڑا نیا اجلا سا اور دوسرا چھوٹا سا میلا کچیلا ٹفن،اس نے خاموشی سے نیا ٹفن بشارت علی کے آگے رکھ دیا۔
بشارت علی عجلت میں ٹفن کھول کر کھانے پر ٹوٹ پڑا،تم میرا منہ کیا دیکھ رہے جاؤ تم بھی کھالو بشارت علی نے گویا اس کی سات پشتوں پر احسان کیا تھا۔۔۔۔
کھانے سے فارغ ہو کر بشارت علی اپنی نشست پر ڈھے  سا گیا،

اچھا ایسا کرو ذرا میرے پاؤں دبا دو،درد سے برا حال ہے۔بشارت علی نے نیا حکم جاری کیا۔۔۔یہ سن کر اس کے برتن سمیٹتے ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔
پتہ نہیں یہ درد کب جان چھوڑے گا واقعی محنت کرکے کمانا بہت مشکل ہے،جسم ٹوٹنے لگتا ہے،دبواتے ہوئے بشارت علی کی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔
ذرا اچھے سے دباؤ کھانے پینے میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔بشارت علی گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
شام کو دکان بند کرنے سے ذرا پہلے بشارت علی کا دیرینہ دوست آگیا۔۔۔۔۔دونوں دوست گرمجوشی سے بغلگیر ہوئے،

اچھا ایسا کرو دو جوس بنوا لاؤ اور اسے کہنا کہ برف کم ڈالے۔۔۔۔
اور سناؤ شوکت کافی دنوں بعد چکر لگایا ہے،بشارت علی نے استفسار کیا
بس یار مصروفیات ہی ایسی تھیں کہ ٹائم نہیں ملا آنے کا،تم سناؤ کاروبار کیسا چل رہا ہے۔
بس نہ پوچھو کاروبار کا مندی نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے بشارت علی مایوسی سے بولا۔۔ اتنے میں عبدالرحمن جوس لے کر آگیا۔۔۔۔۔۔۔یہ لو اور صبح ذرا جلدی آکر گودام کی صفائی کرلینا،بشارت علی نے اس کی جانب دو سو روپے پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔عبدالرحمن سلام کرکے چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہی دیکھ لو دکان میں کچھ آئے نہ  آئے ان کو تو اپنی دیہاڑی سے مطلب،بشارت علی نے جاتے ہوئے عبدالرحمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ یقین کرو کسی کام کا نہیں ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے،اس کے لہجے میں بیزاری نمایاں تھی۔تو ہٹا دو کام سے شوکت نے مشورہ دیا۔۔۔کہتے تو تم ٹھیک ہو۔۔۔مجھے بھی اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے تم تو جانتے ہو میری دکان میں کام ہی کتنا ہے،بس یتیم سمجھ کر رکھا ہوا ہے آخر خدا کو بھی تو جواب دینا ہے بشارت علی آسمان کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
شوکت بھی اثبات میں زور زور سے سر ہلانے لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply