مراجعت۔۔محمد جمیل احمد

رمضان کا پہلا روزہ تھا اس نے ماں سے لسٹ بنوائی اور  سامان  لینے  بازار کو   روانہ ہوگیا۔اس نے اپنے دوستوں کو افطاری پر مدعو کیا تھا۔۔ پھل اور طرح طرح کی کھانے پینے کی اشیاء خرید کر واپس آیا اور ماں سے کہنے لگا کہ خاطر تواضع میں کسی قسم کی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ میرے بہت خاص دوست ہیں۔ اس کی ماں اور دونوں بہنوں نے ساتھ مل کر لذیذ کھانے تیار کیے، افطار کا وقت قریب آیا تو دستر خوان پر برتن لگنا شروع ہوگئے۔۔ افطار سے کچھ دیر پہلے دوست پہنچ گئے اور گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔وقت پر روزہ افطار کیا گیا، افطاری کے بعد اسکے سب دوستوں نے کھانے کی بہت تعریف کی جو سنتے ہی چھوٹے صاحب کا سینہ چوڑا ہوگیا اور اسے دوستوں کے سامنے اپنا وجود وزنی محسوس ہونے لگا۔ دوست احباب کے جانے کے بعد اس نے باہر لان میں جائے نماز بچھایا اور نماز ادا کرنے کیلئے   کھڑا ہوگیا۔ اچانک لان کے ساتھ چھوٹی دیوار کے اس پار سے اس کے کانوں میں ایک آواز پڑی ۔۔

“ماں۔۔ آپ ایک دفعہ کہو تو ساتھ والے انکل سے، وہ ہمیں تھوڑی سی چیزیں ضرور دے دیں گے، میں نے خود انکو اتنی زیادہ کھانے کی چیزیں لاتے دیکھا ہے۔ ماں آپ ان سے ایک دفعہ مانگو تو سہی۔۔”

یہ سن کے ماں نے بیٹے کو کہا۔۔۔

“بیٹا۔۔۔ میں ایسے نہیں مانگ سکتی انکل سے۔ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ پاک کی ہے بس ہمیشہ اسی سے مانگو جو بھی مانگو۔ وہ کبھی تو اپنے بندوں کو جلد نواز دیتا ہے اور کبھی ان کا  امتحان لیتا ہے صبر کا اور پھر بہت نوازتا ہے۔۔۔ بس وہی ایک ذات ہے جو بھی مانگو اسی سے مانگو۔”

بچہ اپنی ماں سے پوچھنے لگا۔۔۔

“ماں۔۔۔ جب میں بڑا ہوجاؤں گا تو ہمارے گھر بھی اتنے کھانے آیا کریں گے ؟”

ماں نے اسے سینے سے لگایا اور بولی۔۔۔

“جب میرا بیٹا  افسر بن جائے گا تو میرے بیٹے کے دوستوں کے آنے پر میں بھی اسی طرح کھانا بنایا کروں گی۔”

پھر ماں نے مسجد سے آئی چاولوں کی پلیٹ بیٹے کی طرف بڑھائی۔۔۔

“ماں۔۔۔ تم نہیں کھاؤ گی”

“بیٹا تجھے پتا تو ہے تیری ماں کو بھوک کہاں لگتی ہے۔”

جائے نماز پر کھڑے چھوٹے صاحب جن کو ابھی اپنا وجود بڑا وزنی محسوس ہورہا تھا اپنا آپ ہوا سے بھی ہلکا لگنے لگا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اسکے سر کے اوپر نہ آسمان ہے اور نہ پیروں تلے زمین۔ وہیں پر سجدہ ریز ہوگیا اور رونے لگا۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــرمضان کے اس مبارک مہینے کی آمد ہے اور آپ نے ابھی تک کتنے ضرورت مندوں کو اپنی استطاعت کے مطابق راشن بھجوایا یا مدد کی۔۔۔ میں آپ سے سوال نہیں پوچھ رہا کیونکہ آپ مجھے جوابدہ نہیں۔۔۔ میں صرف توجہ دلا رہا ہوں۔۔۔ البتہ میں خود  سے یہ سوال ضرور کررہا ہوں۔آپ بھی چاہیں تو خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔

ہمارا  ہمسایہ شیعہ، سنی، دیوبندی یا وہابی ہے تو اسکے لئے ہم جوابدہ نہیں، لیکن اگر وہ بھوکا ہے تو اسکا جواب یقیناً ہمیں دینا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانیت مذہب مسلک سے بھی پہلے کی شرط ہے۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply