انتظا ر حسین-پر یو ں کے د یس سے(1)۔۔۔رابعہ الرُّبا

آ گے سمند ر ہے۔
یہی پچھلے سا ل کاوا قعہ ہے شا ید آج ہی کا دن تھا۔یعنی کر اچی لٹر یچر فیسٹیول کے پہلے دن کی صبح تھی۔مجھے  صبح  چھ بجے کے بعد نیند نہیں آتی۔
اْٹھ کر با ہر نکل گیا۔ہو ٹل سمند ر کے کنا ر ے وا قع تھا۔اور کنا رابھی ا یسا سر سبز اور درختو ں سے گھر ا ہو ا جس میں بے شما ر پر ند ے صد یوں پر انی بو لیاں بو ل ر ہے تھے۔کیا د یکھتا ہو ں انتظا ر حسین ایک جگہ لا ٹھی ٹیکے سمند ر کی طر ف منہ کر ے کھڑے ہیں اور درختو ں پہ سا یہ کیے پر ند و ں کو غور سے د یکھ ر ہے ہیں۔میں بھی آ رام سے پیچھے جا کھڑا ہو ا۔آہٹ پا کر مڑے اور بو لے،نا طق میا ں سو یر ے جا گ لیے۔د یکھو سمند ر کے پر ند ے کیا بھلے لگ ر ہے ہیں۔میں نے کہا انتظا ر صا حب آ گے چلتے ہیں۔ذرا سمند ر کے بیچ اس کشتی پر، و ہا ں اس سے بھی بھلا منظر ہے۔اور د یکھیے ہو ا بھی کیا جا نفز ا ہے۔اس کے بعد ہم لکڑی کے بنے ہو ئے تختو ں پر سے گز ر کر جو پا نی کے او پر ذرا آگے تک جا نے کے لیے ر کھے تھے۔سمند ر کی اور بڑ ھنے لگے۔وہ آگے لا ٹھی ٹیکے جا ر ہے تھے اور میں پیچھے پیچھے تھا۔آخر تک پہنچ کر ہم ر ک گئے۔بہت با تیں کیں، یہا ں ہو ا مست کر د ینے والی تھی۔سب لو گ سو ئے ہو ئے تھے۔ہم دونوں اور سمند ر اور پر ندے اور ہوا اور درخت جا گ رہے تھے۔نظارہ  خو ب پا کر میں نے کہا انتظا ر صاحب ذرا اس کشتی پر چلیں جورسوں کے ساتھ بند ھی جھو ل ر ہی ہے۔کہنے لگے، نہ بھا ئی، یہ لکڑی کی پگڈنڈی تو بہت تنگ اور کمزور لگتی ہے۔کہیں پا ؤ ں پھسل گیا تو یہا ں کو ن سنبھالے گا۔میں نے کہا ’انتظا ر صا حب میں ہو ں نا، آپ کو ڈوبنے نہیں دوں گا،کہنے لگے بھا ئی’ہم آگے نہیں جا ئیں گے بھلے آ پ بچا لو مگر اتنے میں دل ڈو ب جا ئے گا،۔ان کی با ت سن کر مجھے ہنسی آگئی۔۔۔قر یب ایک گھنٹہ وہا ں ٹہلتے رہے۔

آج یہی سمند ر کا کنا را ہے۔کر ا چی لٹر یچر فسٹیول کا پہلا دن ہے،صبح کے چھ بجے ہیں۔سب لو گ سو ئے ہو ئے ہیں۔در خت لہلہا ر ہے ہیں۔پر ند ے چہک ر ہے ہیں۔ہو ا ئیں مست ہیں اور انتظا ر حسین سمند ر سے پا ر کہیں نکل گئے ہیں۔میں اکیلا یہا ں پھر ر ہا ہو ں کیو نکہ صبح چھ بجے کے بعد مجھے نیند نہیں آتی۔۔

علی اکبر نا طق کی یہ تحر یر جب میں نے پڑھی تو چہر ے پہ مو جو د دوچشمے چھلک پڑے۔میں نے سو چاتھا کہ میں اب کو ئی لفظ اس ازلی حقیقت کے حوا لے سے نہیں لکھو ں گی مگر مجھ سے نہیں ر ہا گیا کیونکہ  انتظار حسین سے وابستہ ہر ہر فرد اسی کیفیت سے گزرا تھا۔
”میں اکیلا یہا ں پھر ر ہا ہو ں،،
مجھے ان سے وہ آخر ی ملا قا ت یا د آ گئی جب میں ان کی آواز سننے کے لیے ان کے پیچھے جا کھڑی ہو ئی تھی۔یہ روشن مسکر ا تی پُر سکون سپہر تھی۔آواری ہو ٹل لاہو ر میں پاک چائنا کانفرنس جا ری تھی۔انتظا ر حسین جو ادیبو ں دوستوں کے جھڑ مٹ میں کھڑے تھے اور ایک د ھیمی سی مسکرا ہٹ ان کے لبو ں پہ سجی ہو ئی تھی۔میری نظر ان پہ پڑ ی تو مجھے لگا جیسے ہر گز ر تا لمحہ ان کے چہر ے پہ  ایک  نئی معصومیت لا ر ہا ہے۔میر ا د ل چاہا،صرف ان کو دوسر وں سے با تیں کر تا سنوں۔ان کے لہجے کی معصومیت اور ٹھہر اؤ مجھے یو نہی ا چھا لگتا تھا۔میں ان کے پیچھے جا کے کھڑی ہو گئی۔
انسان پر عمر کا اثر ضرور ہو تا ہے مگر ایک اند ر کی عمرہو تی ہے، انسان پر دنیا کا اثر بھی ہو تا ہے مگر ا یک اند ر کی بھی د نیا ہو تی ہے۔جو آنکھو ں میں کشتیو ں کی صو رت نظر ا ٓ جا تی ہے۔ میں ا کثر لو گو ں سے ملتے ہو ئے ان کی آ نکھو ں میں انہی کشتیو ں کے سفر کو د یکھا کر تی ہو ں۔اس روز یہی کشتیا ں میں نے ان کی آ نکھو ں میں بھی د یکھیں۔وہ مسکر ا ر ہی تھیں،جیسے منز ل پہ با وقا ر پہنچ گئی ہو ں۔(میر ے خیا ل میں یہ آنکھیں،اندر کے حسین سفر کر نیوالو ں کی ہو تی ہیں۔اگر چہ انتظا ر صا حب کے ہا ں آنکھو ں کا یہ سفر ہمیشہ با وقار و پر سکون ہی نظر ا ٓیا)۔

اک ملا ل ہے، ان کی ا یک اما نت میر ے پا س رہ گئی، میر ے پا س ان کے ا یک دوست کے سا تھ لی گئی ان کی چند تصا و یر تھیں،میں نے ان سے و عد ہ کیا تھا کہ جلد پہنچا دونگی،مگر وقت کا سفر،وہ ان چند ما ہ بہت مصر و ف ر ہے تو کبھی کو ئی مصروفیت میر ی د ہلیز پہ د ستک دے دیتی۔

چو نکہ و عد ہ تھا کہ میں خو د آ ؤ نگی اور ہم ”ادب اور انٹر نیٹ اور ادبی فیسبک، کے مو ضو ع پہ جوگفتگو کر رہے تھے جا ر ی ر کھیں گے۔۔لیکن بس سفر اتنا ہی تھا۔وہ پر یو ں کے د یس کی با تیں کر نے والی ہستی،خود پر یو ں کے د یس چلی گئی اور اب وقتی طو ر پر جیسے ز مین کی کہا نی کے لیے ہما رے لفظ ساتھ نہیں دے ر ہے۔ہم سب کے ساتھ اس لمحے یہی ہو ا کہ ہما رے لفظ ہما رے جذبا ت کا ساتھ نہیں دے ر ہے تھے۔جیسے جا تے جا تے محبت کے سا رے لفظ وہ اپنے ساتھ پر ستان ہی لے گئے ہو ں۔

ان کی وفات کے وقت شاہد حمید سے صاحب سے با ت ہو ئی تو لگا ان کی آنکھیں بھی ابھی تک اند ر کہیں چشمہ بنا ئے ہو ئے ہیں۔میں نے انہیں ہمیشہ ہنستے مسکر اتے،کھلکھلاتے ہی د یکھا ہے مگر اس روز وہ بہت اداس تھے۔کہنے لگے”لاہو ر گیا تھا، انہیں ر خصت کر کے آگیا ہو ں۔۔۔بہت د کھی ہو ں، انتظا ر حسین کے چلے جا نے کے بعد۔۔۔۔کچھ محبت سی ہو گئی تھی ان سے۔،،

میں نے کبھی شاہد حمید کو لفظو ں اور جذبو ں کے سمند ر میں متلا طم نہیں د یکھا۔مگر یہ بے بسی مجھے ان کے ہا ں اس روز پہلی د فعہ محسو س ہو ئی۔
انتظا ر صا حب charismatic personality تھے۔ایسے لو گوں سے سب کو پیا ر ہو جا تا ہے۔کسی حد تک یہ روحا نی وصف ہے۔جو خداداد ہے اس میں انسا ن کی کا و شیں،اچھائیوں وبر ا ئیو ں کا عمل د خل نہیں ہو تا۔محبت کے یہ گلستان ان کی زند گی میں بھی ہمیں د کھا ئی د یتے ر ہے اور وفات کے بعد محبتوں کے شہر میں کو ئی گلد ستہ نہیں بچا جو ان کے قد مو ں میں نچھاور  نہ  کر دیا گیا ہو۔

امجد طفیل کبھی نہیں بھلا پا ئیں گے کہ اس صدی کا قصہ جب تما م ہوا تو آخر ی کا نفر نس ”حلقہ اربا ب ذوق”کی پہلی” ایک روزہ کانفر نس، تھی۔جس کی صدارت انتظا ر صاحب نے کی۔اور صدارتی خطبہ د یا۔اس وقت نہیں معلو م تھا کہ چند دن بعد۔۔۔یو ں یہ ان کی زند گی کی آخر ی کانفرنس تھی۔

وہ سب جو ان کو ہسپتا ل د یکھنے جا ر ہے تھے اور سو چ ر ہے تھے کی ز ند گی کی ا صل داستا ن تو سب کی سا نجھی ہے۔سب ا یک دو سر ے کو تسلی دے ر ہے تھے ا یک دوسر ے کو وقتی صور ت حا ل سے آگا ہ کر ر ہے تھے مگر اندازہ سب کو تھا کہ کیا خبر گو ش گز ا ر ہو نے والی ہے۔

بہر حا ل ا یک صد ی کا سفر وادی ِ پر ستا ن میں اپنی کہا نیو ں داستا نو ں سے ملتے ہو ئے کسی نر م ہو ا کے جھو نکے پر چو نک کر د یکھتا ہو گا تو محبت بھر ے کئی چہر ے اسے کسی اور کا ئنا ت سے مسکر اتے د کھا ئی د یتے ہو نگے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ وہ پرستان کی باتیں کرنے والے مجھے میرے نا م سے نہیں بلایا کر تے تھے۔ اک کا خیال تھا میرا نام ذرا مشکل ہے۔ وہ مجھے “پری وش”کہا کرتے تھے۔ اس سے مجھے اندازہ ہو تا کہ شاید وہ اس دنیا میں بظاہر سفر تو کر تے نظر آتے ہیں مگر ر ہتے کسی اور دنیا میں ہیں۔ جس دنیا کو وہ اپنے افسانو ں اور ناول میں پینٹ کر گئے۔

انتظا ز حسین کے با رے میں کہا جا تا ہے کہ وہ ماضی پرست تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حال ما ضی ہی کا شا خسانہ ہے۔ صرف شکل بد ل لیتا ہے اور ساتھ سفر کرنے لگتا ہے۔ وہ جس ما حول میں پرورش پا رہے تھے اس کی اپنی روایات تھیں، یہ راویات ان کے ساتھ جڑی رہیں۔ کیو نکہ بچپن کا نقش بہت گہرا ہو اکرتا ہے۔ یو ں بھی اگر کسی تخلیق کا ر کی اپنی کو ئی انفرادیت نہ ہو تو، نہ  تو اس کا ادب زندہ رہتا ہے، نہ  اس کے لکھے کی کو ئی الگ شنا خت ہو تی ہے۔

انتظار حسین کے فن کو چار ادوارمیں تقسیم کیا جا تا ہے، اگرچہ ان کی تحریروں کے اعتبا ر سے اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جائے تو بھی بے جا نا ہو گا۔

ان کے فن کی اہم ترین خو بی علا مت نگاری ہے۔ یو ں محسوس ہو تا ہے کہ یہ فن انتظار حسین نے قرآن و اساطیر سے سیکھا۔ علا مت ایک فن ہے اور یہ فن ہے کیا۔ پہلے یہ سمجھنا ہو گا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سہیل احمد خا ن لکھتے ہیں
” یہ لفظsymbol اصل میں نکلا کہا ں سے ہے؟ یہ لفظ ایک یو نا نی لفظ سے مستعار لیا  گیا ہے۔ اس کا بنیا دی مفہو م، ایک ساتھ رکھی گئی یا ایک ساتھ پھینکی گئی چیزوں کا ہے کیو نکہ علا مت میں ہمیشہ دو چیزوں کا بیان ہو تا ہے۔
ایک طرف اگر گلا ب ہے تو دوسری طرف محبت ہو نی چاہیے۔جس کو گلا ب سے تشبیہہ دی جائے یا جس کی علامت کے طو ر پر اس کو استعما ل کیا جائے یا جس کے نعم البدل کے طو ر پر اس کو لکھا جائے تو ہر علا مت ایک سطح پر لغوی اور دوسری سطح پر اپنی اس سطح سے آ گے ہو تی ہے،
(راوی۶۰۰۲، جی سی یو نیورسٹی لا ہو ر۔۔۔۔ ص، ۴)

اس تعریف کے حوالے سے دیکھا جائے تو انتظار حسین کے ہا ں علامت کی یہ خوبی اپنے عروج پہ نظر آتی ہے، یہ اپنی سطح سے بہت آگے نظر آتی ہے۔ ان کی علامت میں رنگ تب مزید ابھر آتے ہیں، جب مذہب و اساطیر سے ان کا سنگم ہو تا ہے۔اور یہ اتنا پْر پیچ راستہ ہو جاتا ہے کہ عام قاری کو اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل احمد انتظار حسین کی علا مت نگاری کو کچھ یو ں دیکھتے ہیں۔
”انتظار حسین بندروں پر نہیں لکھ رہا، وہ تو ان انسانو ں کی کہانیاں سنا ر ہا ہے جو بندر بن کئے ہیں۔ اس وقت کرپشن و غیرہ ہما رے معاشرے میں نئی نئی وبا کے طو ر شروع ہو رہی تھی۔تو وہ یہ بتا رہا تھا کہ ہم اشرف المخلو قات کے درجے سے آہستہ آہستہ گرتے چلے جا رہے ہیں اور جا نوروں میں تبدیل ہو رہے ہیں تو اس وقت یہ ما حول تھا اور اب یہ عالم ہے کہ ہندوستان، پا کستان میں سب سے زیادہ چرچا ہمارے ادیبو ں میں قراۃالعین حیدر، انتظار حسین اور اس قسم کے افسانہ نگاروں کا ہے جو علامتی رنگ میں لکھتے ہیں،،
(”راوی،، جی سی یونیورسٹی لاہور ۶۰۰۲، ص ۴)

ان کے ہا ں علا مت نگاری میں وقت کے ساتھ ساتھ مو ضوعات و حالات کے تغیر کے باوجود ارتقا ء نظر آتا ہے۔ یہ ارتقاء ان کے فن کے حسن کو بڑ ھاتا ہے اور معنویت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
ان کے ادب کی ایک منفرد خصوصیت ان کا اساطیری رنگ ہے۔ یہ رنگ شا ید ان کی زندگی کا بھی رنگ رہا۔ ان کی ما ضی پر ستی لا مکا ں کی حد تک وسیع تھی، یہی سے اس میں اساطیر سما جا تی ہیں۔ لا محدود ما ضی کے واقعات و حالات اور اس سے پیدا ہو نے والے اسبا ب و کر دار ان کے ساتھ ساتھ، ان کہا نیو ں میں بھی جلوہ گر ہو تے رہے۔ وہ اپنے ایک مضمو ن میں لکھتے ہیں۔
”ابتدا میں کلا م تھا۔ سننا سنانا تھا۔ شاعری اور کہا نی دونو ں کا معاملہ یہی تھا۔ سنائی جا تی تھی اور سنی جا تی تھی۔ جب میں کہا نی کی ابتدا کے بارے میں سوچتا ہو ں تو تصور میں لمبی کا لی رات منڈلا نے لگتی ہے۔ اور ایک دہکتا ہو ا الاؤ۔ الاؤ کے گرد بیٹھے ہو ئے لو گ، کو ئی کہتا ہے کہ کہا نی سنا ؤ کہ بات چلے رات کٹے۔ کہا نی کا ر کہا نی شروع کر دیتا ہے۔رات بھیگتی جا تی ہے اور کہا نی جاری رہتی ہے۔ اس میں صبح ہو جاتی ہے۔ کہا نی ختم۔ کہنے والے کا بھلا سننے والے کا بھلا۔ یہ اختتامی فقرہ میری نا نی اماں کا ہے جو انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر کہا نی سنا تی تھیں۔ اور ہمیشہ رات میں، دن میں کہا نی کا تقا ضا  کیا جا تا تو کہتیں دن میں کہا نی نہیں سنا یا کر تے مسافر رستہ بھو ل جا تا ہے۔ قدیم ز مانے کے الا ؤ سے لے کر میری نا نی کی انگیٹھی تک کہا نی کی تاریخ اسی طرح ہے۔
(دنیا زاد ، کراچی۔۔۔ ص، ۲۲)

لہذا یہ اساطیر ان کی پرورش کا حصہ ہے۔ اور تخلیق کا ر اپنے یہی حصے اپنے لفظو ں میں پرو کر آ پ کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہی انتظار حسین نے کیا۔ یہ اسا طیر ان کے افسا نے کو زیبا ئش بخشتی ہے، تو قاری کوایک نئی دنیا کی سیر پہ لے جا تی ہے۔ مگر اس ساری تکنیک سے ان کا فن متاثر نہیں ہو ا۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر لکھتے ہیں۔”ان کے افسا نو ں میں داستا نی رنگ اور طلسمی فضا پا ئی جاتی ہے۔ وہ شہزادوں اور شہزادیو ں کی کہا نیاں سناتے ہیں۔جن میں شہزادہ مکھی بن جا تا ہے، کبھی کو ئی انسا ن بندر کی صورت اختیا ر کر لیتا ہے۔ مگر داستا نی رنگ اختیا ر کر نے کے با و جو د اس دور کی زند گی کا مر قع کھینچتے ہیں اور ہما رے آج کے مسا ئل سامنے لا تے ہیں۔ ان کے افسا نو ں میں ہما ری گزشتہ صدیو ں کی تہذیب ملتی ہے۔ انہو ں نے اپنے استعارے اور تلمیحات،انجیل، قرآن، احادیث اور ملفوظات  سے حاصل کئے ہیں۔ ان کے انداز بیان پر بھی ان کا گہرا اثر ہے۔ وہ کھو ئے ہوؤں کی جستجو کرتے ہیں اور آتش رفتہ کا سراغ لگا تے ہیں۔
(تاریخ ادب اردو۔۔۔۔ ص، ۷۴۷)

اساطیر ی طر ز تحریر کے با وجو د ان کا افسانو ی فن متا ثر نہیں ہو ا۔ افسانہ، افسانہ ہی رہاانہو ں نے اس رنگ کو استعما ل کیا تو اپنے فن کو بڑ ھانے کے لئے کیا، اور فنکاری سے کیا۔ جو الگ تھلگ نہیں لگتا۔ بلکہ افسانے میں تحلیل ہو جاتا اور اسی کا حصہ معلو م ہو تا ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی اس حوالے سے رقم طراز ہیں۔
”اس قبیل کی کہا نیاں داستان اور حکا یات و قصص کے اسی فرق اور روپوشی کے اسی رویے کا اثبات کرتی ہیں۔ ان میں نہ تو وہ طول کلامی ہے جس کے سہارے داستان گو لمبی اندھیری راتوں کو زیر کر تا ہے، نہ وہ اختصار جو کہا نی کے دائرے سے نکا ل کر اظہار کی کسی تجر باتی رو کا آئینہ بناتا ہے۔
(کہا نی کے پانچ رنگ۔۔۔۔ص، ۴۳۱)

تمثیلی رنگ، اساطیری آمیزش کی وجہ سے ان کے اسلوب نے ایک خاص رنگ اختیار کیا جو دوسروں سے بلا شبہ بہت مختلف، بہت نرالا ہے۔ جس طرح انہو ں نے مو ضوعات او ر افسانوی فن میں ارتقاء کی منزلیں طے کیں یو نہی ان کے اسلو ب میں بھی یہ ارتقاء نظر آتا ہے۔انتظا ر حسین کی یہ خوبی ہے کہ اس سب انفرادیت کے با وجو د ان کی زبا ن و بیان نہ تو متا ثر ہو ئی ہے اور نہ ہی اس میں ان کی ایک خاص ذاتی شناخت کھو ئی ہے۔
ہجرت کی یادیں اور اس سے قبل کا پر امن ما حول ان کے ذہن میں نقش رہا۔ یہی نقش ان کے ادب پہ چھا یا رہا۔ جس کے با عث اکثر نقادوں کی رائے ہے کہ وہ ما ضی پرست تھے، ہجر کے غم سے مخمو ر رہے، ہجر ت کے نقش ان کی ذات و تحریر سے نا مٹ سکے۔ وہ علا متی و اساطیری و تمثیلی طو ر پہ ہجرت کو کئی زایو ں سے اپنے تما م ادوار میں پیش کر تے رہے۔
ڈاکٹر انیس نا گی لکھتے ہیں کہ
”دراصل انتظا ر حسین تقسیم کے بعد مہا جرو ں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو بہ امر مجبو ری پا کستان چلے آئے تھے۔ لیکن جن کے رو حا نی مر کز وہ چھو ٹے چھوٹے گاؤ ں تھے جہا ں ان کے مشترکہ خا ندان آباد تھے۔ پا کستا ن بننے کے بعد یہ دنیا اجڑ گئی اور انتظار حسین اپنے قافلے کے ساتھ چلے آئے۔ انتظا رحسین کے تمام افسانے، ناول اور مضامین اسی گم گشتہ دنیا کے بارے میں ہیں۔ انتظا ر حسین پرانی قدروں کے علمبر دار ہیں اور ہر نئی حقیقت سے گریزاں ہیں۔
(پاکستا نی اردو ادب کی تاریخ۔۔۔۔۔ص۳۰۲)

یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے۔کیو نکہ جس دور میں انتظار حسین نے آنکھ کھو لی، جو کچھ دیکھا، وہ ان کے بچپن کا دور تھا۔ جو ہمیشہ انسانی ذہین پہ نقش رہتاہے۔ اور اگر نسان حساس ہو تو یہ سب نقش کرب میں بد ل جاتے ہیں۔ انتظار حسین کے ساتھ بھی یہی ہو ا، انہو ں نے چھو ٹی سی عمر میں ہجرت دیکھی، ہجرت کے تلخ تجربات و مشاہدات دیکھے، ہجرت زدہ تلخ انسانی صورتیں و روئیے دیکھے، اور اس کو لکھا۔ کہ شاید کیتھارسس ہو جائے۔ مگر ساری عمر شایدکیتھارسس مکمل نا ہو سکا۔ اور یہ ہجرت ایک ایسا مو ضوع ہے، آج تک پا کستانی ادب میں شاید اتنے بڑے افسانے کسی اور مو ضوع پہ نہیں لکھے گئے، جتنے بڑے افسانے ہجرت کے مو ضوع پہ لکھے گئے ہیں۔

انسا ن ہمیشہ جب اس قسم کے حالا ت سے دوچار ہو تا ہے تو اس کے اندر کا انسان کھلتا ہے، انسا ن کی حقیقت کیا ہے یہ مشکلات میں ہی کھلتی ہے۔ اس کے اندر کی کتنی حیوانیت جا گتی ہے، یہ وقت ہی بتا تا ہے۔ جب ہر طر ف آگ کا کھیل ہو، انسا ن نے آنکھو ں سے خون کا کھیل دیکھا ہو، آبرو ریزی اور انسا نیت کی تذلیل دیکھی ہو تو وہ یقیناََ جو لکھے گا
اس میں خود بخود الم و کرب و آشوب آہی جائے گا۔

ڈاکٹر شمیم حنفی لکھتے ہیں۔
”مجمو عی طو ر پر انتظار حسین کے افسانو ں کی فضا الم آگیں ہیں۔ اس فضا کے اضطراب میں تموج نہیں تجسس نہیں۔ خود رحما نہ تظاہر نہیں، حیرانی کا احساس بھی دبا دبا سا ہے۔ گو یا کہ جو کچھ ہور ہا ہے، وہ ہو نا ہی تھا۔ اداسی کی ایک غمناک دھند ہے۔
(کہا نی کے پانچ رنگ۔۔۔۔۔ص، ۷۲۱)

یہ اداسی کی دھند ان کی شخصیت پہ ایسی چھا ئی کہ پھر ان کاقلب و ذہین و قلم کسی دور میں بھی اس سے نہ نکل سکا۔ کیونکہ گہری چوٹو ں کے نشان ہمیشہ با قی رہ جاتے ہیں۔
دکھ کے بھی اپنے رنگ ہو تے ہیں۔ ہر انسان اس کو محسوس تو کر تاہے لیکن دکھ پہ ہر انسان کا رد عمل مختلف ہو تا جو اس کے ظرف کا غماز ہو تا ہے۔ اور لکھاری کے ہا ں اکثر یہ لکھاری کے ظرف کے ساتھ تحریر ہو تا ہے۔ انتظار صاحب کے کردار بھی انہی کے ظرف سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ملک حسن اختر لکھتے ہیں۔
”ان کے افسانو ں کا خاتمہ عموماََ المیاتی ہوتا ہے۔اور ان کے کر دار اپنی منزل کھو بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں اس زما نے میں لو گو ں کا راستی پر قائم رہنا بے حد مشکل تھا۔ چنا نچہ ان کے کردار کبھی خوش و خرم نہیں ہو تے۔ وہ روتے رہتے ہیں مگر بلبلاتے نہیں کیو نکہ وہ اونچی آواز سے رونا پسند نہیں کر تے۔ ان کے ہا ں ہلکے پھلکے درد کی فضا قائم رہتی ہے۔ کیو نکہ ان کے نزدیک ”انسانی رشتے ہر آن بدلتے اور بکھرتے رہتے ہیں۔ لو گ مر  جاتے ہیں۔ یا روٹھ جا تے ہیں۔ پھر بھی انہیں یاد کر تا ہو ں اور انہیں خوابو ں میں دیکھتا ہو ں اور افسانے لکھتا ہو ں،،
ان کے ہا ں معاشرتی المیہ مو ضوع ہے اور داخلی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ ان کے کردار سوچتے بہت ہیں،جس کی وجہ سے غمگین ہو جاتے ہیں،،
(تاریخ ادب اردو۔۔۔۔ص۷۴۷، ۸۴۷)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply