ناخواندگی گداگری کی راہیں کھول رہی ہے۔۔منہا شیرازی

گداگری ایک لعنت ہے، جس قوم کے افراد میں گداگروں کی تعداد زیادہ ہو وہ قوم ترقی نہیں کرسکتی، اخلاقی پستی اور ناخواندگی اس قوم کی جڑوں میں سرائیت  کرجاتی ہے،مفت خوری اور کاہلی کو وہ قومیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتی ہیں اور ایسی قومیں معاشرے میں ذلت کا استعارہ بن جاتی ہیں۔۔

آج ہمارا ملک اس نہج پر ہے جہاں روز بروز گداگروں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، ہنر مند افراد کی کمی ہورہی ہے اور سستی اور کاہلی کوہ ہمالیہ کو سر کررہی ہیں اور دوسری قوموں کی نظرمیں ہم ذلیل قوم تصور کیے جاتے ہیں۔

ان سب کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہے   ناخواندگی۔۔۔ اسلام میں جہاں گداگری کی مذمت کی گئی ہے وہاں بحیثیت مسلمان  ہم پر حصول علم کو فرض قرار دیا گیا ہے، تعلیم چاہے دینی ہو یا دنیاوی انسان کو باشعور بنادیتی ہےتعلیم یافتہ انسان دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو معیوب سمجھتا ہے، اسکا ضمیر علم کے نور سے منور ہوتا ہے، جہالت کی تاریکی مٹ جاتی ہے تو نتیجتاً گداگری کا خاتمہ ہوتا ہے،
یقیناً حصول علم کو فرض قرار دینے کے پیچھے ایک باشعور معاشرے کے قیام کا تصور تھا، ایسا معاشرہ جہاں افراد جہالت اور گداگری کو ناپسندیدہ سمجھ کر اندرونی کوششوں سے اس کو ختم کریں،کیوں کہ جب کسی برائی کو بیرونی کوشش سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ زیادہ زور پکڑتی ہے اور معاشرے میں بگاڑ آتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے  کہ معاشرے کے افراد مل کر عوام میں تعلیم کا شوق، محنت اور ہنرمندی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔۔

دوسری بات۔۔۔ ہر موڑ پہ گداگروں کی بڑی تعداد اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، اس میں انسان فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کس کی مدد کی جائے، مستحق ڈھونڈنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے، اور کسی کے نصیب کا آپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس نیت کرلیں صدقہ کی ،اس رب کی رضا کیلئے جو اپنی ساری مخلوق کو   روزی دینے والا ہے،اور دعا کرلیں اسی سے کہ ہمارے معاشرے سے اس قبیح فعل کا خاتمہ ہو جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply