• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی(2)۔۔تحریر:ایلن ووڈز/ ترجمہ: صبغت وائیں

ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی(2)۔۔تحریر:ایلن ووڈز/ ترجمہ: صبغت وائیں

دنیا کا خاتمہ؟

یہ بات تو بالکل واضح تھی کہ پرانی دنیا پوری رفتار سے ایک لاعلاج بوسیدگی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ مردوں اور عورتوں میں متضاد رجحانات نے پھاڑ پیدا کر دی تھی۔ ان کے عقائد پر کاری ضرب لگ چکی تھی اور وہ ایک سرد، غیر انسانی، دشمن اور ناقابلِ فہم دنیا میں بے کس و بے سہارا کاٹ کے رکھ دیے گئے تھے۔ ایک مخصوص سماجی اقتصادی نظام کو ناقابلِ اصلاح زوال کا سامنا ہونے پر ہر تاریخی دور میں یہ احساس نمایاں نظر آتا ہے کہ بس دنیا اپنے انجام کو جا پہنچی ہے۔

پیٹر ایس بیگلؔ نے لکھا ہے:

”جب بوشؔ پیدا ہوا تو پورے نظام کا تانا بانا بکھرنا شروع ہو چکا تھا۔ جاگیر داری کی وحشت ناک بقا ایک عمومی عقیدے کی نیو پر کھڑی تھی کہ تمام دنیا کا نظام اوپر آسمانوں سے چلتا ہے۔ خداوند جو کہ باپ ہے، سب سے بڑا تعلقے دار ہے، یہ تمام دنیا اس کی جاگیر ہے، وہ اپنے ان عظیم خزانوں سے جاگیریں اور طاقت و اختیار نکال نکال کر مذہبی راہنماؤں، راجاؤں، بادشاہوں اور جاگیر داروں کو بھیجتا رہتا ہے، جو اس کو آگے کرائے بھاڑے پر دے دیتے ہیں۔۔۔“ (پیٹر بیگلؔ، ارضی خواہشات کا باغ، صفحہ نمبر 14)

اب ایک دم سے صدیوں سے بنے اس عقیدے پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی نے دنیا کے پہیے کی پِن نکال چھوڑی ہے۔ دہشت ناک غیریقینیت اور اضطراب نتیجے کی صورت میں درپیش تھی۔ پندرھویں صدی کے وسط سے ہی اعتقادات کا پرانا سلسلہ بکھرنا شروع ہو گیا تھا۔ لوگ اپنی نجات، آسائش اور سکون کی خاطر اب کلیسا سے رجوع نہیں کرتے تھے۔ اس کے برعکس مذہبی نزاع بہت سی مختلف شکلوں میں نمودار ہوا اور سماجی و سیاسی مخالفت کے بہروپ میں خود کو پیش کیا۔

ویسے تو بوش کی دنیا اور ہماری آج کی دنیا میں بہت سی مماثلتیں موجود ہیں، لیکن ان دونوں کے درمیان بہت بڑی خلیج بھی موجود ہے۔ آج، کم از کم مغرب میں مذہب آخری دموں پر کھڑا ہے۔ لیکن قرونِ وسطیٰ کے آخر میں مذہب انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے سیاست اور طبقاتی جدوجہد کا اپنا اظہار مذہبی علامات میں کرنا عین فطرتی تھا۔ سوادِ اعظم کے لیے واحد شے جو ان کی زندگی کو کسی حد تک قابلِ برداشت بناتی تھی، بس ایک اگلی زندگی کی امید تھی۔

مقدس مادر کلیسا کو دکھی غریبوں کا سہارا مانا جاتا تھا اور اس کو اشکوں سے بھری اس دنیا سے پرے ایک بہتر زندگی کی امید کے طور پر باور کیا جاتا تھا۔ لیکن یہاں تو یہ بھی شکستہ اور کھوکھلی ہو چکی تھی، جیسا کہ ہمیں بوشؔ کے عالی شان شہ پارے میں نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جہاں ابتدائی دور کی راہبانہ زندگی کی عسرت اور بے مائیگی کے دقیانوسی مثالی کردار جنہوں نے مذہبی راہنماؤں کو متاثر کیا تھا محض قصے کہانی بن کے رہ چکے تھے۔ اب عبادت گاہوں کو چلانے والے بادشاہوں کے مقابل تھے، وہ پُر تعیش زندگی اور ایک سماوی جاہ و جلال کے رکھ رکھاؤ میں اکثر بادشاہوں سے آگے نکل جایا کرتے تھے۔

یہ ایک دلوں کو دہلا دینے والی حقیقت تھی جو لوگوں کے سامنے انتہائی سنگین قسم کی الجھن کے طور پر موجود تھی۔ کیوں کہ اگر یہ زندگی اتنی وحشت ناک تھی تو پھر امید کی کرن صرف اگلے جہان میں ایک بہتر زندگی سے وابستہ رہ جاتی تھی۔ ایک بار جب یہ عقیدہ جاتا رہے تو پھر مایوسی کی تاریک ترین رات ہی باقی بچتی ہے۔ کلیسا کی بالا دستی کو درپیش سوالات میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ صدیوں سے چلے آ رہے اقتدار کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے خاتمے کی گھڑیوں کے قریب آنے کا اظہار یوں ہوا کہ لوگوں نے نجات کے لیے عبادت گاہوں سے باہر دیگر ہر طرح کی متصوفانہ اور تواہمانہ تحریکوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی، جن میں سے بہت سی ایسی تھیں جو کہ جدید مذہبی اعتقادات کے بھیس میں خطرناک اور تخریبی تحریکیں تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب برہنہ پا چیتھڑوں میں ملبوس ہجوم کے ہجوم سڑکوں پر نکل آتے اور لہولہان ہو جانے تک خود پر کوڑے برساتے۔ خود کو اذیت دینے والا یہ فرقہ قیامت کا منتظر تھا، اور یہ انتظار ہر ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد دوسرے کی توقع میں شروع ہو جاتا۔ آخر میں جو ہوا، وہ دنیا کا خاتمہ تو نہیں تھا، بلکہ جاگیر داری کا خاتمہ ہو گیا، اوربجائے مسیح کی حیات ثانیہ کے سرمایہ داری گلے پڑ گئی۔ لیکن ہم اس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اس بات کو سمجھ پائے ہوں گے۔

جاگیردارانہ سماج کے زوال اور ابھرتی ہوئی سرمایہ داری نے خیالات کو مہمیز لگا دی اور ایمان کو بحرانی حالات کے سامنے لا کھڑا کیا، جس کا اظہار انگلستان میں لولارڈ اور جان ویکلِف، اور بوہیمیا ]اب چیک ریپبلک[ میں ہاسائٹؔ کی مخالفانہ تحریکوں کی شکل میں ہوا۔ یہ وہ دنیا تھی جو کہ ایک سماجی اور مذہبی انقلاب کے دہانے پر کھڑی تھی۔ پرانی دنیا مغزِ استخواں تک بوسیدہ اور گلی سڑی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بری طرح ڈگمگا رہی تھی اورمنتظر تھی کہ اس کو اٹھا کر پھینک دیا جائے، یہ ہرگز بقا کے قابل نہیں رہی تھی۔

ان تصاویر کے جوہر میں بھی وہی محرک پنہاں ہے جو کہ خود کا اذیت دینے والوں کو سڑک پر لایا تھا۔ وہ انجام کے نشے میں مخمور تھے۔ شہروں اور دیہاتوں میں ان اذیت پسند فرقوں کا ندامت بھرا کرب ناک نظارہ آہوں، سسکیوں اور کراہوں سے معمور ہوتا تھا جن کا تسلسل کبھی ایسی ہولناک چیخ توڑ دیتی جب کسی کی زخمی پشت کی چیرے ہوئے زخم میں چابک کا تسمہ جا کے زخم کو تازہ کرتا، اور تب یہ روز کا معمول تھا۔ یوہان ہوئی زِنگا نے اپنی شہرہ آفاق کتاب”عہد وسطیٰ کے انحطاط“ میں لکھا ہے:

”مجموعی طور پر قہر اور دکھ کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ ہر جانب ایک دائمی خطرے کا احساس جاگزیں تھا۔۔۔ایک عمومی عدم تحفظ کا احساس جو مسلسل جاری رہنے والی جنگوں، اور انصاف پر عدم اعتماد کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، آگے آنے والے دنیا کے خاتمے کے وہم کے، دوزخ کے، جادوگروں کے اور شیطانوں کے خوف کی بدولت شدید صورت اختیار کر گیا تھا۔۔۔ہر جانب نفرت کی آگ کے شعلے رقصاں ہیں، اور ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ شیطان نے اندھیرے میں ڈوبی اس کہر زدہ زمین کو اپنے تاریک اور ظلیل پنکھوں سے ڈھانپ رکھا ہے“۔

یہ بات درست ہے کہ نجات کا وعدہ اور ایک ابدی زندگی کا وعدہ زبانی کلامی حد تک موجود ہے، لیکن حقیقت میں سارے دور کا عمومی لُبِ لباب تیرگی کا سیاہ ترین درجہ ہے۔ یہ یاسیت بھرا احساس اس دور کی شاعری میں ہویدا ہے، جیسا کہ ہم ذیل میں فرانس کے ڈیشامپ کی نظم میں دیکھ سکتے ہیں جو کہ دنیا کو ایک قریب المرگ ضعیف و ناتواں پیر مرد سے مشابہ کر کے دیکھ رہا ہے۔

”Or est laches, chetis et moltz,

Vieux, convoiteux et mal parlant;

Je ne voy que foles et folz…

La fin s’approche, en verité …

Tout va mal.“
اب یہ دنیا بُزدلانہ طور پر، دیمک زدہ، خستہ، کہن زدہ،

ہوس گزیدہ اور مخبوط الحواس نظر آ رہی ہے،

مجھے یہاں صرف نر احمق اور مادہ احمق دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔

سچ کہوں تو انجام کی گھڑی آن پہنچی ہے۔۔۔

ہر شئے کا بیڑہ غرق ہے۔

ہے وینؔ یا روپے کی طاقت

The Haywain
ہے وین

ہے وین ]لفظی معنی، بھوسا لے جانے والا چھکڑا۔ یہاں بوشؔ کی پینٹنگ مراد ہے[

جاگیر داری میں معاشی طاقت کا اظہار زمین کی ملکیت کیا کرتی تھی۔ روپے پیسے کا کردار ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن تجارت اور صنعت کاری، اور ان کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے منڈی کے شروعاتی تعلقات نے روپے پیسے کو بھی اتنی ہی عظیم طاقت بنا کھڑا کیا۔ لیکن دولت کی اس فراوانی کے ساتھ دوسری جانب سوادِ اعظم کی حالت زار بدحالی، الم ناک، وحشت انگیز اور مختصر ہو گئی تھی۔ جاگیر دارانہ سماج میں کسانوں کی زندگی عام حالات میں بھی انتہا کی سخت تھی۔ لیکن جاگیر داری کے آخری دور میں حالات عام ماضی سے بھی کہیں ابتر ہو چکے تھے۔

سرمایہ داری کی اٹھان، خاص طور پر ہالینڈ میں جہاں یہ اٹلی کو چھوڑ کے باقی کسی بھی دیگر ملک سے پہلے نمودار ہوئی، اپنے ساتھ نئے رویے لے کر آئی جو کہ دھیرے دھیرے ایک نئی اخلاقیات اور نئے مذہبی اعتقادات کی شکل میں مجسم ہو گئے۔ ہینسیاٹک لیگ انگلستان سے لے کر روس تک سو کے قریب شہروں میں تجارت (کامرس) کی نگرانی کر رہی تھی۔ کارہائے نمایاں سرانجام دیے جا رہے تھے۔ فُگرزؔ جیسے طاقتور بینکار خاندان ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے بادشاہوں کے اختیار کو بھی للکار دیا تھا۔ ایک نئی طاقت ابھر کر سامنے آئی تھی، ایک ایسی طاقت جس نے پرانے سماج اور اس کی اقدار کے تانے بانے کو ادھیڑ کے رکھ دیا تھا۔ یہ زر کی طاقت تھی۔

ہر جانب ایک نیا دور تھا۔۔مادیت اور کمرشلزم کا دور۔ آرٹ دھیرے دھیرے خود کموڈیٹی بن چکا تھا۔ اگر آرٹسٹ کامیاب ہوتا تو وہ دولت اور رتبہ حاصل کرنے کے قابل ہو جاتا تھا۔ لیکن اکثریت وہ تھی جو کہ محض پرولتاری فنکار تھے یا اپنے عروج پر ہوں تو دستکار تھے۔

اپنی عظیم سہ لوحی تخلیق ہے وین (1485-90، پراڈو، میڈرِڈ) میں بوش نے ایک ایسی دنیا کو دکھایا ہے جو کہ لالچ اور تشدد کی مدد سے چلائی جا رہی ہے؛ یہاں ساری نسلِ انسانی ’ہے وین‘ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ بھوسے سے بھرا ایک چھکڑا جو کہ بوش کی تصویر میں دکھایا گیا ہے، پندرھویں صدی کے لوگوں کی ایک جھلک دکھاتا نظر آ رہا ہے، جیسے کہ یہ سردی کے موسم میں خوراک کے ذخیرے کی، یا دوسرے لفظوں میں خوش حالی کی علامت کے طور پر ہو۔ لیکن یہاں یہ بھوسا دولت اور زر کی طاقت دکھا رہا ہے۔ یہ ہمیں ہالینڈ کی قدیم کہاوت یاد دلاتا ہے، ”یہ دنیا بھوسے کا ایک ڈھیر ہے اور ہر کوئی اس میں سے مقدور بھر اٹھا لے جاتا ہے“۔ تمام انسانیت اس بھوسے کے حصول کے سحر میں گرفتار ہے جس کو سات شیطان کھینچ کر دائیں جانب بھڑکتے جہنم کی آگ کے شعلوں میں ڈالنے لے جا رہے ہیں۔

Detail from The Haywainہے وین کی تصویر کے سامنے والے منظر کی تفصیل خاصی بد نظم ہے۔ ہر کوئی ”بھوسے“ کا کچھ حصہ پانے کے لیے جھگڑ رہا ہے۔ اسی سامنے کے منظر میں ایک آدمی دوسرے آدمی کا سونا ہتھیانے کے لیے اس کا گلا کاٹ رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کردینے کے لیے یا ایک دوسرے کے اوپر سے چھکڑے گزار کر بھی دولت بٹورنے کے لیے تیار ہیں۔ عورتیں اس کے لیے اپنے جسموں کی نیلامی کر رہی ہیں۔ مجسٹریٹ دولت کی خاطر اپنی توقیر بیچ رہے ہیں۔ دائیں جانب، پاتال کے عجیب الخلقت بھوتوں جیسی مخلوقات کا ایک جتھا اس چھکڑے کو کھینچ کر لے جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک مخلوق آدمی اور مچھلی کا مرکب ہے؛ دوسری کا کچھ حصہ ایک پرندے پر اور تیسرا ایک کنٹوپ پہنے بندہ ہے جس کی کمر میں سے شاخیں اُگتے ہوئے نکلی نظر آ رہی ہیں۔

اس چھکڑے ”ہے وین“ کے آس پاس کی تفصیل کو دیکھیں تو ایک زمینی تودے میں لگے ایک لکڑی کے دروازے میں سے بہت سے لوگوں کو نکلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ چھکڑے کے گردا گرد بہت سے لوگ ہیں جو کہ بھوسے کی ایک مُٹھی پانے کے لیے آپس میں لڑتے جھگڑتے پہیوں کے نیچے آ رہے ہیں۔ اگر ہم اس تصویر کے سامنے والے حصے کو دیکھیں تو ہمیں دو راہبائیں ایک موٹے راہب کے لیے بھوسے کا بورا بھرتے نظر آتی ہیں، جو کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھا اپنے مالِ غنیمت بٹورنے کی نگرانی کرتے ہوئے اپنی مقدس شراب کے گھونٹوں کے مزے لیتا دکھایا گیا ہے۔ اس میں محض کلیسا کی جانب سے لوگوں کو مونڈنے کا بیان ہی نہیں ہے بلکہ راہباؤں اور راہبوں کے مابین ناجائز جنسی تعلقات کی جانب اشارہ بھی موجود ہے۔ یہ اس وقت کا ایک عام نظریہ بن چکا تھا، اور ایسا کسی معقول وجہ کے بغیر بھی نہیں تھا۔ کلیسا سے متعدد سکینڈل منسوب تھے؛ ایمان والے خود کو بدکار اور بھٹکا ہوا باور کرتے تھے۔

Detail from The Haywainکلیسا کا شمار اس وقت کے سب سے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ پروہت اور پادری اگرچہ خیرات کا اور غربت کا درس دیتے تھے لیکن ایک دیندارانہ زندگی گزارنے کی بجائے وہ اپنی مادی آسائشات پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ کلیسا کی دولت کا ایک بڑا حصہ نجات ناموں کی فروخت سے حاصل ہوتا تھا جو کہ کاغذ پر اس بات کا وعدہ ہوتا تھا کہ خریدار کو اس کی دی گئی دولت کے عوض عالمِ برزخ کی سختیوں سے نجات مل گئی ہے۔ نجات نامے بیچنے والا بدنامِ زمانہ پادری ہانز دیتسؔ بڑی شیخی سے بڑ ہک لگایا کرتا تھا کہ ادھر اس کے کھیسے میں سکے گرتے ہیں اور ادھر اسی وقت روحیں چھلانگ لگا کرجہنم سے باہر آ جاتی ہیں۔ کلیسا کے متعلق بوشؔ کیسے سوچتا تھا یہ بھوسے کے پیچھے حریصانہ انداز میں بھاگتے راہباؤں اور پادریوں کی موجودگی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔

Detail from The Haywainہے وین تصویر کی تفصیل میں صرف ایک شبیہ جو کہ پُرسکون اور الگ تھلگ سی لگ رہی ہے یہ دنیا کے امیر لوگوں کی ہے؛ بائیں جانب ایک شہنشاہ، ایک بادشاہ اور ایک پوپ گھوڑوں پر سوار بڑی صفائی سے ایک بناوٹی فاصلہ بناتے ہوئے واہیات طریقے سے اس خشک گھاس سے لدی گاڑی کی حفاظت کرتے ہوئے اس کے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی یہ بے اعتنائی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ان کا اس چھکڑے کے پیچھے نہ بھاگنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ پہلے ہی سے کافی زیادہ ”بھوسا“ اپنے قبضے میں لے چکے ہیں۔۔۔لیکن درحقیقت وہ بھی اس کے وفادار اور فرمانبردار غلام ہیں، اور وہ بھی ایک درشتی کے ساتھ یومِ حساب کی جانب گامزن ہیں۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments