انسان فطرت کو پامال کر رہے ہیں۔۔ خنساء سعید

اللہ تعالی نے جب کائنات تخلیق کی تو کائنات میں ہر طرف خو بصورتی ہی خو بصورتی دکھائی دیتی تھی ۔زمین پر سبزہ تھا ،لہلہاتے ہوئے کھیت کھلیان تھے ،دریا اپنی ہی موج میں بہتے تھے ،سمندروں کی شفاف ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہریں ساحل سمندر سے ٹکراتی تھیں ،سر سبز اور شاداب وادیاں سفید چادر اوڑھے برفیلے پہاڑ تھے،باغ ِ گلستاں کومہکاتے رنگ برنگے پھول ،جن پر ہر رات کو اوس کے قطرے گرا کرتے تھے ،ہواؤں میں پھولوں کی مسحو ر کُن خوشبو ہوا کرتی تھی ۔پرندے آزادی سے کھلی اور صاف شفاف ہواؤں میں اُڑا کرتے تھے ،جانور زمین پر اُچھل کود کرتے ،مچھلیاں صا ف پانی میں تیرتی تھیں ۔پھر یوں ہوا کہ وہ انسان جو پہلےغاروں میں رہا کرتا تھا وہ تسخیر کے سفر پر نکلا ،ہری بھری وادیوں میں لوگ آباد ہونے لگے، گاؤں بنے، شہر تعمیر ہوئے پھر گاؤں شہروں میں تبدیل ہو نے لگے ،ہوائیں تعفن زدہ ہو گئیں،کارخانوں کی چمنیوں سے دھوا ں اُٹھنے لگا ، دھوئیں سے دم گھٹنے لگا ،ہر طرف فضائی آلودگی ، آبی آلودگی ،صوتی آلودگی ،زمینی آلودگی ،غذائی آلودگی ،بحری آلودگی پھیلنے لگی ۔کہیں زہریلے مادے ،کہیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ،تو کہیں جان لیوا سپرے ،غرض کہ انسان نے ترقی کی تمام تر منازل تو طے کر لیں مگرماحول کو آلودہ کر کے فطرت کو پامال کرنے لگا ۔یہ کرہ ارض جو کہ پرندوں ،جانوروں ،اور انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے انسان اس کو اپنے ہاتھوں سے لاوے میں تبدیل کرنے لگا ۔انسان نے اپنی آسائشات کی خاطر فیکٹریاں لگائیں ،زہریلا دھواں اُگلنے والے پلانٹس لگائے ،جنگلات کا قتل عام کیا اور اب اس کرہ ارض سے زندگی روٹھتی جا رہی ہے ۔اب یہاں آسمان میں بلبل ،چڑیا،کوئل ،عقاب وغیر ہ اُڑتے نظر نہیں آتے کیوں کہ وہ سب فضائی آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ یہ آلودگی ہی تو ہے کہ جس کی وجہ سے زمین زہریلی گیسوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے ۔

انسان نے ماحولیاتی آلودگی اور عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ سے فطرت کو پامال کرنا شروع کیا ۔پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی سے مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں اور اُن بیماریوں کا شکار نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند بھی ہو رہے ہیں ماحولیاتی آلودگی میں گاڑیوں کےدھویں ،زہریلی گیسوں ،کیمیائی مادوں ،گردوغبار ،ٹھوس ذرات ،ایندھن کے جلنے ،جوہری اخراج ،مصنوعی کیمیائی کھادیں ،حشرات کش ادویات ،کوڑاکرکٹ کے ڈھیر ، شامل ہیں جو کہ فضائی ، آبی ، بحری ، اور زمینی آلودگی پھیلانے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں ۔ماحولیاتی آلودگی پر کچھ ترقی یافتہ ممالک اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ ترقی پذیر ممالک مثلا پاکستان اور انڈیا ابھی تک اس مسئلے سے نپٹ رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال ستر لاکھ سے زائد لوگ فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور بچوں کی قوت ِ مدافعت کو متاثر کرنے میں فضائی آلودگی اہم کر دار ادا کر رہی ہے اس کے علاوہ سردیوں کے موسم میں سموگ بھی فضائی آلودگی کی وجہ سے ہی پھیلتی ہے جس کی وجہ سے گلے اور سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ہمارے یہاں کراچی اور لاہور گندگیوں کے ڈھیر بنے ہو ئے ہیں لاہور اور کراچی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے کراچی میں روزانہ 500ملین گیلن آلودہ پانی سمند رمیں ڈال دیا جاتا ہے ہزاروں ٹن کچرا ایسا ہے جسے اپنے ٹھکانے پر پہنچایا ہی نہیں جاتا ۔اور لاہور جسے پھولوں اور باغوں کا شہر کہا جاتا تھا اب وہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہےلاہور کی ہر سڑک ہر گلی ہر محلے میں اب صرف کوڑا کرکٹ نظر آتا ہے ۔امجد اسلام امجد اپنی ایک نظم (مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے ) میں لکھتے ہیں

نہ ہوا صاف ہے نہ فضا صاف ہے

وہ جو آب بقا تھا وہ ناصاف ہے

زمیں ہو سمندر ہو یا آسماں

اک ذرا سوچیے! اب کہ کیا صاف ہے

موت سے پر خطر ہے یہ آلودگی

دوستو دل میں تھوڑی کسک چاہیے

مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے

زمین کو سب سے بڑا خطرہ گرین ہاؤس گیسوں سے ہے ۔زمین سے فضا میں پھیلنے والے مادوں کے اخراج کی ذمہ دار انسان کی بنائی ہو ئی ٹیکنالوجی ہی ہے ۔قطبین سے برف پگھلتی جا رہی ہے اور زمین کا درجہ حرارت 0.74ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ رہا ہے ۔انٹرگورنمنٹل بورڈبرائے موسمی تبدیلی کے مطابق 21صدی کے آخرتک 01.1ست لے کر 6 ڈگری سنٹی گریڈ تک درجہ حرارت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے جس کے نتیجے میں قطبِ شمالی کے ممالک موسمی تبدیلیوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔زمین سے اُٹھنے والی زہریلی گیسوں کی وجہ سے فضا آلودہ ہو رہی ہے اور جنگلات کٹنے کی وجہ سے آکسیجن میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔1824میں جوزف فوریر نامی سائنسدان نے بر وقت خطرے سے آگاہ کر دیا تھا ۔اس نے اپنے نظر ئیے میں کہا تھا کہ گرین ہاؤس گیس ،پانی کے بخارات ، کاربن ڈائی آکسائیڈ ،اور میتھین مل کر ماحو ل کو تباہ کر رہے ہیں ۔انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والے ہائیڈروکاربن کینسر کا باعث بن رہے ہیں اور نائٹروجن آکسائیڈ پھپھڑوں کے خلیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔کوئلوں کے جلنے سے پیدا ہو نے والی گیس سلفر ڈائی آکسائیڈ فضا میں داخل ہو کر انسانی آنکھ ، ناک ، گلہ ، پھپھڑوں کو بر ی طرح متاثر کر رہی ہے ۔امریکہ ،بھارت اور چین دنیا بھر میں نصف آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں دنیا بھر میں 25 فیصد آلودگی انہی ممالک سے پھیلتی ہے ۔بارشوں کی کمی ،آبی ذخائر کی قلت ،ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج آلودگی کا خاتمہ ہے۔ افریقی ممالک تو آج بھی قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں ۔زمین تو زمین اب سمندری حیات کو بھی خطرات لا حق ہو چکے ہیں ۔کچھ کمپنیاں اور شخصیات زہریلی گیسوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔سائنسی آلات کو ماحول دوست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیوٹو پروٹوکول پر بھی کام جاری ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طر ح ہم صرف 3 فیصد آلودگی پر قابو پا سکیں گے اور ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ بیس سال کا درجہ حرارت گزشتہ چار صدیوں میں سب سے زیادہ رہاہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کرہ ارض میں قدرتی وسائل جو کہ بہت صدیوں سے مخفی پڑے ہوئے تھے انسان نے اُن کو ردیافت کیا اور اُن کا کثرت سے استعمال کرنے لگا صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ان وسائل کا بے دریغ استعمال آلودگی کا باعث بن رہا ہے ۔گلیشئر کا خاتمہ ،سمندروں میں تبدیلی اور سطح آب میں ردو بدل بڑے خطرات ہیں ۔سائنس دان تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ زمین میں جہاں جہاں درجہ حرارت بڑھتا جائے گا وہاں آبادی میں بھی بے پنا ہ اضافہ ہو جائے گا انڈیا اور بنگلہ دیش اس کی واضح مثالیں ہیں ۔آبادی کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی ،پانی پر جنگیں ، اشیا خورد نوش کی قلت ، گرمی ، خشکی ، قحط سالی ،چرند پرند کی اموات جیسے مسائل زہریلے ناگ کی طرح پھن اُٹھائے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں ۔آئیں ہم سب انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ایک عہد کرتے ہیں کہ ہم فطرت پر رحم کریں گے اور اس کوپامال نہیں ہونے دیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply