آم کشی کا غیر سنجیدہ مسئلہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہ معاملہ تین چار روز سے سوشل میڈیا کے حلقوں میں زبان عام ہے۔ باچیز خاموشی سے بیٹھ کر جائزہ لیتا رہا کہ راسخ ثبوت کا عدمباز رکھنے کا باعث رہا۔ آج بی بی سی کی ایک رپورٹ نظر سے گزری جس کے مطابق آم کے برسوں پرانے درخت زمیں بوس کرنےکا کارنامہ سٹی ہاؤسنگ سوسائیٹی کے اکابرین کی سی وی پر جلی حروف میں درج ہے۔

اس پر مزید بات کرنے سے پہلے میں معاملے کی غیر سنگینی کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا۔

جو لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے میں بصد احترام ان سے اختلاف کرنا چاہوں گا۔ سبسے پہلے ایک لمحے کو اندازہ لگائیے کہ ایک ہاؤسنگ سوسائیٹی کو کس قدر وسیع رقبہ درکار ہوتا ہے۔ کسی قسم کی مشکل پیش آئے توبحریہ ٹاؤن یا ڈی ایچ اے شریف کی آخری زیارت ذہن میں لائیے گا۔ یعنی یہاں بات ہو رہی ہے ڈی ایچ اے یا بحریہ کے کم سے کمبھی دو تین افیاز کی جو یقیناً ایک وسیع رقبہ ہے۔ گزشتہ جانے کتنی دہائیوں سے یہاں آم کاشت کیے جارہے تھے۔ ملتان اور سندھ کاآم صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہے، یہ ایک حقیقت ہے جو دراصل جلد ہی حقیقتتھیہونے کو ہے۔

لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ کوئی خاص سنگین معاملہ نہیں۔ کسی دور میں ڈائینوسار بھی دنیا بھر میں مشہور ہوا کرتے تھے۔ میمتھ یعنیہاتھیوں کے اسلاف بھی کبھی دنیا میں ممتاز ہوا کرتے تھے۔ پھر یہ سب بھی معدوم ہوگئے۔ تو کیا ہے جو یہ موئے آم مر جائیں؟بھئی قانون فطرت ہے، ارتقاء کا قانون ہے کہ جو نسل اپنی بقاء کے معاملے میں مدافعت نہیں دکھا پاتی اس کے مقدر میں معدومہونا لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آم بھی کبھی خود کش حملہ آور رہا ہے لیکن اس کے بعد آم نے اپنی نسل کے بقاءکے لیے کیا جد و جہد کی آخر؟ کیا آم کے درخت نے ہتھیاروں سے لیس ہوکر اپنے بھائیوں بہنوں پر ہوتے ظلم کا مقابلہ کیا؟ قتیلشفائی مرحوم نے کہا تھا۔۔

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

اس منطق کے تحت بلا مبالغہ و بلا چون و چراں آم ایک منافق نسل رہی کہ خاموشی سے ظلم سہتی رہی مگر کبھی اف تک نہ کی۔لہذا آم کا معدوم ہونا طے تھا۔ منافقین ویسے بھی مر مٹ جائیں تو بہتر رہتا ہے۔

قارئین کرام، جیسا کہ میں نے عرض کرنے کی جسارت کی کہ آم ماضی میں ایک عدد سپاہ سالار اعظم پر خود کش حملہ آور کے طور پرثابت ہے۔ چونکہ ریاست میں انصاف کا بول بالا ہے لہذا ہر دیگر معاملے کی طرح یہاں بھی انصاف ہو کر رہے گا۔ آم نے وہدھماکہ کیا تھا کہ سپاہ سالار اعظم کا فقط جبڑا ہی ثابت رہ پایا تھا لہذا سپاہ سالار کے لواحقین اس بات کا مکمل حق رکھتے ہیں کہ آمسے بدلہ لیں اور بدلہ بھی ایسا لیں کہ گھٹلی تک باقی نہ رہے۔ یوں میں اس معاملے کو انصاف کی جیت کے طور پر بھی دیکھتا ہوں۔

یہاں مملکت کی حکمران جماعت کے پنج نسلی مجاہدین جو دراصل سپاہ سالارِ حاضر کے موجودہ وارث بھی ہیں یقیناً یہ حجتِ حقدستیاب فرمائیں گے کہ ملائک بر زمیں کا اس قتلِ آم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اجی قربِ قیامت ہے کہ حق کی بات کرنے سے کنیکترائی جا رہی ہے۔ سپاہِ حاضر کے والیان و ورثاء کو تو انصاف کی جیت پر خوشی سے بغلیں بجانی چاہیے ہیں کہ بالآخر شہید سپاہسالار کو انصاف مل رہا ہے۔ الٹا یہ ناہنجار انصاف کے مستفید ہونے سے ہی انکاری ہیں؟

عرض ہے کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اور غدارانِ ملت کے منفی پروپیگنڈے سے بری الذمہ ہونے کی کامیاب کوشش کےباعث اب کی بار کمانڈر ڈی ایچ اے کی بجائے بریگیڈئیر سٹی ہاؤسنگ سوسائیٹی کو سپاہ کی کمان سونپی گئی کہ نسلِ آم سے بدلہ لے کرانصاف کیا جا سکے۔ ذیل تصاویر بزرگانِ عساکر کی ادارے بابرکت نسبت ہرگز ظاہر نہیں کرتیں۔

قارئین کرام، درج بالا دلائل کہ علاوہ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے جو مثل ترپ کا پتہ استعمال ہو سکتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ آجکے اس پرآشوب دور میں جب ایک غریب انسان روٹی کپڑے اور مکان کی تگ و دو میں مارا مارا خوار پھر رہا ہے، سٹی ہاؤسنگسوسائیٹی کس قدر نیک عمل ثابت ہوگی؟ قارئین کرام وہ غریب غرباء و مساکین جو اس سوسائیٹی کے کارنر اور روڈ فیسنگ پلاٹ کےمستحقین ہیں کیا ان کو زندگی گزارنے کے لیے خدا کی زمین پر بسنے کا بنیادی انسانی حق حاصل نہیں؟ پھر کیا ہے کہ انغرباءکوبسانے کے لیے فقط ڈیڑھ ایک ہزار ایکڑ کے مختصر رقبے پر حیات لاکھوں آم کے درختوں کی نسل کشی کرنی پڑے؟ آخر کو یہ دُکھیانسانیت کا مداوا ہے۔

مندرجہ بالا تمام دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں بچ پاتی کہ یہ انتہائی غیر سنجیدہ معاملہ ہے جسےسوشل میڈیا میں اچھال کر ناصرف غیر ضروری سنسنی پھیلائی جا رہی ہے بلکہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہود و نصاریکے ایجنڈے کو بھی مضبوط کیا جا رہا ہے۔ میں مکالمہ پر مشتہر اس مضمون کی وساطت سے حکام بالا سے گزارش کرنا چاہوں گا کہاس بابت سختی سے نوٹس لیا جائے اور یہود و نصاری کے اس غیر سنجیدہ پروپیگنڈے میں شامل تمام پٹواریوں، سرخوں، جیالوںکے ساتھ ساتھ اس کا حصہ بننے والے تمام انسانوں کو بذریعہ ویگو سیاہ شمالی علاقہ جات کی سیر کروا کے ان کا سافٹ وئیر اپگریڈکروایا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عین نوازش ہوگی۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply