• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بڑھتے اختلافات۔۔ غیور شاہ ترمذی

پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بڑھتے اختلافات۔۔ غیور شاہ ترمذی

اس وقت کہ جب اسٹیبلشمنٹ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ بیک فٹ پر جاتی ہوئی نظر آ رہی تھی مگر اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے باہمی اختلافات اور لیڈروں کی ایک دوسرے پر طعنہ زنی نے اپوزیشن کی ماضی قریب میں کی گئی کوششوں کو شدید زک پہنچائی ہے- تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہی نوازلیگ جو مقتدر حلقوں کی جھولی والے اپنے ماضی سے نکل کر جمہوریت پسندوں کی صف میں کھڑی ہونے ہی والی تھی کہ نادیدہ طاقتوں کی جانب سے اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی طعنہ زنی نے واپس دھکیلنے کی کامیاب کوشش کی- یہ واضح حقیقت ہے کہ جمہوریت کی مکمل بحالی کے لئے دونوں جماعتوں کا ساتھ چلنا ضروری تھا۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات تو ہوتے ہی رہتے ہیں مگر جمہوریت کی مکمل بحالی کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر یہی ہوتا کہ ان پیدا ہونے والے فاصلوں کا اعلان نہ ہی کیا جاتا- یہ وقت کامیابی کے اتنا نزدیک تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی تیزی سے کمزور ہوتی گرفت کا احساس ہونا شرو ہو چکا تھا اور اسی لئے اسے پہلی دفعہ سیاسی معاملات کے حوالہ سے اپنی عدم مداخلت اور غیرجانبدار ہونے کا اعلان بھی کرنا پڑ گیا۔

پیپلز پارٹی کے نون لیگ سے اختلافات کی بیان کی جانے والی بنیاد کے مطابق پیپلز پارٹی قیادت کہتی ہے کہ جمہوریت کی مکمل بحالی کے لئے شروع کی جانے والی تحریک کی قیادت بڑے صوبے پنجاب کو کرنی چاہئے اور اس مقصد کے لئے میاں نواز شریف لندن سے واپس وطن آئیں اور تحریک کی قیادت سنبھالیں- اس ضمن میں نون لیگ کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اگر وطن واپس آتے ہیں تو واضح خدشات ہیں کہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں- اس لئے میاں نواز شریف وطن واپس آنے کی بجائے لندن رہتے ہوئے ویڈیو لنک خطابات کے ذریعہ ہی تحریک کی قیادت کریں گے جبکہ نون لیگ کی باقی تمام قیادت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہے گی- مسلم لیگ نون کے کچھ ممبران پارلیمنٹ کے بارے میں بھی پیپلز پارٹی قیادت کو خدشہ ہے کہ تحریک شروع ہوتے ہی نون لیگ کا ایک بڑا دھڑا فارورڈ بلاک بنا کر پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف حکومت کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے اس لئے اگر پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت کی قربانی دے بھی دیتی ہے تو وہ رائیگاں ہو جائے گی-

پیپلز پارٹی کی طرف سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور تحریک کی قیادت سنبھالنے کے مطالبہ کی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن حمایت کر چکے ہیں جبکہ دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن نے نون لیگ کے اس مطالبہ کی بھی حمایت کی ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے اپوزیشن سندھ اسمبلی سمیت تمام ایوانوں سے مستعفی ہو تاکہ لانگ مارچ کا آغاز کشتیاں جلا کر کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور نون لیگ سمجھتی ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں تمام قانون ساز اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہو کر لانگ مارچ شروع کرتی ہے تو پھر اپوزیشن کے پاس جمہوریت کی مکمل بحالی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی ہی نہیں رہ سکے گا- اس کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں تمام دستور ساز اداروں سے مستعفیٰ ہو جاتی ہیں تو یہ صورتحال سنہ 1985ء جیسی ہو سکتی ہے کہ جب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ایم۔آر۔ڈی نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور جنرل ضیاء کی مارشل لائی حکومت نے الیکشن کروا کر جو سیاسی قیادت کھڑا کی وہ کسی نہ کسی طرح آج بھی ملکی سیاست میں براجمان ہے-

سینٹ اراکین اور چیئرمین سینٹ کے حالیہ انتخابات میں ہونے والے واقعات میں نون لیگ کے کچھ اراکین پر شک کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپوزیشن کی حکمت عملی سے باخبر رکھا جس کی وجہ سے چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اپوزیشن امیدواروں کو غیر متوقع شکست ہوئی حالانکہ قومی اسمبلی کے اراکین کی طرف سے سینٹ کی اسلام آباد والی نشست پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے کم ووٹ رکھنے کے باوجود بھی اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی کامیاب ہو گئے تھے- ان انتخابات میں تحریک انصاف کے 7 اراکین قومی اسمبلی ایسے تھے جنہوں نے اپنی جماعت کے امیدوار محمد حفیظ شیخ کو ووٹ دینے کی بجائے اپنے ووٹ ضائع کر دئیے- اسی طریقہ کار کو سینٹ چیئرمین کے انتخاب کے دوران اپوزیشن کے 7 اراکین کی جانب سے استعمال کیا گیا اور انہوں نے چیئرمین امیدوار یوسف رضا گیلانی کے نام کے سامنے مہر (سٹیمپ) لگا کر ووٹ دینے کی بجائے نام کے اوپر مہر لگا کر اپنا ووٹ ضائع کر دیا اور اس طرح کم ووٹ رکھنے کے باوجود بھی حکومتی امیدوار صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ منتخب ہو گئے-

اپوزیشن جماعتوں کے جن 7 یا 8 اراکین سینٹ نے چیئرمین سینٹ الیکشن میں اپنا ووٹ ضائع کیا ان ہی اراکین نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنا ووٹ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حکومتی امیدوار میرزا آفریدی کو کھل کر دیا اور اپنے امیدوار مولانا عبدالغفور کو ہروا دیا- باخبر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان 7 اراکین میں کم از کم 4 یا 5 اراکین ایسے ہیں جن کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے- پی ڈی ایم کے گزشتہ سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان اراکین سینٹ کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کی جائے جنہوں نے پی ڈی ایم کی طے کردہ پالیسی سے انحراف کیا- ان مبصرین کا خیال ہے کہ چیئرمین سینٹ الیکشن میں حکو مت نے نون لیگ سمیت اپوزیشن کے 7 بلکہ 8 اراکین کو لالچ اور دباؤ کے ذریعہ اپنے حق میں ووٹ ڈلوائے یا ضائع کروائے- حکومت کی طرف سے نون لیگ کو مرکز اور پنجاب اسمبلی میں توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں- حکومت کی طرف سے نون لیگ کو توڑنے کی یہ کوشش اب بہت مشکل ہو چکی ہے اور ایسا کرنے کا وقت گزر چکا ہے-

مسلم لیگ نون کو توڑنا سنہ 2018ء میں آسان ترین کام تھا۔ عمران خاں اگر پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیتے تو یہ کام بآسانی پورا ہو جاتا۔ آج مگر مسلم لیگ نون کو توڑنا تقریباً ناممکن کام ہے۔ حکومت کی گزشتہ اڑھائی سال میں شدید ترین ناقص کارکردگی سے عوام کی معاشی حالت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ملکی انفراسٹرکچر بربادی کے نزدیک پہنچ چکا ہے- اشیائے خوردنی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں- ادویات اور علاج انتہائی مہنگا ہو رہا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مشکل ترین ہو چکی ہے۔ اس شدید ناقص کارکردگی نے پنجاب کی عوام کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ پنجاب میں نون لیگ کے دور میں حالات آج کی حکومت سے بہت اچھے تھے- اگر عام آدمی یہ بات جان چکا ہے تو نون لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے منتخب امیدوارن بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ اس قدر ناقص کارکردگی رکھنے والی تحریک انصاف کا اگلے انتخابات میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے- اس لئے وہ تحریک انصاف ہی ڈوبتی کشتی میں سوار ہونے کا احمقانہ فیصلہ تو کبھی نہیں کریں گے مگر خفیہ بیلٹنگ جیسے الیکشن میں اگر حکومتی امیدواروں کی حمایت سے اگر کچھ مفادات حاصل ہو سکیں تو وہ شاید لے لیں- اسی لئے اپوزیشن کے 7/8 اراکین نے چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں حکومت سے مفادات لے لئے کیونکہ خفیہ بیلٹنگ میں ان کی شناخت خفیہ رہے گی لیکن اگر انہیں اوپن بیلیٹنگ کے ذریعہ حکومتی امیدوار کو ووٹ دینا پڑتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے- اس لئے اس مرحلہ پر مسلم لیگ نون کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا یا اس کے بااثر لوگوں کو توڑنا آج تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ حکومتی حلقوں میں موجود اس غلط فہمی کا شکار لوگ بھی اب یہ حقیقت چکے ہیں کہ مسلم لیگ نون کو توڑنے کی ہر کوشش کی اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ کر دے گی۔ دوسری جانب کچھ طاقتور الیکٹیبلز کے خیال میں حکومت کی ناقص کارکردگی اتنی واضح ہے کہ قبل از وقت انتخابات ملکی سیاست کے درودیوار پر دستک دے رہے ہیں اور کوئی کند ذہن یا بے وقوف ہی ہوگا جو اس حکومت کو 5 سال پورا کرتا دیکھ رہا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

کم از کم پنجاب کی حد تک نئے الیکشن میں جانے کے لئے سب سے مقبول اور طاقتور نعرے مسلم لیگ نون کے پاس ہی ہیں- ان حالات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات مزید بڑھنے کی صورت میں زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے- نون لیگی قیادت کبھی نہیں چاہے گی کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو توڑ کر حکومت کو مزید برسراقتدار رہنے دیا جائے- ان اختلافات کو کبھی بھی سنہ 1999ء کی سطح پر نہیں لے جایا جانا چاہئے کہ جب 12 اکتوبر کو جنرل مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں خاموش دیکھتی رہیں بلکہ کچھ اپوزیشن حامیوں کی طرف سے نون لیگ حکومت کی برخاستگی پر جشن بھی منائے گئے تھے اور مٹھائیاں بھی بانٹی گئی تھیں- دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کی طرف سے سنجیدگی اور تحمل برقرار رکھتے ہوئے جمہوریت کی مکمل بحالی کے اولین مقصد کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ آپس کے اختلافات کو بھلا کر مشترکہ جدوجہد کے راستہ کو برقرار رکھا جا سکے-

Facebook Comments