مستونگ کا ہیرو۔۔ مدثر اقبال عمیر

ہیرو فلموں میں ہوتے ہیں ۔
ڈرامے ان کے بغیر مکمل نہیں  ہو تے۔ ۔

کہانیاں انہی کے گرد گھومتی ہیں ۔

ہیرو کسی امیر خاندان کا فرد ہوتا ہے۔کہیں کہیں اس کا غریب خاندان سے بھی تعلق ہوتا ہے ۔لیکن یہ کوئی عام فرد  نہیں ہوتا۔ ۔یہ ناممکن کو ممکن بناتا ہے۔ ۔یہ ولن کی درگت بناتا ہے اور اگر تامل فلموں کا ہیرو ہو پھر تو اس کی صلاحیتیں الہ دین کے جن کی طرح شمار سے باہر ہوتی ہیں ۔

لیکن یہ ساری باتیں فلموں ،ڈراموں اور کہانیوں میں ہوتی ہیں ۔ عملی زندگی میں ہیرو کہاں ملتے ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں نگاہوں کا محور صرف اپنی ذات اور ذات سے وابستہ لوگ ہی ہوں وہاں ہیرو واقعتاً کہاں ملتے ہیں ۔

لیکن  آج  تعارف کروانا چاہوں گا اک ہیرو کا۔ ۔۔عملی زندگی کے  ہیروکا!

پائلٹ  سکول مستونگ کے  ہیرو کا ۔۔بلوچستان کے ہیروں میں سے ایک کا۔پاکستان میں استاد کی حرمت کو چار چاند لگانے والوں میں سے ایک ہیرو  کا۔

میرے ہیرو نذیر احمد بنگلزئی کا۔۔۔

کچھ دن پہلے ایک ویڈیو ملی ۔پائلٹ  سکول مستونگ میں تئیس مارچ کے سلسلے میں ہونے والی تیاریوں  کی ۔

اب آپ کہیں گےیہ تو عام سی ایک ویڈیو ہے ۔ایک تعلیمی ادارے میں تیئس مارچ کی تیاریوں کے حوالے سے بنائی گئی ایک ویڈیو ، جس میں ایک استاد اور چند بچے نمایاں ہیں ۔ یہ تو ہر تعلیمی ادارے میں کسی درجہ ہوتا ہے۔

ہوتا ہوگا لیکن بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بہت کم ہوتا ہے

لیکن بات صرف اتنی نہیں ۔یہ ویڈیو ایک سفر کی کہانی بھی ہے ۔ایسی کہانی جس کا حرف حرف سچ سے عبارت ہے۔

یہ سفر 2017  میں شروع ہوا ۔جب پائلٹ  سکول مستونگ کی عمارت میں نذیر نے بطور ایس ایس ٹی جنرل قدم رکھا اور ان قدموں کا رخ بزم ادب کی جانب ہوا۔

اور پھر یہ قدم اتنا بخت آور ثابت ہوا کہ ان چار سالوں میں اردو انگریزی تقاریر اور مضمون نویسی ،ملی نغمے ، ٹیبلو،نعت ،مصوری اور کوئز کے مقابلوں میں ضلع ،ڈویژن اور صوبے کی سطح میں بالترتیب ۱۷،۲۸اور ۶ انعامات حاصل کیے جن میں بیشتر اوّل تھے۔یہاں واضح کرتا چلوں کہ ہمارے ہاں ضلعی یا صوبائی سطح پہ غیر نصابی سرگرمیاں اتنی کم ہوتی ہیں کہ انگلیوں پہ نہیں انگلی پہ گنی جاسکتی ہیں ۔یعنی جتنے بھی مقابلے ہوئے فتح کا علم انہی کے ہاتھ میں آیا۔اس کے علاوہ ضلع بھر میں  پچیس سے زائد پروگراموں کا کامیابی سے انعقاد کیا اور اک ایسا ٹیبلو بھی پیش کیا جو واقفان حال کے مطابق  سکول کی سطح پر ناقابل فراموش رہا ہے۔

لیکن میں نذیر کو ہیرو اس لئے نہیں کہوں گا کہ اس کے  سکول نے یہ پوزیشنز اپنے نام کیں ۔اس نے  سکول کی ٹرافیوں میں اضافہ کیا ۔اس نے چند ہی سالوں میں بزم ادب کو نیا روپ عطا کر دیا ۔

بلکہ میں اسے ہیرو اس لئے کہوں گا کہ جن بچوں نے یہ پوزیشنز لیں ،ان بچوں کو نذیر نے ہیرو بنادیا ۔

ان بچوں کی آنکھوں میں دیے جلادیے۔ ایسے دیے جو جہالت کے ولن کی درگت بناتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ۔

ان بچوں کی صلاحیتوں کو الہ دین کے جن کی طرح گمنامی سے نکال کر جھٹ سے سینکڑوں لوگوں کے سامنے نمایاں کردیا ۔

جی !مجھے نذیر کی اسی بات نے گرویدہ بنایا ہے کہ اس نے مستونگ کے سرکاری  سکول کے سرکاری بچوں کو “سرکار “بنایا ۔

وہ بچے جن کے خواب بھی عام ،جن کی سوچوں کی حد بھی مختصر ،جن کے تخیل کی بلندیاں تک محدود ۔ انھیں ان تمام قیود سے آزاد کر کے جینا سکھایا ۔آگے بڑھنا سکھایا۔فتح کو مٹھی میں لینا سکھایا اور اسے قائم رکھنے کا ہنر عطا کیا۔۔

اس ویڈیو میں چند بچے تقریر کرتے اور ملی نغمہ گاتے دکھائی دیں گے۔آپ نے اگر تقریری مقابلوں میں تقاریرسنی ہیں تو ان کے انداز کا موازنہ بہترین مقررین سے کرلیں۔ ملی نغمے کے گائیک کو بھی تھوڑا پرکھ لیں ۔اسی پیمانے میں پائلٹ  سکول مستونگ کو رکھ لیں ،ساتھ ہی مستونگ نامی باٹ بھی ڈال دیں اور اس کے ساتھ پسماندہ کا لاحقہ بھی لگالیں ۔دوسرے پلڑے میں کوئی بھی اعلی ادارہ رکھ دیں ۔کم ازکم اتنا مجھے کہنے دیں کہ مستونگ والا پلڑا اگر جھکا نہیں تو کم سے کم ہم پلہ تورہے گا۔

سرکاری  سکول یوں تو پورے ملک میں سفید پوشی کا بھرم رکھنے  کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن بلوچستان میں تو یہ بھرم بہت حد تک کیڈٹ کالجوں اور ریذیڈیشنل کالجوں نے قائم رکھا ہے جہاں کسی درجہ کم فیس میں معیاری تعلیم دی جاتی ہے ۔ایک سفید پوش کا بیٹا ان اقامتی اداروں کا حصہ بن کر کم سے کم چھ سال تو (اگر کہیں منتخب نہ ہوسکے) زندگی کا کسی درجہ شاہانہ روپ دیکھتا ہے۔اسی لئے سرکاری اسکولوں میں وسیع تعداد ان بچوں کی ہے جو ان اقامتی اداروں کی فیس بھی برداشت نہیں کر پاتے ۔لہذا سرکاری اسکولوں کی صورت میں سفید پوشی اور غربت دونوں کے لئے سائبانی کا خاطر خواہ انتظام ہے۔ لیکن غربت اور سفید پوشی زندگی کے کچھ ایسے سبق بچپن سے ازبر کرادیتی ہے جو خود اعتمادی، آگے بڑھنے کی لگن، کنویں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت جیسی صفات پہ پردے بٹھا دیتے ہیں ۔

نذیر احمد کی اپنی زندگی انھی اسباق کو کھرچنے اور اس کھرچ کے دوران ہونے والے زخموں کو سینے میں لگی ۔ سکول اور محنت مزدوری دونوں کام ساتھ ساتھ چلے۔ چھالوں سے بھرے ہاتھوں سے کہیں دفعہ قلم تھاما۔ تبھی تو زخمی ہاتھوں کی دستگیری کی عادت بن گئ اور جنہیں ہاتھ تھامنا آجائے قافلہ بنانا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نذیر نے مجھے جب یہ ویڈیو بھیجی تو  یقین مانیے کہ اس ہیرو پہ  رشک آنے  لگا۔۔یہ کسی پروفیشنل کی بنائی ویڈیو تو نہیں البتہ کام کو بطور پروفیشن سمجھنے والے کے فن کا ایک اظہارتھی۔۔یہ پائلٹ اسکول مستونگ کا اک خوبصورت تعارف تھی۔۔ ایک ہمہ جہت استاد کا حسین انداز تھی۔۔مستونگ کے ہیرو کی بیش قیمت کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

Facebook Comments