کبوتر بازوں کی فتوی بازی۔۔۔۔ عظمت نواز


اگلے دن فیسبک پر ایک سٹیٹس لگایا کہ فیسبک ایک دار الافتاء ہے تو اس کے پیچھے گزشتہ ایک سال کا مشاہدہ تھا. چونکہ ہم من حیث القوم بھیڑ چال چلتے ہیں تو اسی کارن ابھی کچھ سال قبل دو سے تین پیشوں، جیسا کہ ڈاکٹر و انجینئر کے سوا کوئی تیسرا پیشہ ہماری قوم کے اکثر والدین و بچوں کو قبول نہ تھا، سو ہر ایک سوئے منزل چلا جا رہا تھا.

وقت بدلتا ہے اور انسانوں کی سوچ بھی ساتھ ساتھ تغیر کے لپیٹے میں آتی ہے. وقت بدلا سوچ بدلی اور ہمارے لوگوں کو بے شمار پیشے زندگی کا حیلہ کرنے کے لیے سمجھ میں آنے لگے- اسی تغیر میں پچھلے چند سال سے عموما اور میری نظر میں پچھلے ایک سال میں خصوصاً جو چیز ہم تک پہنچی اور بے پناہ اثر دکھایا وہ سوشل میڈیا ہے اور اس میں پھر خصوصاً فیسبک ہے- یہیں سے پتہ چلا کہ کس کس کے پاس ایمانو میٹر ہے، کس کس کے پاس ٹھیکے داری یے، کس کس کے پاس کائنات کا کل علم یا کون کون ہر فن مولا ہے، کون کون دین بیزار ہے اور کون کون دنیا کی تباہی پر تلا ہے، کون کون ہر چور راستے پر بیٹھا دوسرے کی حرکات و سکنات کی نگرانی کر رہا ہے، کس کس پر میرے من میں موجزن سوچوں کا انکشاف ہوتا ہے، کون کون ہر دوسری دہلیز پر کسوٹی لیے کھڑا ہے کہ یہ دیکھ سکے کے کون اس کے مقرر کردہ معیار ایمان پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

اسی نعمت بے بدل کی بدولت مجھ پر حقیقت کھلی کہ یہاں ایک اور پیشہ بھی بازار میں آچکا ہے اور آج کل ہم میں سے ہر دوسرا اسی کو اپنانے میں راحت و سکون محسوس کرنے لگا ہے اور یہ پیشہ ہے فتوی بازی کا. جونہی کسی کو عالم جان کر اس کے در پر دستک دیتے ہیں تو وہ فتوے کی پٹاری کھولے آنگن میں مست بیٹھا نظر آتا ہے. ہمیں خبر نہ تھی کہ فتوی جاری کرنا ایسا ہی کار طفلاں ہے جیسا یہاں آ کر دیکھا. کہاں وہ علم کے مینار ائمہ کرام و فقہائے دین اور کہاں فیسبکی ملا. مگر جیساکہ عرض کیا تھا، ہم بھیڑ چال میں یکتا نہیں تو کم از کم کسی سے پیچھے تو ہرگز نہیں سو اسی عادت صالح کی وجہ سے ہر دیوار مہربانی پر فتوے بکھرے پڑے ہوتے ہیں کیونکہ پیشہ فتوی بازی خون جگر نہیں مانگتا اور نہ علم کی بیکراں وسعتوں میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے. اس کے لیے تو فقط ایک چند چیزیں درکار ہیں وہ ہیں بے علمی، جہل، مخالف مسلک و مذہب کے کٹ اینڈ پیسٹ شدہ اقتباسات، اور اس پر اگر بد زبانی اور تضحیکی انداز تکلم بھی میسر ہو تو کیا ہی کہنے.

ان اجزا کے ملاپ سے ایک منافع بخش فتوی گری کا سامان تیار ہو سکتا ہے. اگر اس پیشے کی ترقی کی بات کی جائے تو اس کا سارا کریڈٹ ہم جیسے قارئین کو جاتا ہے- چونکہ ہمارا بطور قاری ایک بہت بڑا لوچہ ہے کہ ہم نے خاص طور پر مذہبی طور پر جو تصورات اپنے اذہان میں بنا علم و تحقیق کے گھڑ رکھے ہیں ان سے میل کھاتا کوئی فتوی شریف کسی کونے میں بھی نظر آ جائے تو ہم داد و تحسین کے دونگڑے ایسے برساتے ہیں کہ خدا کی پناہ. مگر تکلف نہیں کرتے کے کہی گئی بات جو ہماری طبیعت سے میل تو کھا رہی ہے کیا اس کی کوئی دلیل موجود ہے؟ کیا اس کا پس منظر میں درست سمجھ سکا ہوں؟ کیا میں نے اس فتوے پر مخالف کی رائے لے کی ہے؟ کیا میں خود علمی طور پر اس قابل ہوں کہ فتنے کی بنیاد بننے ان فتاوی پر کوئی حتمی رائے دے سکتا ہوں؟ ایسا کم از کم میں تو نہیں سوچتا. جب میری پسند کا فتوی کہیں نظر آتا ہے دوسروں کے بارے کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں اور من مرضی کے سوا نہ کچھ سماعت کے پردے پر گرانا چاہتا ہوں نہ بصارت پر. اسی وجہ سے یہ پیشہ ان لوگوں کا بہت کامیاب چل رہا ہے اور خوب پھیل رہا ہے.

یہاں بدمعاشوں کے ٹولے ہیں جو ہر تھوڑی دیر بعد بزور بازو دوسرے کا ایمان سلامت ہے کہ نہیں، دیکھنے کے لیے ایمانو میٹر لگاتے ہیں اور جتھے کی شکل میں ہر گاہ وارد ہو جاتے ہیں. بلاتفریق صنف یہ ایک گروہ ہے جس میں مرد و زن دونوں شامل ہیں

ایک سوال ذہن میں ان کے فتاوی کفریہ پڑھ کر آتا ہے کہ یہ انداز تخاطب، یہ پشتوں تک چلے جانے والے مجسم میں نہ مانوں کی تصویر بنے ہوئے، ہم ٹھیک و تم غلط کے پکے ورد کرنے والے، ہر دوسرے مسئلے میں ایمان کے خطرے کی گھنٹی بجانے والے، علم کے کس مرتبے پر ہیں کہ ان کے فتاوی کو خاطر میں لایا جائے یا تسلیم کیا جائے؟ حتی کہ ذرا سی بھی توجہ دی جائے کہ کس بنیاد پر، کس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر آخر یہ فتوی جاری کرتے ہیں؟ جس کسی نے ان پر سوال اٹھایا، یہ حملہ آور ہوئے ہیں-

پھر ایک اور تضاد بھی ہے. یہ آپ کو دنیا کی بے ثباتی پر تو دلآویز اسباق پڑھائیں گے مگر خود ان کے طور طریقے دیکھتے ہی ہر ایک عش عش کر اٹھتا ہے. مگر یہ ایسی ڈھٹائی سے پھر آپ کو سبق پڑھ شجاعت کا صداقت کی گردان میں پھنسا کر نکل لیتے ہیں.

ان سے بچ رہیو صاحب. یہ داروغے خود بخود محب وطن بھی بن بیٹھے ہیں اور دین کا علم بھی انہی کے پاس ہے، تو ہم ایسے دنیا داروں کو کنی کترا کر ہی چلنا چاہیے کیونکہ آپ کا ایمان اگر پیشہ ور کے مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترا تو جینا مشکل ہو جائے گا اور ہمیں تو ابھی جینے کی تمنا ہے کچھ دن اور.

Advertisements
julia rana solicitors london

دیتے ہیں دھوکہ یہ فتوی باز کھلا.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply