جنسی درندگی، اسباب و سدباب (قسط2)۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

ٹک ٹاک پر پھر وہی کام فحش ویڈیوز سے لے کر فحش باتوں ذومعنی حرکات و سکنات جو دیکھنے والے کا دماغ سر کے بجائے پینٹ میں رکھیں۔

اس کے بعد نیشنل میڈیا بھی بھارتی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پروگرامز، مارننگ شوز، فیشن شوز میں بچیوں کے کپڑے کم کرتے کرتے اتارنے تک چلے گئے اور کیٹ واک سے ہوتے ہوئے ٹھمکے لگانے، نچوانے کا آغاز بھی کر چکے۔ اس کے بعد اسٹیج ڈراموں کی صورت میں انتہائی لیول کی ہیجان انگیزی پھیلائی جا رہی ہے۔ ذو معنی گفتگو سے لے کر فحش ڈانس اور حرکات تک جو فحش کے ساتھ ساتھ انتہائی بے ہودہ اور کراہت آمیز بھی ہوتی ہیں۔ تو میرے بھائی یہ ساری چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں کم یا زیادہ، یہ الگ بحث لیکن ان کا اثر انداز ہونا ایک طبعی امر ہے۔

یہ بھی پڑھیں :جنسی درندگی، اسباب و سدباب (حصہ اول)۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

جنسی گھٹن زدہ معاشرہ۔

اچھا یہاں ایک اعتراض ہوتا  ہے کہ جی یہ سب کچھ تو مغرب میں بھی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو میرے بھائی وہاں پر جنسی گھٹن ایسی نہیں جو یہاں پر ہے۔ جنسی گھٹن پیدا اس طرح ہوتی ہے  کہ  اندر سے تو آپ صبح شام پورن سے لے کر ہیجان خیز گانوں اور فلموں تک، فیشن شوز سے لے کر  سٹیج ڈراموں اور ٹک ٹاک تک سے جذبات مشتعل کرتے رہیں اور باہر سے یہ بتاتے رہیں یہ معاشرہ اسلامی ہے، پاکستانی ہے، یہاں حاجی ثناء اللہ بن کر رہنا ہے۔ یعنی اس سلنڈر کی طرح جس کا سائز کمپریس کرتے جائیں ، اس میں گیس اتنی ہی رکھیں اور الٹا اس گیس میں جوش پیدا کرنے کے لیے نیچے آگ جلا دیں۔ مغرب میں اگر یہ   چیزیں ہیں، تو وہاں پر وہ اوپر سے کمپریس نہیں کرتے، وہاں پر ٹین ایج میں ہی گرل فرینڈ بوائے کا ہونا عام بات ( باوجود اس کے کہ گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ کا وہ معاملہ نہیں جیسا ہمارے ہاں سمجھا جاتا، لیکن ہے ضرور) تو ایک فیکٹر یہ ہے وہاں کا کہ جذبات اگر منہ زور بھی ہوں تو ان کے لئے عموماً راستہ بھی موجود ہوتا ہے جو آسان نکاح کی صورت میں ہم بھی دے سکتے ہیں، لیکن دیتے نہیں۔

دوسری چیز وہاں کا ماحول کہ وہاں یہ چیز عام بات ہے۔ پیدا ہوتا بچہ اتنی برہنگی دیکھنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے وہ چیزیں ہیجان میں مبتلا نہیں کرتیں۔۔

اس کے بعد وہاں کی قانونی عملداری، جس کی وجہ سے کوئی سگنل تک نہیں توڑتا تو اس سطح کی گھناؤنی حرکت تو کجا(اس کے باوجود بھی وہاں پر کیسز ہوتے ہیں)۔

•جنسی آسودگی کے جائز راستوں کا مشکل سے مشکل ترین ہوتے جانا۔

جس قسم کی ہیجان انگیزی اور جنسی گھٹن کا شکار ہمارا معاشرہ، اس میں مشتعل جذبات کو سمت دینے کا بہترین، جائز اور شرعی طریقہ کار ہے” آسان نکاح”۔ لیکن اب تو یہ لفظ بولتے ہوئے بھی اجنبی سا لگتا ہے ۔ شادی کو بہت سی فضول رسم و رواج میں جکڑ کر انتہائی مشکل ترین بنا دیا گیا، جن میں کچھ جہیز جیسی انتہائی غلیظ رسمیں بھی شامل ہیں، جن کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں بیٹیوں کے بالوں میں گھر بیٹھے چاندی آ گئی، غریب ماں باپ خود کشیاں کرنے پر مجبور، والدین کی قرضے اٹھا اٹھا کر کمر ٹوٹ جاتی ہے لیکن بیٹیاں پھر طعنوں کی زد میں رخصت ہوتی ہیں۔ اگر کہیں بیٹی والے چار پیسوں والے آرام سے جہیز دے لیتے ہیں ، تو لڑکا گورنمنٹ جاب پر ہو، اچھا گھر ،باہر ہو، گاڑی ہو اور پتہ نہیں کیا کیا!

اس کو مزید مشکل کرنے کے لیے رشتہ دیکھتے وقت لڑکی /لڑکا کوئی بھی فلاں ذات کا ہو، فلاں مسلک کا ہو، حتی کہ لسانی اعتبار سے بھی فلاں ہو۔ ایسی ہی ایک لڑکی یہیں سوشل میڈیا پر میرے فالوورز میں ،تیس سال کی، گھر بیٹھی کہ گھر والے کہہ رہے ہیں پنجابی نہ ہو، سندھی ہی آئے، پھر وہ ساری شرائط پر بھی پورا اترتا ہو۔

والدین سے خاص طور پر میرا ایک سوال ہے، صرف والدین سے کہ  خدانخواستہ کل کو آپ کی بیٹی یا بیٹا اس جنسی ہیجان انگیزی کی تاب نہ لاتے ہوئے آپکی پگڑی کو ٹھوکر مارتے ہوئے کہیں زنا کا مرتکب ، چلیں دیسی زبان میں کہتا ہوں  کہیں منہ کالا کروا کر آ جاتا تو؟؟ تو بھی آپ جا کر یہی دیکھیں گے کہ وہ لڑکی آرائیں تھی یا جٹ ؟ امیر تھی یا غریب؟ سنی تھی یا اہلحدیث ؟؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply