سوال۔۔ناصر خان ناصر

جذبات میں موجزوں، اپنے جوان خون میں اُبھرتے ہارمونز کے ہاتھوں مجبور دو نادان بچوں کے سر عام قبول و ایجاب کی وائرل وڈیو کیا چیز ہے؟
کہیں یہ بھی “صوفہ جلانے والی” اور “کیمرہ اجاگر کرنے والی” وڈیوز کے بعد “ٹرک کی نئی  بتی” تو نہیں۔

ہماری ہوشیار ایجنسیاں ہر چند دن کے بعد سسپنس اور سنسیشن کا ایک نیا وڈیو ریلیز کر دیتی ہیں۔ ہمارے عوام کو بھی ان ٹوپی ڈراموں کی لت لگ چکی ہے. وہ اپنی تمام تر مشکلات، مہنگائی ، دگرگوں حالات، سماجی گراوٹ کو مکمل طور پر بھول بھال کر ہر اس نئی  بات کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں جو ان کو دکھلا کر ان کی توجہ مسائل سے ہٹا دیتی ہے۔

ہمیں ہرگز کوئی  تعجب نہیں ہو گا، اگر ہمیں پتہ چلے کہ یہ دونوں بچے ایجنسیوں کے بھرتی شدہ اداکار نکلیں اور یہ سارا واقعہ ایک ڈرامہ۔۔

ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ یہ واقعہ کسی فلم کا حصہ تھا۔ یہ کھڑکی توڑ فلم تو یقیناً ڈائمند جوبلیاں ہی منائے گی، لوگ یہ سین دیکھ کر سکرین کی طرف سیٹیاں بچا بچا کر سکے اچھالیں گے۔ رقیق القلب عورتیں اور لڑکیاں دھاڑیں مار مار کر روئیں گی۔
جب بچوں کو گھروں میں بند رکھ کر دم پخت رکھیے گا تو ایسا جو بھی ہو وہ کم ہے۔

ہمارے معاشرے میں ہر قدم پر دوغلا پن ہے۔ ہم گھر میں جو کھاتے ہیں یا پہنتے ہیں وہ دوسروں کو دکھلا نہیں سکتے، ہمارے گھر کے اور گھر سے باہر پہننے کے کپڑے اور ہیں اور اب جب کہ ان بچوں نے کھوکھلے معاشرے کا ملبوس سرعام اتار کر اسے برہنہ کر دیا ہے تو کسی سے برداشت نہیں ہو رہا۔

کچھ لوگ واہ واہ کرنے میں جُت  گئے ہیں، کچھ کے لیے حسبِ عادت اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے اور چند ایک کا بس نہیں چلتا کہ وہ ان نابکاروں کو زندہ زمین میں گاڑ دیں۔

اس موضوع کو مزید اچھالے جانے اور اس پر بھرپور قومی ڈیبیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سچائی  کو بلی کی گُو کی طرح ڈھانپ کر نہیں رکھا جا سکتا۔

پاکستان کے دوغلے معاشرے میں جو کچھ ہوتا ہے، کوئی  بھی زی روح اس سے غافل نہیں ہے، اندھیرے کوٹھڑوں، چھتوں، کونے کھدروں، پارکوں میں ہونے والے واقعات کی بنا پر ہی اخبارات کی چاندی ہوتی ہے۔

“چند گندی مچھلیاں ہی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہیں”۔ “لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھانا چاہیے”، “تعلیم اور آزادی عورتوں کے لیے خطرناک ہے” سے لے کر”میرا جسم میری مرضی” اور” اپنا کھانا اور اپنا بستر خود گرم کرو” تک کے نعروں میں کوئی  درمیانی راہ کسی کو نہیں سوجھتی۔

معاشرہ سدھار  تنطیمیں خاموش ہیں، مذہبی راہنماؤں نے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا ہے، سماجی بہبود کے کارکن گونگے کا گڑ کھائے منہ میں گھنگنیاں ڈالے پڑے ہیں، حکومت خواب خرگوش میں دھت پڑی ہے، سیاسی لیڈروں کو ایک دوسرے کے پاجامے اتارنے سے فرصت نہیں۔ آوے کا آوا بگڑا پڑا ہو تو بچے اپنی من مانی ہی کریں گے۔ اخلاقیات کا جنازہ تو پہلے ہی نکل چکا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ اور بیگم لیاقت علی خان کی سی سر ڈھانپے دوپٹے اوڑھے رول ماڈلز کہاں سے لائیے، جنہیں دیکھ کر تقدس کا احساس ابھرتا تھا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان صاحب جیسی شرافت بھی ناپید ہو گئی ۔

انٹرنیٹ نے دنیا سکیڑ کر رکھ دی ہے، اب ایشیا اور یورپ کی ثقافتیں اور جاپان و جرمنی کی سرحدیں سچ مچ ملنے لگی ہیں۔ تہتر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب نے دکھ اور اداسی کے گرے رنگ کے بھی بہتر 72 شیڈز بنائے ہیں۔ ان سب میں سب سے زیادہ گوڑھا رنگ اولاد کے دکھ کا ہے۔

ہم تو اس بد نصیب بچی کے ماں باپ کے جذبات کا تصور کر کے بھی لرز اٹھتے ہیں جن کے سر شرم سے جھک گئے ہوں گے۔ نجانے کتنے جتن سے انھوں نے اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لیے بھجوایا ہو گا۔ اس کی کامیابی کے لیے دن رات جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں کی ہوں گی۔

خدا کرے کہ ان بچوں کی زندگی میں کوئی  دکھ نہ آئے مگر پاکستان جیسے معاشرے میں ایسی لڑکیوں کا جینا محال کر دیا جاتا ہے۔ سسرال والے تو قدم قدم پر طعنے تشنیع سے کلیجہ چھلنی کیے رکھتے ہیں۔ خود شوہر بھی لڑائی  جھگڑا ہونے پر خود قدموں میں آ گرنے کی بے حیائی کا طعنہ دینے سے نہیں چوکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان بچوں کا یہ عمل غلط ہے یا درست؟
ہماری خواہش ہے کہ اس معاملے پر ڈائیلاگ کھلے۔ والدین اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں سے کھل کر بات کریں، انھیں اپنا نفع نقصان سمجھائیں۔ اس واقعہ سے سچ مچ سبق حاصل کیا جائے۔ یہ قوم کے لکھاریوں کا فرض ہے کہ قومی دھارے اور  ذہنیت کو درست راستے اور راہ راست پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments