مہاتما کا عروج کیسے ہوا ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

اس کے ملک کو آخری لڑی جانے والی جنگ میں شکست کے المیہ سے گزرنا پڑا – اس جنگ میں انہوں نے وہ سب کچھ کھو دیا جو بہت محنت و مشقت سے ملک کے مشرقی و مغربی حصوں نے حاصل کیا تھا – یہ نہ صرف فوجی شکست تھی بلکہ یہ اس کے ملک کے لئے معاشی بدحالی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کی ایسی لہر تھی کہ جس نے اس ملک کے ہر شہری کو  برسوں تک مجبور کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے جنگی جنون کی قیمت ادا کرے – معاشرے کی اس ٹوٹ پھوٹ اور عدم استحکام کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر حکومت قائم کرنا اور اسے چلانا ممکن ہی نہ تھا – اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کرم فرماؤں کی کوششوں اور درپردہ معاونت کے نتیجہ میں اور کچھ صنعتکاروں و سرمایہ داروں کے معاشی تعاون کی بدولت اس کی پارٹی کا عروج شروع کروا دیا گیا –

اس کی پارٹی کی مقبولیت کے لئے اور لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جو طریقے اپنائے گئے ان میں جلسوں اور جلوسوں کو خاص اہمیت حاصل تھی – ان میں عورتوں اور نوجوانوں کے الگ سے گروپ بنائے گئے – طرح طرح کی موسیقی, گیت, یونیفارم اور جوشیلی تقریروں سے جذبات کو متاثر کیا جاتا – پوری قوم میں سیاسی مخالفین کے لئے نفرت جبکہ اس کی شخصیت کو نجات دہندہ اور مسیحا بنا کر پیش کیا گیا – اس کی پارٹی کے ان نت نئے طریقوں, یک طرفہ بیانات اور دلائل نے پوری قوم کی سوچ کو ایک ہی دھارے پر ڈال دیا – جس کی ایک ہی تعبیر تھی کہ وہ مہاتما ہے اور جو یہ نہیں مانے گا یا اس کی مخالفت کرے گا وہ جاہل ہے, غدار ہے اور بد عنوان بھی ہے

پھر اس کی پارٹی کو ان حالات میں حکومت مل ہی گئی – اگرچہ اس کے پاس واضح اکثریت نہیں تھی مگر سادہ اکثریت کی بنیاد پر حکومت بناتے ہی اس نے سیاسی مخالفین کے لئے اپنی سختیوں میں شدت بڑھانی شروع کر دی – میڈیا پر بھی سخت کنٹرول نافذ کرنا شروع کر دیا گیا – محفوظ صرف وہی تھا جو اس کی پارٹی کی تعریفیں کرے یا ملک و قوم کی تباہی و بربادی کی طرف بڑھتے جنونی حکومت کے اقدامات کو خاموشی سے دیکھتا رہے – اس کی حکومت میں استحکام آنے کے مراحل کے دوران ہی مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں نے دوسرے ممالک میں ہجرت کرنے کے لئے کوششوں کو انجام دینا شروع کر دیا – ان دانشوروں کی منزل ڈنمارک, سویڈن, امریکہ, کینیڈا, آسٹریا, فن لینڈ اور سوئٹزر لینڈ بنا –
کیوں ————؟
اس لئے کہ ایڈولف ہٹلر کے دور کے جرمنی کے دور میں یہی ممالک جلاوطنی گزارنے کے لئے مثالی سمجھے جاتے تھے –

Advertisements
julia rana solicitors london

پس تحریر نوٹ:-
اگر یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ کا ذہن اپنے مقامی حالات کی طرف جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری راقم پر نہیں ہو گی کیونکہ راقم نے یہ مضمون بہرحال ہٹلر کے عروج کے حوالہ میں ہی تحریر کیا ہے –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply