دورہ کراچی(دوم،آخری حصّہ)۔۔ محمد احمد

ان میں اکثر قلمی صورت میں ہے، مولانا کی کوشش ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی طباعت کا انتظام کیا جائے. اس کے بعد رابطۃ علماء السند کا اجلاس حضرت دامت برکاتہم کی صدارت میں شروع ہوا، جو 12:15 پر اختتام پذیر ہوا، اس میں بہت اہم فیصلے ہوئے. تھکاوٹ بہت تھی، اس لیے اجلاس کے اختتام کے بعد ہم نے سونے کو ترجیح دی. فجر میں مولانا حبیب الرحمن نے بیدار کیا، اس کے بعد ہم نے میزبانوں کو کہا ہم 9:00 بجے بعد ناشتہ کریں گے، ابھی نیند کی کوٹا پوری نہیں ہوئی، اس لیے سوگئے. پھر نو بجے آٹھ کر فریش ہوئے اور ادھر ناشتہ تیار تھا، ناشتے سے فراغت کے بعد ہم مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی کے ساتھ ایکسپو سینٹر روانہ ہوئے.
ایکسپو سینٹر میں لگنے والے عالمی کتب میلے میں ہم 2015 سے شریک ہورہے ہیں، حسب استطاعت اپنی پسند کتابیں خریدتے ہیں،اس سال بھی بجٹ سے پہلے سے تیار کررکھا تھی، لیکن مہنگائی کے اس دور میں جہاں لوگوں کے لیے جینا مشکل ہورہا ہو تو وہاں شوق کی تکمیل کیسے ہوگی؟ عمرانی دور عوام کی طرح ہم مُدرِّسوں کے لیے بھی کوئی اچھا نہیں رہا ہے. بہر حال ایکسپو سینٹر میں پہنچے کے بعد نماز جمعہ سے پہلے تینوں ہالوں کا وزٹ کیا، ایسا لگ رہا تھا کہ کتاب دوستوں کا سمندر امڈ آیا ہو، جوان، بوڑھے، بچے اور خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی. نماز سے پہلے کوئی خریداری نہیں کی، جمعہ بیت المکرم میں پڑھا، اس کے بعد مولانا عبدالمقیت سکھروی کے ساتھ دوبارہ حاضری دی، اس سال کتابیں خریدنے کی بڑی تیاری کرکے آیا تھا، کافی کتابوں کی لسٹ بھی تھی، لیکن دوسری جانب فون پر محترمہ میڈم صاحبہ کی مسلسل فرمائشیں بھی جاری تھی، اب بندہ کو دوہری آزمائش کا سامنا تھا، ایک طرف شوق کی تسکین اور دوسری طرف محترمہ کی ناراضگی کی فکر اس لیے ہم نے اپنے شوق کی قربانی دی یہی وجہ ہے کہ اس سال پچھلے سالوں کے مقابلے میں ہم نے سب سے کم خریداری کی وہ بھی کچھ کتابیں نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اس کے علاوہ کچھ دیگر اسٹالوں سے خریدیں. لیکن پھر بھی کتابوں کی زیارت، علم دوست حضرات سے ملاقات(جس میں بالخصوص سید عزیز الرحمن سے ملاقات قابل ذکر ہے، اگرچہ ملاقات بہت مختصر رہی) اور ایسے لوگوں کے درمیان وقت گزارنا جو معاشرے میں کتاب اور علم کو بڑھانا چاہتے ہیں، ہمارے لیے غنیمت ہے. دوسرا مسئلہ میرے ساتھ یہ بھی ہے کہ میں لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کا عادی نہیں،بہت الجھن اور تکلیف ہوتی ہے. آدھے پیسے تو محترمہ کی فرمائش پر خرچ ہوئے باقی آدھے رکشوں کے کرایوں میں لگ گئے.
یہاں سے فارغ ہوکر ہم نے راستے میں ہوم منسٹر کے آرڈر کے پر کچھ خریداری کی پھر مادر علمی جامعہ دارالعلوم کراچی پہنچے.
شب ہفتہ کو ہم مادر علمی جامعہ دارالعلوم کراچی پہنچے، ہمارے ساتھ ہمارے دوست جن کے ساتھ جامعہ میں چھ سال رفاقت رہی، مولانا عبدالمقیت سکھروی تھے.
سکھروی صاحب ظاہری وباطنی اخلاق سے مزین باکمال آدمی ہیں، معاملات میں بڑے صاف، نظم وضبط کے نہایت پابند، بااخلاق اور باکردار انسان ہیں.
بڑے اداروں میں ہمیشہ بڑے مسائل ہوا کرتے ہیں، آج کل حضرت شیخ صاحب پر حملوں کی وجہ سے جامعہ میں سیکیورٹی کافی سخت کی گئی ہے اور باہر سے آنے والے حضرات کو کافی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، جن میں فضلاء کرام بھی شامل ہیں. لیکن بہرحال ہمیں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا. میرے خیال میں ابنائے جامعہ کے لیے کوئی خاص طریقہ کار ہونا چاہیے، ورنہ بیچاروں کو خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
جیسے ہم احاطہ دار العلوم میں داخل ہوئے تو بیتے ہوئے ایام یاد آنے لگے، سات سال کی وابستہ یادیں دل ودماغ میں گردش کرنے لگیں، میں اپنی حسین یادوں میں کھو گیا،وہ درسگاہیں، دار الاقامہ، ساتھی، وسیع وعریض میدان، کشادہ اور خوبصورت لان، شاندار مطعم،دار العلوم کے شایان شان لائبریری سب کچھ یاد آنے لگا.
دار العلوم کراچی میرا طالب علمی کا زمانہ کیسے گذرا، اس پر دو سال قبل “کچھ یادیں کچھ باتیں” کے عنوان سے کچھ لکھنا شروع کیا تھا، پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا.
ہمارے میزبان عبدالمقیت بھائی تھے،دار الاقامہ میں قیام مولانا محمد اکمل جمال کے پاس رہا، وہ ہمارے بہت اچھے دوست ہیں، جن پر بجا طور فخر کیا جاسکتا ہے، مولانا جامعہ کے فاضل، بنوری ٹاؤن کے متخصص فی الحدیث اور جامعۃ الرشید کے متخصص فی الفقہ ہیں. اس وقت جامعہ دارالعلوم کراچی میں موسوعۃ الحدیث میں کام کے ساتھ تدریسی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں. مولانا کا تعلق ژوپ بلوچستان سے ہے، علمی خاندان کے چشم وچراغ ہیں. تحقیقی مزاج رکھتے ہیں، عربی ادب پر دسترس کے ساتھ اردو ادب میں بھی کمال رکھتے ہیں. مولانا ایک مستقل مزاج، عاجز، منکسرالمزاج ، شاب صالح اور نوجوان عالم دین ہیں. امت مسلمہ کے اجتماعی امور پر مولانا بڑے فکر مند رہتے ہیں، اس کے علاوہ نظریاتی سیاست پر بڑا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں.مولانا سے زمانہ طالب علمی سے نیاز مندی کا تعلق رہا ہے. جب بھی مادر علمی میں حاضری ہوتی ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ مولانا سے ضرور ملاقات کروں، کیونکہ اس میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے.
اس کے علاوہ فداء اللہ بھائی سے ملاقات رہی، جو جامعہ کے ہونہار طلبہ میں سے ہیں، اس وقت تخصص سال سوم کے طالب علم ہیں. مولانا فکر و نظر کی دنیا کے آدمی ہیں، علمی رسوخ کے ساتھ ادب کے ساتھ بڑا لگاؤ ہے. صاحب مطالعہ انسان ہیں، ہر موضوع پر ان کی گفتگو عالمانہ اور فاضلانہ ہوتی ہے. میرے ساتھ ملکی سیاست بالخصوص دینی سیاست وقیادت پر مکالمہ ہوتا رہتا ہے، اس حوالے سے ان کی سوچ، فکر بہت اہمیت کی حامل ہے، وہ دینی سیاسی جماعتوں سے ایسی بامعنی جدوجہد طالب ہیں، جو
دورِ جدید کی سب مشکلات میں ان کا معاون ہوں.
اساتذہ میں مولانا شمس الحق سے ملاقات ہوئی، استاد محترم سے ہم نے ثالثہ میں ترجمہ پڑھا تھا. استاد محترم اصولوں اور وقت کے بڑے پابند ہیں،جامعہ سے ان کی والہانہ عقیدت بلکہ عشق ، اکابرین سے بے حد محبت ہے. ان کا پسندیدہ مشغلہ بلکہ اوڑھنا بچھونا تدریس اور بس تدریس ہے. استاد محترم نے فرمایا کہ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھانا، انہوں نے گھر سے بنے شاندار طعام سے ضیافت کی.
اب نماز ظہر کا وقت ہوا چاہتا تھا، نماز ادا کی، اس کے بعد راہ چلتے ہوئے مولانا طاہر اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی، استاد محترم سے ہم نے کنز الدقائق پڑھی ہے، بڑی محنت سے کنز جیسی پیچیدہ کتاب نہایت سہل اور آسان انداز میں پڑھائی. مزاج عالمہ، وضع قطع سادہ اور طلبہ پر بہت شفیق ہیں.
اس کے بعد بھائی عبدالمقیت سکھروی کے ہمراہ مولانا ڈاکٹر زبیر اشرف عثمانی سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی، خندہ پیشانی سے ملے اور مختصر حال وأحوال لیا اور مصروفیات کا پوچھا،اس کے بعد ہم نے حضرت رئیس الجامعہ زیدمجدہم کی شیخ الہند سیمینار کی گئی تقریر پیش کی، جو موجودہ وقت کی ضرورت کے حساب سے بہت اہمیت کی حامل ہے.
ہم نے مولانا زبیر اشرف عثمانی سابعہ میں ہدایہ ثالث پڑھی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص ملکہ دیا ہے، سبق بہت محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے، پڑھانے اور سمجھانے کا انداز بڑا شاہانہ تھا.
مضمون کے اختتام سے پہلے جناب فضل ودود جو ہمارے بہت پیارے دوست ہیں، کا تذکرہ ضروری ہے. جو سماجی اشوز پر بڑے متحرک اور خدمت خلق کے جذبے سے بھرپور ہیں، ان سے بھی ملاقات رہی. اس کے بعد ہم نے دوستوں سے اجازت چاہی،مولانا عبدالمقیت سکھروی اور مولانا فضل ودود مرکزی دروازے پر رخصت کرنے آئے، پھر ہم صدر کراچی کی طرف روانہ ہوئے.

Advertisements
julia rana solicitors london

صدر کراچی میں مولانا غلام مصطفی راجپر سے ملاقات طئے تھی، عصر کے وقت صدر پہنچا اور کچھ وقت کے بعد مولانا محترم تشریف لائے. مولانا صاحب سے یہ میری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی، ان سے پہلے غائبانہ تعلق تھا، فیس بک پر ان کی مفید علمی، فکری تحریریں پڑھنے کو ملتی تھی. مولانا محترم سندھ کی قدیم دینی درسگاہ جامعہ دار الہدی ٹیھڑھی کے فاضل ہیں. ملنسار، متواضع شخصیت ہیں، پہلی ملاقات میں انہوں نے اتنا پیار، شفقت کا معاملہ فرمایا کہ جیسا کہ برسوں سے شناسائی ہو.مولانا صاحب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فکر و فلسفہ سے گہری واقفیت رکھتے ہیں، مولانا عبید اللہ سندھی کے فکر ونظر کے ہمنوا ہیں. ان کی تحریروں میں اس کی جھلک نظر آتی ہے. گھنٹے بھر سے زائد فکری اور نظریاتی مجلس جمی رہی، جس میں انہوں نے میرے سوالات کی روشنی میں مدلل اور مفصل گفتگو کی. ان کی گفتگو میں سلاست، روانی تھی، ہر بات دلیل سے مزین تھی، فریق مخالف کے لیے احترام تھا. بہرحال مولانا عبیداللہ سندھی کے نام پر بہت لوگوں نے ادھم مچایا ہوا ہے لیکن مولانا راجپر صاحب کی گفتگو سن کر لگا کہ اے کاش! مولانا سندھی کو اگر ایسے محقق اور منصف مزاج ترجمان ملتے تو شاید مولانا سندھی کے فکر وفلفسہ کو مزید فروغ ملتا اور لوگ ان کی تعلیمات سے خوب استفادہ کرتے. مولانا راجپر صاحب شاہ ولی اللہ کے علوم پر مضبوط گرفت رکھنے کے ساتھ ایک راسخ عالم دین ہیں. ان کی تحریریں ماہنامہ “الصادق” کی زینت بنتی رہتی ہیں. ملاقات اس عزم پر ختم ہوئی کہ آئندہ بھی یہ نظریاتی مباحث کا سلسلہ جاری رہے گا.
ان کے ساتھ معروف قلمکار،مصنف، فقیر منش، ادیب بلکہ ابو الادیب حافظ ابوالاديب سندھی بھی تھے، جناب سے ہمارا تعلق فیس بک کی حد تک تھا، ان کی تحریروں سے استفادہ کا موقع ملتا تھا. اس اچانک اور غیر متوقع ملاقات سے بہت خوشی ہوئی.
اس کے بعد ہمارے اگلے میزبان جناب نور احمد سندھی تھے، نور احمد سندھی کسی تعارف کے محتاج نہیں، علمی، ادبی حلقوں میں وہ جانی پہچانی شخصیت ہیں. موصوف “سندھیکا اکیڈمی” کے روح رواں اور بانی ہیں، یہ مشہور اشاعتی ادارہ ہے، جس نے پانچ سو سے زائد کتابیں شائع کی ہیں، سندھ کی تعمیری، علمی اور ادبی ترقی میں سندھیکا کا بڑا حصہ ہے. جناب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جی ٹی آئی سے کیا تھا، جس میں انہوں بھرپور کردار ادا کیا، بہت بزرگوں کی صحبت انہیں میسر رہی، جن میں حضرت مولانا عبدالکریم قریشی رح اور مولانا محمد شاہ امروٹی رح کے نام سرفہرست ہیں. کافی کتابوں کے مصنف اور نصف درجن سے زائد رسالوں کے ایڈیٹر رہے ہیں. اس وقت حکمت قرآن انسٹیٹیوٹ کے تحت علوم القرآن پر تخصص کا پروگرام بھی چلا رہے ہیں.
بنیادی طور پر مولانا عبیداللہ سندھی کے پیروکار ہیں، اس فکر کی روشنی میں اپنی جدوجہد کررہے ہیں. جناب نور احمد سندھی سے میری باضابطہ پہلی ملاقات تھی، لیکن انہوں نے جو پیار اور محبت کا اظہار کیا،ایسا لگا کہ عرصہ دراز سے پرانا تعلق ہو.
میری بے حد حوصلہ افزائی کی، مجھے بہت عزت دی، نہایت احترام اور خندہ پیشانی سے پیش آئے. مہمان نوازی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی. ان کے ساتھ متنوع موضوعات پر گفتگو رہی، ان کا مطالعہ وسیع ہے، وہ اپنی ایک مخصوص سوچ اور فکر رکھتے ہیں، ان کے فکر اور نظریے سے ہر ایک کا اتفاق ضروری نہیں. ہم نے ان سے فکری، نظریاتی، سیاسی اور ان کی عملی زندگی پر بات چیت کی، ان کے تجربات اور مشاہدات کو جاننے کی سعی کی. وہ ہمیں ایک بالغ نظر، انتھک محنت کے عادی، اپنے موقف پر جمے رہنے والے آدمی نظر آئے. ان کے اخلاقِ حسنہ نے مجھے ان کا گرویدہ بنالیا. اتنی بڑی عمر میں جس طرح انہوں نے مجھ طالب علم کے ساتھ احترام، شفقت کا مظاہرہ کیا وہ ان کا ہی خاصہ ہے. ہم نے رات ان کے گھر پر گذاری، صبح انہوں نے اپنے ادارے کا دورہ کرایا اور مستقبل کے منصوبوں سے آگاہی دی. پھر اس کے بعد ناشتہ کیا اور مختلف موضوعات پر گفتگو بھی چلتی رہی، اس کے بعد وہ ہمیں رخصت کرنے سہراب گوٹھ ساتھ آئے.
یوں یہ مختصر دورہ اختتام پذیر ہوا، بہت دوستوں سے ملنے کی چاہت تھی، وقت کی قلت، کچھ اور اسباب کی بنا پر ان سے ملاقات نہ ہوسکی، جب دوبارہ کبھی آنا ہوا، تو ان سے ان سے ملاقات ترجیحی بنیادوں پر ہوگا. (ان شاء اللہ)
ان سب دوستوں کا شکریہ، جنہوں نے بے پناہ عزت و محبت دی، خدا یہ محبتیں، رشتے سلامت رکھے، آمین.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply