عورت کی سماجی حیثیت۔۔امیر جان حقانی

مسلم سماج میں عورت کی حیثیت کو کسی طرح کم نہیں کیا جاسکتا. فکری و ذہنی طور پر ہو یا جسمانی طور پر، بہر صورت عورت کی حیثیت تسلیم شدہ ہے.فکری و علمی طور پر عورت نے اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں. اسی طرح جسمانی طور پر بھی عورت مزدوری سے لے کر کھیتی باڑی تک کرلیتی ہے. سماج میں عورت کے کئی روپ ہیں. ہر روپ کا اپنا رنگ و مقام ہے.
سماج مسلم ہو یا غیر مسلم مگر دینی ہدایات یکساں ہیں. اگر سماج فساد اور برائی کی طرف مائل ہے تو عورت کو زیادہ محتاط اور فکر مند رہنے کا حکم ہے. اگر سماج قدرے مستحکم اور فرد کا تحفظ یقینی ہے تو پھر اسلام عورت پر زیادہ پابندیاں عائد نہیں کرتا اور نہ ہی عورت کو زیادہ   فکرمند ہونے کی ضرورت ہوتی ہے.
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ مرد ہو یا عورت، دونوں کو چند پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں. فرد کو مطلق آزادی ازل  سے ہی نہیں ملی ہے. مطلق آزادی چاہے فرد کو دی جائے یا معاشرہ و ریاست کو، بہرصورت اس کا انجام بگاڑ ہے.پابندیوں کے ساتھ ہی اصلاح ممکن ہے. ہر ایک کی  حدود متعین ہیں. چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے. فرد، معاشرہ اور ریاست کو قوانین اور پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں. اس کے بغیر ان کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا.
خاندان فرد کی آزادی میں رکاوٹ  نہیں  بلکہ مرد و عورت کی نشوو نما کا ضامن ہے. ریاست اور معاشرہ کی طرح عورت کو بھی ایک مضبوط دفاع اور حصار کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے. نکاح ہی وہ واحد عمل ہے جو ایک عورت کو تحفظ بھی دیتا ہے اور خاندان اس عورت کو اپنے حصار اور دفاع میں لیتا ہے.اور معاشی کفالت بھی کرلیتا ہے. پھر نکاح کی بدولت عورت روز بروز طاقتور ہوتی جاتی ہے. اس کی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے. ایک وقت آتا ہے وہی کمزور اعصاب کی  مالک عورت کئی بیٹوں، نواسوں اور پوتوں پر حکم چلارہی ہوتی ہے. جسمانی طور پر نحیف، اس عورت کے حکم سے پوری فیملی میں کوئی روگردانی نہیں کرسکتا. یہ عورت ایک طرح کی حاکمہ بنی رہتی ہے.
فی زمانہ ہمارے ہاں خواتین چار اقسام میں بٹ گئی ہیں.لازمی نہیں کہ یہی تقسیم آخری تقسیم ہے. یہ میری وضع کردہ تقسیم ہے.. اس سے زیادہ اقسام بھی ہوسکتی ہیں مگر مجموعی طور پر اکثریت ایسی ہی ہیں.
خواتین کی پہلی قسم خواتین خانہ کہلائیں گی. یہ خواتین سب سے زیادہ تعداد میں ہیں.
یہ وہ خوش قسمت خواتین ہیں جو صرف گھر داری کرتی ہیں. اولاد کی تربیت کرتی ہیں.شوہروں کو خوش رکھتی ہیں. شوہروں کو گھر کے امور سے آزاد کرتی ہیں، امور خانہ خوش اسلوبی سے نمٹاتی ہیں. ان خواتین کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں.ان خواتین کی آزادی، طاقت اور گھر  میں حکمرانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے. کیونکہ معاش اور ضروریات زندگی کا سارا بوجھ مرد(باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا) نے اپنے اوپر لیا ہوا ہے.یہ خواتین گھر کے سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں اور خوب فیصلے سناتی ہیں اور خرچے بھی دباکر کرلیتی ہیں.

دوسری قسم کی جو خواتین ہیں وہ خواتین عاملہ(ورکنگ وویمن) کہلاتی ہیں. یہ خواتین گھر داری کے ساتھ کام کاج اور نوکری بھی کرتی ہیں.ان کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے. ان خواتین کے مسائل خواتین خانہ سے قدرے زائد ہوتے ہیں.ان کو دفاتر اور کام کی جگہوں میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. یہ خواتین گھر کے جملہ معاملات کیساتھ کماتی بھی ہیں. ان کی پیشہ وارانہ زندگی مجبوری کیساتھ چل رہی ہوتی ہے. ان کا دل بھی کرتا ہے کہ ان کا مرد کما کر دے اور انہیں گھر سے باہر کے جھمیلیوں سے آزاد کرے مگر عملاً  ایسا مشکل سے ہوتا ہے. اس لیے یہ خواتین مشکلات و مسائل کا سامنا  کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چلارہی  ہوتی ہیں.

آج کل یہ ایک سماجی اسٹیٹس بھی بن چکا ہے کہ خواتین خوشی خوشی جاب کرتی ہیں اور کمانے میں مرد کے ساتھ شریک رہتی ہیں.بہر صورت ورکنگ وویمن میں بہت کم تعداد ان خواتین کی ہے، جو فیشن اور سماجی اسٹیٹس کی وجہ سے نوکری کرتی ہیں.

خواتین کی تیسری قسم خواتین مظلومہ کہلاتی ہیں. یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جن کے گھروں میں ان کی کوئی اوقات نہیں ہوتی. ان کی زندگی اجیرن بنی ہوتی ہے. ان پر روز ظلم ہوتا ہے اور ظلم کی چکی میں پس کر بالآخر موت کا پیالہ پیتی ہیں.یہ خواتین انتہائی قابل رحم ہوتی ہیں مگر ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا. خواتین کے نام پر بنی تنظیمیں بھی ان خواتین کا نہیں پوچھتیں . ان کے اپنے مقاصد اور ایجنڈے ہوتے ہیں. مظلوم خواتین سے انہیں لینا دینا نہیں ہوتا ہے.یہ خواتین ہرقسم کا ظلم سہہ کر بھی اپنا گھر بچا لیتی ہیں. یہ فیملی کے بہت سارے افراد ساس، سسر، دیور، شوہر اور باپ بھائی کے ظلم و ستم اور بےرخی کا ایک طویل عرصہ شکار رہتی ہیں. ان خواتین کو زندگی کے آخری وقت تک بھی بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، تاہم ان خواتین کے بیٹے بیٹیاں بڑے ہوجائیں تو ان کی زندگی میں قدرے سکون  آجاتا ہے. ان کی خدمت کی جانے لگتی ہے. اور پھر یوں ان خواتین کا سماجی اسٹیٹس بڑھتا جاتا ہے اور وہ بھی اپنی اولاد کی بدولت زندگی انجوائی کرنے لگتی ہیں.

خواتین کی چوتھی قسم خواتین فاسدہ کہلاتی ہیں. ان کے اخلاق مخرب ہوتے ہیں اور افعال فاسد.
یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جن کی بداخلاقی ان کی زندگی کے ہر  معاملے میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام اور مسلم سماج عورت کے حوالے سے فکری اور عملی طور پر قطعاً لاوارث نہیں ہے. الحمدللہ! اس گئے گزرے دور میں بھی مسلم سماج میں مرد اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی  کے حوالے سے انتہائی محتاط ہے. ان کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے.ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہے. بہت سی کمزوریوں کیساتھ بھی مرد کا یہ معاشرہ عورت کے  احترام و عزت میں کمی کرنے کے حق میں نہیں. تسلیم کیا جانا چاہیے کہ سینکڑوں کمزوریاں مسلم سماج کے مرد کے پاس عورت کے متعلق موجود ہیں مگر مجموعی طور پر آج بھی مسلمان مرد عورت کا تحفظ، اس کی کفالت، علاج معالجہ، اور تربیت میں اپنی بساط کے مطابق بہتری لانے کی کوشش کرتا ہے.

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply