• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وسائل کی کمی کے شکار والدین اپنے بچوں کے مجرم ہیں۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

وسائل کی کمی کے شکار والدین اپنے بچوں کے مجرم ہیں۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

جب وسائل کی کمی کے شکار والدین اپنی مرضی سے پیدا کیے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش میں مشقتیں اٹھاتے ہیں، تکلیفیں جھیلتے  ہیں تو درحقیقت ان کے محروم الوسائل بچے ان سے زیادہ اذیتیں برداشت کرتے ہیں۔ والدین نے تو یہ مشقتیں اپنے اختیار سے چنی ہوتی ہیں اور مستقبل میں بہتری کی امید بھی اکثر موجود ہوتی ہے، اور اگر نہیں ہوتی تو آخرت میں اپنی مشقتوں کے اجر کی توقع تو ہوتی ہی ہے، لیکن بچے جو بغیر اپنی مرضی کے، خواہ مخواہ ہی اس آزمائش میں اپنے والدین کے اصرار پر ان کی مشقتیں  جھیلنے کے لیے شامل ہونے پر مجبور کیے گئے، ان کو تو اپنے دکھوں کا کوئی مداوا  معلوم بھی نہیں ہوتا۔ ان کا دکھ بہت ہی بڑا ہے۔

کیا ایسے والدین کی قربانیوں کو قربانی کہنا درست ہے؟

شادی اور اولاد کی پیدائش کے بعد خدا نخواستہ کوئی مصیبت آ پڑے اور آدمی وسائل سے تہی ہو جائے تو الگ معاملہ ہے لیکن اپنے وسائل کے مطابق بچے پیدا کرنے کی منصوبہ بندی تو آپ کے اختیار میں ہے۔ الٹا اس بے شعوری کو دین اور توکل کے نام  کا  سہارا دینا پر لے درجے کی جہالت ہے۔

ذرا سوچیے آپ کا ایک غریب دوست آ پ کو بلا ضرورت اپنا مہمان بنا لے۔ پھر وہ آپ کی خاطر تواضع بھی نہ کر سکے، بھوکا پیاسا ہی واپس بھیج دے تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ اگر کوئی مجبوری ہوتی تب بھی کوئی بات تھی، یوں بلا ضرورت آپ کو مہمان بنا کر خوار کرنے پر آپ اس کو شاباشی تو نہیں دے سکتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ان والدین کا ہے جو بلا کسی منصوبہ بندی کے بچے پیدا کر لیتے ہیں۔

چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں تو آپ اپنے اخراجات کو مینج کرنے لگتے ہیں، کپڑے، جوتے، کھانے پینے، ہر چیز میں کفایت شعاری اپناتے ہیں، اپنی بہت سی  خواہشات کم کر لیتے ہیں، تاکہ مہینے کا خرچ پورا  ہو سکے۔ گھر میں کوئی پالتو جانور رکھا ہو تو اسے نکال دیتے ہیں کہ خود  کا پورا نہیں ہو پا رہا تو اسے کہاں سے کھلائیں۔ لیکن یہ ساری مینیجمنٹ بچے پیدا کرنے کے معاملے میں کیوں معطل کر دی جاتی ہے۔ کیا صرف بچے ہی ایسی چیز ہیں جسے خدا کے بھروسے پر پیدا کر لینے میں نا معقول حد تک لاپرواہی دکھائی جاتی ہے، ایسے حالات میں بچے بھوک سے بھی مرتے ہیں اور مناسب علاج معالجہ نہ ملنے سے بھی۔ انھیں  اپنے  اور والدین کے رزق کے حصول کے لیے چھوٹی عمر میں کام پر کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟ انہیں اینٹوں کے بھٹے پر، قالین بافی کی صنعت میں بیچ کیوں دیا جاتا ہے، جہاں ان سے بدتر سلوک ہوتا ہے، جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ بھیک تک مانگنے پر کیوں لگا دیا جاتا ہے؟

اس دنیا کی سب چیزوں میں انسان سب سے زیادہ اس بات  کا مستحق ہے کہ اس کی پیدائش کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے بعد خدا پر بھروسہ کیا جائے۔ انسان کی پیدائش کے معاملے میں اصل توکل یہ ہے۔

قرآن مجید میں دیکھیے کہ خدا نے اس بارے میں کیا کہا ہے۔ خدا نے وسائل رزق کی پیدائش کے حوالے سے خود کو رازق کہا ہے۔ یعنی دنیا میں جو رزق بھی پیدا ہوتا ہے وہ خدا پیدا کرتا ہے۔ دنیا کے ہر قسم کے  جاندار کو جو خوراک و ماحول درکار ہے اس کے وسائل خدا نے پیدا کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رزق بھی کسی کو ملتا ہے وہ خدا کے پیدا کردہ رزق سے ملتا ہے، خدا پرندوں کو بھی رزق دیتا ہے لیکن کسی پرندے کے گھونسلے میں نہیں ڈالتا،اس کے لیے انہیں خود تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

بچوں کے معاملے میں منصوبہ بندی  کرنے سے آپ گنہگار نہیں ہوتے بلکہ یہ آپ کا حق ہے کہ اپنے وسائل کے مطابق چادر دیکھ کر  پاوں پھیلائیں۔

رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جو زیادہ بچے پیدا کرنے کی روایت آتی ہے کہ اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہو، تاکہ میں قیامت کے دن تمھاری کثرت پر فخر کروں، اگر درست ہے)کوئی دوست حوالہ پیش کردے(  تو اس کو بھی دین کے مجموعی فریم میں رکھ کر دیکھا جائے گا۔ یہ ہدایت اس وقت کے حالات کے تناظر میں ہی درست قرار دی جاسکتی ہے۔ قبائلی معاشرت قبیلے کی افرادی قوت پر منحصر ہوتی ہے۔ جس قبیلے کے افراد زیادہ ہوں وہی طاقت ور سمجھا جاتا ہے۔ نیز اس وقت جنگی ماحول جاری تھا، جزیرہ عرب کے بعد روم و ایران کے ساتھ جنگی معرے برپا ہونے کی خبر بھی آپﷺ نے دے دی تھی۔ اس کے لیے زیادہ افرادی قوت درکار تھی۔ فتوحات کی وجہ سے مسلمانوں کے وسائل میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لیے مناسب بھی یہی تھا کہ ان کی آبادی میں اضافہ ہو۔ اس ہدایت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ انسان اپنے وسائل کی پروا کیے بغیر بچے پیدا کر لے اور ان کی درست پرورش اور تعلیم و تربیت نہ کر سکنے کی صورت میں سماج کو بے کار افراد کا ریوڑ دے جائے۔ منصوبہ بندی کا تو یہ حال ہے کہ خدا، جسے اس کی ضرورت نہیں وہ بھی اسے اختیار کرتا ہے، پھر یہ محدود وسائل کا حامل انسان اس سے بے پروا کیسے ہو سکتا ہے؟

یہاں زیادہ تر غریب اور کم وسائل طبقہ ہی ہے جو نان بائی کی روٹیوں کی طرح بچے پر بچے پیدا کیے جاتے ہیں، اپنے ساتھ ان کو بھی مشقت، محرومی اور برے مستقبل کی تاریکیوں میں دھکیلتے چلے جاتے ہیں اور پھر اس حماقت پر اولاد کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی خود ساختہ قربانیوں کی داستانیں سنا سنا کر ان سے اپنی قربانیوں کا صلہ بھی مانگتے رہتے ہیں۔

درحقیقت اولاد بھی کھیتی کی طرح ہے۔ جس طرح کھیتی باڑی میں عقل سے کام لیا جاتا ہے کہ کیا بونا ہے، کتنا بونا، کب بونا ہے، اسی طرح اولاد کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ کتنی پیدا کرنی ہے اور کب پیدا کرنی ہے۔

رزق صرف روٹی اور کپڑے ہی نہیں ہوتے، بچوں کو تعلیم بھی دلوانی ہوتی ہے، ان کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس کے وسائل کہاں ہوتے ہیں ہر ایک کے پاس۔

یہ تسلیم  ہے کہ اخلاق سے عاری سرمایہ دارانہ نظام غربت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کا سبب ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو گالیاں ضرور دیجیے، لیکن اس ظلم کو بدلنے پر فی الحال آپ قادر نہیں تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اس ظلم کی چکی میں پیسنے کے لیے بچوں کی صورت میں مزید ایندھن کیوں مہیا کیا جاتا ہے؟ ضرورت سے زائد بچے پیدا نہ کیے جائیں تو سرمایہ دار کو سستے مزدور ملنا بند ہو جائیں گے۔ کثرت سے بچے پیدا کر کے  آپ اس نظام کو خود مضبوط کرتے ہیں اور اپنا اور اپنے بچوں کے استحصال کا سبب بنتے ہیں۔

دولت کی منصفانہ تقسیم کے نظام کی جب تک اصلاح نہیں ہو جاتی کم وسائل رکھنے والے والدین اپنے وسائل سے زیادہ بچے پیدا کر کے ان پر ظلم کا سبب نہ بنیں۔

یہاں ایک عجیب رویے پر غور کیجیے جو ہمارے لوگوں میں عام پایا جاتا ہے۔ غربت کے ہاتھوں پسنے والے ہزاروں لاکھوں غریب بچوں میں سے کسی ایک کی قسمت چمک اٹھتی ہے تو بجائے لاکھوں بچوں کی حالت سے عبرت حاصل کرنے کے چند ایک خوش قسمت بچوں کے بل بوتے پر کہا جاتا ہے کہ بچے پیدا کرتے جاؤ کیا معلوم وہ بھی قسمت کا دھنی نکلے۔ آپ بچے پیدا کر رہے ہیں یا جوا کھیل رہے ہیں اور وہ بھی ایک انسان کے بل پہ!! یہ اگر قسمت کا دھنی نہ نکلا تو کیا ہوگا؟ کسی ایک کی قسمت کا انفرادی واقعہ دوسرے کے لیے کوئی پیٹرن نہیں ہوتا۔ افراد کی زیادہ بڑی تعداد عمومی حالات کا شکار ہوتی ہے۔ غیر معمولی واقعہ کی توقع میں زندگی کے کسی کام کی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ بے عقلی صرف بچوں کی پیدائش کے معاملے میں  برتی جاتی ہے، باقی ہر معاملے میں یہ عقل نفع نقصان کا پورا حساب درست طریقے سے کرتی ہے۔ جس دھندے میں دس بار نفع اور دس بار نقصان ہوتا ہو یہ وہ بھی نہیں کرتے مگر بچے جن میں سے ننانوے فیصد غربت کی محرومیوں کا شکار ہو کر ہی رہتے ہیں اور کوئی ایک دو اس گھن چکر سے سے نکل پاتے ہیں تو مزید بچے پیدا کرنے کے لیے ان کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم بچے مثال بن سکتے ہیں تو ننانوے فیصد سے زائد  سے سبق کیوں نہیں حاصل کیا جاتا؟

بچے کا پہلا حق یہ ہے کہ اسے دنیا میں لانے سے پہلے اس کے کھانے پینے، کپڑوں، رہائش، علاج معالجہ، تعلیم وتربیت اور اسے مناسب وقت دینے کے وسائل والدین کی استطاعت اور امکانات کے دائرے میں ہوں۔ ایسے ہی جیسے گھر میں کسی مہمان کو لانے سے پہلے آپ اس کی خاطر تواضع کا انتظام کرتے ہیں اور اتنے ہی مہمانوں کا انتظام کرتےہیں جتنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر یہ سب تسلیم نہیں تو اپنی غلطیوں کا الزام قسمت کو نہ دیجئے اور نہ اپنے بچوں پر اپنی غربت کا غصہ نکالیے۔ اور ہاں، اپنے بچوں سے اپنی پرورش کا صلہ نہیں، معافی طلب کیجئے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply