“جب میں 1976 میں ہارورڈ گریجویٹ سکول کے لئے داخل ہوا تو ایک ناتجربہ کار طالبعلم تھا۔ میں نے آئن سٹائن، بوہر، ہائزنبرگ اور شروڈنگر کے بارے میں پڑھا تھا کہ کیسے انہوں نے اپنی انقلابی سوچ سے فزکس تبدیل کر دی تھی۔ باقی نوجوانوں کی طرح، میں بھی ان جیسا بننے کے خواب دیکھتا تھا۔ میں پارٹیکل فزکس کے سنٹر میں تھا اور میں جن کے ساتھ کام کر رہا تھا، وہ اس فیلڈ کے سب سے بڑے نام تھے۔ سڈنی کولمین، شیلڈن گلاشو، سٹیون وائنبرگ۔ یہ انتہائی ذہین تھے لیکن میرے ہیروز جیسے نہیں تھے۔ میں نے انہیں کبھی گہرے سوالات کے بارے میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ سپیس اور وقت کی نیچر کیا ہے۔ کوانٹم مکینکس کے پیچھے کیا ہے۔ نہ ہی میں نے زیادہ طالبعلم دیکھے جو ان سوالات پر توجہ دیتے ہیں۔ اس طرح کے سوالات کرنے کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہ میرے لئے ذاتی زندگی میں بحران کا وقت تھا۔ مجھے اعتماد تھا کہ میں اچھا کام کر سکتا ہوں لیکن فزکس کے بارے میں میرا جو تصور بنا ہوا تھا، وہ کچھ اور تھا۔ یہ جارحانہ ماحول تھا جس میں پراعتماد لوگ تھے جو سب کچھ جانتے تھے۔ جو ان سے اتفاق نہیں کرتا تھا، اس کو طنز کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
پھر میری دوستی نوجوان فلسفی امیلیا ریچل کوہن سے ہو گئی۔ ان کے ذریعے میری ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جن کو گہرے سوالات اور فزکس کے فاونڈیشنل مسائل سے دلچسپی تھی۔ لیکن میرے لئے معاملہ مزید خراب ہو گیا۔ یہ سپشیل ریلیٹیویٹی یا کوانٹم فزکس کے منطقی مسائل کے تجزیے سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ ان کا سائنس کا علم سطحی تھا۔ مجھے جلد احساس ہو گیا کہ کچھ نیا جاننے کا طریقہ یہ والا نہیں اور مجھ میں اتنا صبر نہیں تھا۔ میں تنقید نہیں، کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔
یہ وہ وقت تھا، میں نے فائرابینڈ کی کتاب “اگینسٹ میتھڈ” پڑھی اور اس نے میری سادہ لوحی پر بڑی ضرب لگائی۔ میں نے اس سے جو سیکھا، وہ یہ تھا کہ
“بچے، خوابوں کی دنیا چھوڑو۔ سائنس بادلوں پر بیٹھے کوئی عظیم دانشور نہیں، انسان کرتے ہیں۔ یہ اسی طرح پیچیدہ اور مسائل سے بھرپور ہے جیسے کوئی بھی اور انسانی ایکٹیویٹی۔ اس کا کوئی واحد طریقہ نہیں اور اچھا سائنسدان ہونے کا بھی کوئی خاص معیار یا سانچہ نہیں۔ اچھی سائنس وہ ہے جو کام کر جائے اور تاریخ کے اس خاص موقع پر ہمارے علم کو آگے بڑھا سکے۔ (اور مجھ سے یہ نہ پوچھنا کہ آگے بڑھنا کہتے کس کو ہیں۔ اس کی تعریف خود ہی کر لینا)۔
پروگریس کے لئے کئی بار گہری فلسفانہ سوچ کام آ جاتی ہے، لیکن زیادہ تر یہ کام نہیں کرتی۔ زیادہ تر اس کو آگے بڑھانے میں ایسے موقع شناس لوگ رہے ہیں، جو شارٹ کٹ لے سکتے ہیں اور اپنے کام کو بیان کرنے میں مبالغہ آرائی کرتے رہے ہیں۔ گلیلیو ان میں سے ایک تھے۔ ان کے بھی کئی آرگومنٹ غلط تھے جبکہ ان کے تعلیم یافتہ اور گہری سوچ رکھنے والے مخالفین نے ان کی کمزوریاں تلاش کر لی تھیں۔ لیکن گلیلیو ٹھیک نکلے اور گہری سوچ والے مخالف غلط۔
اور پہلے سے تو کچھ بھی نہیں بتایا جا سکتا کہ کیا چیز ہمیشہ کام کرے گی۔ ایک وقت میں جو طریقہ اور جو مفروضے کام کر جاتے ہیں، اس کے بعد وہی آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ لیکن گلیلیو کی طرح آپ کو اپنے خیالات کے لئے خود لڑنا پڑتا ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ کتاب میرے لئے ایک جھنجھوڑنے والی حقیقت تھی۔ میرے اردگرد کے ذہین لوگ واقعی میرے نوجوانی کے وقت کے بڑے سائنسدان تھے۔ اور یہ کامیاب اس لئے ہوئے تھے کہ ان کے آئیڈیا اپنے وقت میں درپیش چیلنج کا جواب دینے کے لئے درست تھے اور انہوں نے ان کا دفاع کیا تھا۔ ان کے اعتماد اور رویے کی یہ وجہ تھی۔ اور یہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں اپنے وقت کے ان بہترین لوگوں سے سائنس کا ہنر اور شعبے کی تکنیک سیکھ سکتا تھا۔ نیا سوچنے اور کرنے سے پہلے اس فن کی مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جو میرے ہیرو تھے، ان کا طریقہ اپنے وقت میں ایک خاص طرح کے مسئلے میں کام کر گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفی سوال کرتے رہے ہیں کہ “سائنس کیسے کام کرتی ہے؟”۔
یہاں پر دو مخالف نکتہ نظر ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ سائنس باغیوں کی ڈومین ہے۔ ایسا فرد جو بڑے اور اچھوتے آئیڈیا کے ساتھ اٹھتا ہے اور زندگی کی مشقت ان کو ٹھیک ثابت کرنے میں لگاتا ہے۔ یہ گلیلیو کا قصہ ہے اور آج کے زیادہ معزز سائنسدان واقعی ایسا کرتے بھی ہیں۔ ان کی مثالوں میں کمپلیکسیٹی تھیورسٹ سٹورٹ کافمین، ریاضیاتی فزکس کے راجر پینروز، بائیولوجسٹ لن مارگولس جیسے لوگ ہیں۔
دوسرا نکتہ نظر سائنس کو کنزورویٹو فکر کی انٹرپرائز کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں کمیونیٹی کا اتفاقِ رائے اہم ہے۔ کمیونیٹی کے “بزرگوں” کی طرف دیکھا جاتا ہے۔(وٹن اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟) پہلے سے ڈیفائنڈ ریسرچ پروگرام میں تخلیقی توانائی صرف کی جاتی ہے۔ ساتھیوں پر بھروسہ رکھا جاتا ہے اور آرتھوڈوکس سوچ سے ہٹ کر کسی کو گروپ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔
لارج ہیڈرون کولائیڈر میں ایٹلس ڈیٹکٹر پر کام کرنے والا تجرباتی فزسسٹ جو انتہائی کم درجہ حرارت پر مقناطیس کو ریڈی ایشن سے بچانے کا بہت ہی مشکل مسئلہ حل کر رہا ہے، اس کی کامیابی اس مسئلے کو حل کرنے پر ہے، نہ کہ یہ سوال کرنے پر کہ یہ مشین آخر کرتی کیا ہے؟ اور اس کی اپنی کامیابی کا سائنس کے بڑے تناظر میں کیا حصہ ہو گا۔ یہ سوچنے کا کام کسی اور کا ہے۔ اور سائنس کرنے کا یہ والا پہلو بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو کام کیسے چلے گا۔
اس لئے، دونوں نکتہ نظر درست ہیں۔ اور سائنس میں باغی اور کنزرویٹو، دونوں کی ضرورت ہے۔ یہ بات پہلی نظر میں پیراڈوکس لگے۔ صدیوں سے کنزرویٹو اور باغی مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ رہتا ہے کہ کیسے ان دونوں کو عمر بھر کے اس غیرآرام دہ رشتے میں رکھا جائے۔ نہ صرف کمیونیٹی کی سطح پر، بلکہ انفرادی سطح پر بھی۔ تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کامیاب ترین کمیونیٹی وہ ہے جس میں مخالفوں کا اچھا توازن رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لحاظ سے سائنس جمہوری ادارہ ہے کہ ہر سائنسدان کی آواز ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ کہ یہ اکثریت کی حکمرانی نہیں ہے۔ اتفاقِ رائے کا کلیدی کردار ہے جبکہ انفرادی رائے بھی اہم ہے۔ اس لئے یہ انسانوں کی خودمختار کمیونیٹی ہے۔ سائنس کے کناروں پر اچھی سائنس کیا ہے اور بری سائنس کیا؟ اس کا تعلق اکثریتی رائے سے نہیں ہے۔
اتفاقِ رائے سے پہلے اکثر تنازعہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے پتا لگتا ہے کہ سائنس میں کسی چیز کا جواب مل گیا ہے؟ کونسا مکینزم یہ بتاتا ہے کہ معاملہ طے ہو گیا ہے؟
یہ وہ سوال ہے، جو ہمیں ہمیشہ سے پریشان کرتا آیا ہے۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں