• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہلی افغان خاتون اینیمیشن آرٹسٹ ” سارہ بارکزئی “۔۔منصور ندیم

پہلی افغان خاتون اینیمیشن آرٹسٹ ” سارہ بارکزئی “۔۔منصور ندیم

یہ افغانستان کی پہلی ۲۴ سالہ خاتون اینیمیشن آرٹسٹ سارہ بارکزئی کی کہانی ہے جو ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئی، جہاں خواتین اتنی سخت زندگی کا سامنا ضرور کرتی ہیں جتنا شائد ہی کسی اور خطے میں کرتی ہوں، ایسے معاشرے میں اگر کوئی خاتون اپنی زندگی کو اپنے خوابوں سے مکمل کرے اور خصوصاً ایسے رجعت پسند قبائلی ماحول میں ایک خواب کو حقیقت بنائے جو اس معاشرے میں خواتین کے لئے سوچنا بھی مشکل ہو، جہاں گزشتہ دو دن پہلے ہی تین صحافی خواتین کا قتل صرف اسی بنیاد پر ہوا ہے کہ وہ نوکریاں کرتی ہیں۔ پچھلے تین ماہ میں ۱۵۰ سے زائد جاب کرنے والی خواتین اور اہم اداروں کے لوگوں کا قتل مخصوص حلقے کی طرف سے کیا گیا۔

ایسے ماحول میں تبدیلی کا رنگ بھرنے والی سارہ بارکزئی Sara Barackzay، جس کا تعلق افغانستان کے شمالی North-West of the Afghanistan کے صوبے ہرات Province Herat سے ہے۔ سارہ نے اپنی عمر کے چوتھے پانچویں سال سے ہی ڈرائنگ بنانا شروع کردی تھی، مگر ایک بدقسمتی رہی کہ سارہ بارک زئی اپنے بچپن میں ہی قوت سماعت سے محروم ہو گئی تھیں۔ سارہ بارک زئی کے والد اس کے بچپن میں سارہ کو بولنے میں مدد کرتے تھے، لیکن چونکہ سننے کی قوت رکھے بغیر بولنا مشکل تھا۔ تب سارہ کے والد نے اس کے لئے سننے کا آلہ خریدا، یہیں سے سارہ کی زندگی تب بدلنا شروع ہوئی جب سارہ بارکزئی آٹھ سال کی عمر میں سننے کا آلہ استعمال کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے سارہ کے لیے سکول جانا ممکن ہوا۔

مگر بدقسمتی کہ سارہ بارکزئی کے بچپن میں طالبان کے دور حکومت میں سارہ کی فیملی کو ہرات شہر چھوڑ کر ایک گاؤں میں پناہ لینا پڑی تھی۔ جہاں طالبان کے دور میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگ چکی تھی، طالبان کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سارہ بارکزئی نے اپنی تعلیم جاری کی، سارہ بارکزی نے 15 سال کی عمر میں سکول کی تعلیم ختم کی تو پھر ترکی میں اینیمیشن آرٹ پڑھنے کی غرض سے ترکی کے دارلحکومت استنبول کی یونیورسٹی (Design and Architecture of Basakkent University in Istanbul) کے سکالر شپ (Turkish Scholarships Program) کے لیے درخواست جمع کروائی۔ اور وہاں کے Department of Animation and Animation art میں Faculty of Fine Arts میں انہیں اسکالر شپ مل گئی۔

سارہ بارکزئی نے کالج کی تعلیم کے بعد ہی اسکول کی بچوں کے لئے یونیسکو اور یونیسیف کے لئے “United Nations International Children’s Fund’ (UNICEF) and UNESCO ایک Books Project شروع کیا جس کا نام “نسل مسابات” (Generation Positive) جو آج بھی انقرہ اور ترکی کے ان دفاتر میں موجود ہے۔ یہ کارٹون اور کتابیں یونیسکو UNESCO کے تعاون سے دنیا کے ان غریب ممالک کے بچوں تک پہنچی، جہاں غربت و افلاس کی وجہ سے وہ بچے ان تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔

سارہ بارکزئی اپنے افغانستان میں پہلی خاتون اینمشین آرٹسٹ اور ڈیجیٹل ڈیزائنر First animator and digital designer کے طور پر ترکی کی بہت شکر گزار ہیں، ترکی سے اینیمیشن آرٹ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد سارہ اب افغانستان میں نوجوان خواتین کو اینیمیشن سکھاتی ہیں۔ مگر ابتدا میں اسے بہت مذاق کا سامنا کرنا پڑا، کبھی وہاں بجلی اور نیٹ کنکشن کے مسائل سے لے کر لوگوں کو قائل کرنے تک کے مسائل رہے، بالآخر یہ جمود ٹوٹنا شروع ہوا اور اس وقت ۴۰۰ سے زائد طلباء کی ٹیم سارہ بارکزئی کے پاس ہے۔ سارہ بارکزئی اسوقت کئی پروجیکٹس پر کام کررہی ہیں اور اپنی کارٹون سیریز پر بھی کام کر رہی ہیں، اور کئی ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ سارہ بارکزئی کا افغانستان میں یونیورسٹی اور اینیمیشن آرٹ سکول کھولنے کے علاوہ دنیا کے نامور امریکی اینیمیشن سٹوڈیو ’پکسار’ Pixar اور ڈزنی لینڈ Disney کے لیے بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

سارہ بارکزئی اپنے کام کے ذریعے افغان عورتوں کو درپیش مشکلات کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں۔ کیونکہ افغان عورتوں کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے باقیوں سے کئی گنا  زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے، طالبان کے دور میں پیدا ہونے والی سارہ بارکزی کا کام افغانستان میں جنگ، خواتین کے حقوق اور ان حالات میں سارہ کی اپنی مشکلات کی عکاسی کرتا ہے۔ سارہ بارکزئی نے اپنے لیے ہمیشہ بڑے خواب دیکھے، لیکن ان کے لیے لڑنا کبھی آسان نہیں تھا۔ اپنے لیے آزادی حاصل کرنا یقیناً  ایک بڑا چیلنج تھا، اور سارہ بارک زئی کی یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ سارہ بارکزئی اپنے آرٹ کے ذریعے افغانستان کے حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔

سارہ بارکزئی اپنے آرٹ کے ذریعے افغانستان کے بارے میں دنیا کا تاثر بدلنا چاہتی ہیں۔ افغانستان ایک دوہزار سے زائد قدیم تہذیبی اقدار رکھنے والا مہربان لوگوں سے بھرا ہوا ملک ہے، جہاں کا کلچر ، مزیدار کھانوں اور قدیم ثقافت بہت خوبصورت ہے۔ ۲۴ سالہ سارہ بارک زئی جوسننے کی صلاحیت سے محروم تھی، یقینا یہاں تک اپنے والد کی حوصلہ افزائی سے پہنچی اور ایک ایسے معاشرے میں تبدیلی اور آگاہی اور نئے سفر کی امید بن رہی ہے۔ جسے  پوری دنیا جنگوں کی آماجگاہ سمجھتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے لکھا گیا مضمون۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply