پھکّڑ تماشا(A Farce) ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اردو شاعری کی مروجہ اصناف میں ، ڈرامہ کے تحت ، جہاں طربیہ تمثیل کا ذکر آتا ہے، وہاں”پھکڑ تماشا” کا ذکر مفتود ہے۔ یہاں تک کہ ’ریختی‘ کے دور ِ انحطاط میں، یا ’زٹلیؔکے تتبع میں تحریر کردہ شاعری یا چرکیںؔ کے بول و براز سے لتھڑے ہوئے غلیظ کلام کو بروئے کار لا کر بھی اردو میں اس صنف کی طرف کسی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ ہندی میں ’ناٹک‘ کی صنف کے تحت جہاں ـ ’پھکڑ تماشا‘ ملتا ہے، وہاں دیگر لوک ا صناف بھی موجود ہیں جو میلوں ٹھیلوں میں مقامی بولیوں سے عبارت تھیں اور ہندی ادب کی تاریخ میں ان کا ذکر’’ لوک ساہیتہ‘‘ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یورپ کی زبانوں میں (بشمولیت انگریزی)ڈرامے ہمیشہ مقبول رہے ہیں ۔۔۔۔ لیکن جہاں فارسی میں ڈرامہ کا نہ ہونا اردو میں اس صنف کے مفتود ہونے کی ایک وجہ تھی وہاں دوسری یہ تھی کہ اردو کا مغرور شاعر ہمیشہ آس پڑوس کی مقامی لسانی اکائیوں کو اردو سے کمتر سمجھتے ہوئے ان کی طرف توجہ دینے کی بابت سوچنے سے ہی قاصر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوچہ و بازار میں، سڑکوں پہ محو ِ رقص لوگ
سیدھے، ٹیڑھے
پستہ قد، لمبے تڑنگے
مرد و زن
کچھ کانسٹیبل
پیش کار و منشی و عرضی نویس وخوانچے والے
چھابڑی والے، دکانوں کے ملازم
جوتے پہنے
ننگے پاؤں
میلی شلواروں کو
اپنی پتلی ٹانگوں پر سجائے
کوچہ و بازار میں سڑکوں پہ محو رقص لوگ

ناچ میں غلطاں، ٹھہاکے اور بڑھکیں مارتے
گاتے، اچھلتے، صد ہزار و صد ہزار و صد ہزار
ناچتے لوگوں کا اک سیلاب، اک ہڑبونگ، ریلا ۔۔۔۔
آگے بڑھتا، پیچھے ہٹتا، پھر پلٹتا، آگے بڑھتا
مست، مست و مست، مست

کون ہیں یہ لوگ، بھیا؟
شہر میں وارد ہوا مَیں ۔۔۔
اجنبی،خود سے ہی شاید پوچھتا ہوں
کوئی بھی
مجذوب
می رقصم‘‘ قبیلے کا نظر آتا نہیں ہے”
کس سے پوچھوں؟
سب ہی تو ہیں
مست، مست و مست، مست

ایک کبڑا
چلتے چلتے
اپنی نا ہموار سانسوں
کو ذرا معمول پر لانے کو جیسے
رُک گیا، تو ۔۔
میں نے پوچھا
یہ کوئی تقریب یا تہوار ہے،کیا؟”
جشن ، حضرت
کس خوشی میں ہے؟
“کوئی شہزادہ کیا پیدا ہوا ہے؟

ہاں،”، کہا کبڑے نے اپنی”
ڈیڑھ دو ٹانگوں پہ مینڈک سا پھدک کر
ہاں، ہمارے”
نوے سالہ
بادشاہ کے ہاں ولادت کی خوشی ہے
سولہ سالہ اس کی بیوی کے بطن سے
کل ہی اک گل گوتھڑا پیدا ہو ا ہے
تخت کا وارث، ہمارے
شہر کا یہ شاہ زادہ
کل ہمارا
” حکمراں ہو گا

کہا کبڑے نے اور پھر
ڈیڑھ دو ٹانگوں پہ
مینڈک کی طرح اچھلا ۔۔۔۔ تو میں بھی
لا محالہ پوچھ ہی بیٹھا ۔۔۔۔
یہ سارے لوگ آخر”
کس لیے خوش ہیں، کوئی کیا
” اور بھی تقریب ہے، بھائی بتاؤ

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں”، کہا کبڑے نے، “ہم سب کو”
ہمارے بادشہ نے
اک برس کے بعد
روٹی اور کپڑا
” اور مکاں دینے کی گارنٹی بھی دی ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply