چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط9)۔۔فاخرہ نورین

زرعی معاشرے کی عورت تو عورت کی طاقت کی علامت تھی ۔ زرخیزی اور خوراک پیدا کرکے ذخیرہ کرنے والی اور سلیقے کا دوسرا نام تھی ۔
میں کیسے بھول سکتی ہوں جب رینجرز پبلک سکول اینڈ کالج کے سٹاف روم میں وزٹ کرنے والے ایک اعلیٰ عہدیدار نے راڈ سے ہک نکل جانے کے سبب، لٹکتے پردے کی بدنمائی پر صرف ایک جملے میں اعتراض اور حل پیش کیا تھا ۔
اوہ، میں غلطی سے شاید میل سٹاف روم میں آ گیا ہوں لیڈیز کی جمالیات لٹکے پردے کہاں گوارا کر سکتی تھی ۔
ہم سرخی پوڈر لپی استانیوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا ۔
لپک کر ایک نے کرسی اٹھا کر رکھی دوسری نے راڈ میں ہک لگا کر پردہ برابر کر دیا ۔
وزٹ کے بعد کتنی ہی دیر ہم شرمسار رہے اور بطور خاتون اپنے سلیقے اور جمالیات کے عدم مظاہرے پر پشیمان بھی ہوئے۔
عورت حسن اور تناسب دونوں کو سمجھتی ہے اور تھوڑے کو بہت بنانے کا فن اور کشٹ اسی کو روا ہے ۔ مرد بیچارا کہاں یہ فن اور کشٹ سمجھ سکتا ہے ۔
بہت حد تک طرز معیشت اور معاشرت طے کرتے ہیں رعورت اور مرد کو کیا مقام اور حقوق و فرائض دیے جائیں گے ۔زرعی معاشرے کی عورت طاقتور اور اسرار بھری گنی عورت ہے، قبائلی معاشرے
میں وہ ایک ملکیتی چیز اور صنعتی معاشرے میں محض ایک کل پرزہ جو چند دن کی حیاتیاتی مجبوری کے سبب کم پیسوں پر گزارا کرے گی ۔عورت کی حیثیت کا تعین صحائف بھی کرتے ہیں اور وہ مردانہ وار متون سمجھے جانے کے سبب عورت کو کمتر اور دوسرے درجے کی مخلوق یعنی سیکنڈ صنف قرار دیتے ہیں ۔ کیا یہ جنرلائزیشن یعنی تعمیم اس قدر آسان ہے؟
مرد کی حیثیت کے لئے کوئی میزان یا ترازو ہاتھ میں پکڑنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی بس ہاتھ میں پکڑنے کے لئے کچھ ہو تو اتنی قابلیت کافی ہے اور آپ کے حقوق اور حیثیت کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ یہ قابلیت اپنے حجم میں چند انچ سے زیادہ نہیں لیکن اس واحد عضو کا فعال ہونا بھی ڈیمانڈ میں نہیں، صرف ہونا کافی ہے ۔اس کی فعالیت پر سوال اٹھانے یا اعتراض کرنے والی کو اس کے ہم جنس ہی کھا جائیں گے۔ اتنی مختصر کوالیفیکیشن جس کے حصول میں آپ کا کوئی کردار نہیں، آپ کو برتری کا جائز ترین حقدار بنا دیتا ہے ۔ دوسری طرف صرف جسمانی اعضاء کافی نہیں، ان کے لئے بھی پیمانے اور پیمائشیں، سانچے اور کھانچے موجود ہیں ۔ آپ کے تقاضوں کی کوئی حد ہے کہ نہیں ۔ عورت تقاضا تو کیا تبصرہ، سوال، اظہار، پیش کش کچھ بھی تو کرنے کی مجاز نہیں ۔
وجہ؟ وجہ وہی تعمیم اور بھیڑچال۔ ہر مرد فرد ہے اور ہر عورت بھی منفرد ۔ یہ فیکٹری سے ایک سانچے میں فارمولا ون کے تحت بن تو جاتے ہیں، پلتے نہیں ۔ پھر آپ نے ان کو ریس میں شامل کیے بغیر ہار جیت کے فیصلے ایڈوانس میں کر لیے۔ تیسری صنف کے لئے تو آپ نے دل، دماغ اور معاشرہ کہیں بھی کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں ۔
سماجی انصاف کیجیے، مواقع بھرپور اور برابر دیجیے پھر جس جس دیے میں جان ہے اسے قبول کیجیے ۔جس میں نہیں ہے اس کے لئے قافیه تنگ کرنے والے آپ کون؟
میرے تجربے اور مشاہدے میں پنجاب کے قصبات اور گاؤں زیادہ ہیں سو وہاں طبقات اور ان کی تاریخ کے حوالے سے ہی عورت کا مقام متعین ہے۔
ہماری عورتوں کے پاس سب کچھ تھا صرف رسمی تعلیم کی کمی تھی، اب رسمی تعلیم آنے لگی ہے اور باقی کچھ بھی نہیں ۔
تربیت اور تعلیم دونوں کو الگ الگ خانوں بانٹ دینے سے صرف اتنا ہوا ہے کہ باہر کا گند گھروں میں اور ذہنوں کا گند معاشرے میں ڈھگو ڈھگ بڑھ رہا ہے ۔
اگر ناخواندہ گدھوں کی طرح زندگی کا بوجھ اٹھا رہے ہیں تو تعلیم یافتہ بھی صرف ڈگری یا بستے کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ۔
ہم سب نے زندگی کو دوسروں کے لئے ایک سموک سکرین بنا دیا ہے ۔ نہیں یقین تو سماجی تقریبات میں دیکھ لیں ۔ سارا زور کپڑے جوتے میک اپ اور جیولری پر ہے ۔ کوئی سادہ دل یہ نہ کہے کہ بے چاری عورتوں کو کیا پتہ ۔میں نے ایسی ایسی عورتوں کو برینڈڈ لباس پر گفتگو کرتے پایا ہے کہ دل جل گیا ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply