ہم ایک آدم خور معاشرہ ہیں۔۔چوہدری محمد عامر عباس

امریکہ سے حال ہی میں پی ایچ ڈی کیمسٹری کرکے وطن واپس آنے والے نوجوان پروفیسر ڈاکٹر آفتاب گلے پر ڈور پھرنے سے جاں بحق ہو گئے۔ پاکستان کے ایک بڑے روزنامہ کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی یہ تین کالمی خبر چیخ چیخ کر ہماری سماجی بےحسی، معاشرتی سنگدلی اور انتظامی نااہلی کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔ ہائے افسوس پاکستان کی انتہائی قیمتی جان ہماری ہی قوم کے انتہائی گھٹیا شوق کی بھینت چڑھ گئی۔

افسوس صد افسوس کہ آخر ہم کب تک ایسی لاشیں روز اٹھاتے رہیں گے۔ ڈاکٹر آفتاب میرے آبائی علاقے کے ہونہار سپوت تھے۔ کل میں فاتحہ کیلئے انکے گھر گیا تو بےبس، مجبور اور لاچار باپ کو دیکھ کر میرے سینے میں گھونسا لگا، آنکھیں تر ہو گئیں، زبان الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ باپ نے محدود وسائل کے باوجود سخت محنت مزدوری کرکے پائی پائی اکٹھی کی اور بیٹے کو پڑھایا۔ بیٹے کی خواہش پر لاہور کے سب سے بڑے گورنمنٹ کالج میں بھیجا، بعدازاں پنجاب یونیورسٹی پڑھایا۔ والد بہت پرجوش تھے کہ میرا بیٹا کوئی بڑا کام کرکے دنیا میں اپنا نام پیدا کرے پاکستان کا نام روشن کرے جس کیلئے میں ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔ فرمانبردار بیٹا کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ اس نے باپ کے مان کی پاسداری کرتے ہوئے خوب محنت کی اور کیمسٹری جیسے مشکل اور خشک ترین مضمون کو اپنے کیرئیر کے طور پر چنا تھا۔

بالآخر وہ دن بھی آیا جب لاکھوں طلباء میں سے آفتاب کو امریکہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کیمسٹری کیلئے سکالرشپ آفر کیا۔ پاک بھارت بارڈر پر واقعہ انتہائی پسماندہ دور افتادہ گاؤں کنگن پور کا پینڈو آفتاب امریکہ میں بھی سخت محنت کرتے ہوئے چند ہی ماہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسرز کی آنکھوں کا تارا بن گیا اور پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ مختلف سیمینارز میں بطور گیسٹ سپیکر بلایا جانے لگا اور مایہ ناز امریکی پروفیسرز سائنسدان کم عمر آفتاب کے ان تحقیقی مقالہ جات کو سنتے وقت انگشت بدنداں رہ جاتے اور خوب سراہتے۔ نوجوان آفتاب کے تحقیقی مقالہ جات آج بھی امریکی گریجوایٹ طلبہ کو پڑھائے جاتے ہیں۔ آفتاب کا بھائی ہمارا دوست جاوید بہت فخر سے ہمیں بتایا کرتا، کیوں نہ بتاتا بھئی یہ بات ہی ایسی تھی کہ سن کر ہمیں بھی فخر محسوس ہوتا کہ ہمارے پسماندہ گاؤں کی بنجر دھرتی سے بھی ایک انمول ہیرا پیدا ہوا جس نے اتنی کم عمری میں کنگن پور کا نام پوری دنیا میں روشن کر دیا۔

گزشتہ برس محمد آفتاب دنیا کی ٹاپ یونیورسٹی کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے امتیازی پوزیشن کیساتھ پی ایچ ڈی کیمسٹری کرکے ڈاکٹر محمد آفتاب احمد بن کر وطن واپس لوٹے۔ کنگن پور نے والہانہ استقبال کیا۔ آجکل دیال سنگھ کالج لاہور میں کیمسٹری پڑھا رہے تھے۔ دو روز قبل کالج جاتے ہوئے قاتل ڈور نے یہ ہیرے سے بڑھ کر انمول شخص ہم سے چھین لیا۔ ڈاکٹر آفتاب کی لاش کنگن پور پہنچتے ہی پورا قصبہ اپنے سپوت کے آخری دیدار کیلئے امڈ آیا۔ موت کی خبر گویا پورے قصبہ پر غم کا پہاڑ بن کر ٹوٹی۔ ہیرے جیسے انمول بیٹے کے اچانک انتقال کی خبر سن کر بوڑھے والدین کی کیا حالت ہوئی ہو گی میرے قلم میں اتنی سکت نہیں کہ بیان کر سکوں۔ بڑے بھائی جاوید پر سکتہ طاری ہو گیا۔ گھر کے اندر صف ماتم بچھ چکی تھی۔ نوجوان بیٹے کی لاش دیکھ کر بدنصیب ماں کا کلیجہ غم سے پھٹ نہ گیا ہو گا۔ آفتاب کی بہنیں جو چند دنوں بعد آفتاب کے سر پر سہرا سجانے کیلئے بےتاب تھیں انکے یہ سپنے یکلخت کرچیاں بن چکے تھے اور وہ داڑھیں مار مار کر اپنے نوجوان دولہے بھائی کی چارپائی کے پاس بیٹھ کر رو رہی تھیں۔ پورا کنگن پور قصبہ سوگوار تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر گھر میں ڈاکٹر آفتاب کی ناگہانی موت کا موضوع ہی زیرِ بحث ہے۔

ڈاکٹر محمد آفتاب کنگن پور دھرتی کا ہونہار سپوت تھا کہ ایسے ہونہار لوگ لاکھوں میں سے ایک ہوتے ہیں اور صدیوں بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کے شعر کے مصداق کنگن پور ہی وہ نرگس ہے جو ہزاروں سال اپنی بےنوری پر روتی رہی ہے۔ پھر بالآخر بڑی مشکل سے ڈاکٹر آفتاب جیسے قابل ترین شخص کی صورت میں اس چمن کے اندر دیدہ ور پیدا ہوا لیکن ہماری بےحسی نے اسے گہنا دیا۔ اب اس قیمتی جان کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے۔ اس جاہل، بےحس، گونگے، بہرے معاشرے کو کیا معلوم کہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر کتنی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب کی لاش چیخ چیخ کر اس بےحس معاشرے سے سوال کر رہی ہے کہ آخر میرا قصور کیا تھا جو مجھے تمہارے جان لیوا شوق کی بھینت چڑھا دیا گیا؟

ملکی قانون ساز اداروں سے سوال کر رہی ہے کہ اس جان لیوا تفریح پر پابندی کیلئے مؤثر قانون سازی کیوں نہیں کی جا سکی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ملکی انتظامیہ سے سوال کر رہی ہے کہ آخر کونسا امر مانع ہے کہ اس پتنگ بازی جیسی جان لیوا تفریح پر پابندی پر عملدرآمد کروانے سے قاصر ہے اور کب تک آفتاب ناحق ذبح ہوتے رہیں گے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply