شب قدر کا فلسفہ:قران و سنت کی روشنی میں۔۔۔۔زاہد احمد ڈار

مل رہا ہے جو عبادت کا ثمر، آج کی رات

لے کر آئی ہے دعاؤں میں اثر،آج کی رات

ہر گھڑی بخشش عصیاں کی خبر دیتی ہے

کس بلندی پہ ہے تقدیر بشر، آج کی رات

معزز قارئین ! اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ بے پناہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہیں کہ وہ ہمیں اپنے گناہوں کی معافی کے لئے وقتا فوقتا کثیر تعداد میں مواقع فراہم کرتا ہے۔ رمضان انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت کا مظہر ہے کہ جس میں بندہ ندامت کے ساتھہ معبود حقیقی کے دربار میں سربسجود ہوکر اپنے گناہوں سے معافی کی درخواست کرتا ہے۔ اسی رمضان میں اللہ نے ایک ایسی رات بھی ہمیں عطا فرمائی ہیں جو ہزاروں مہینوں سے افضل اور بہتر ہے۔ جو شب قدر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رات  کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پانے کے لئے اپنی امت کو ترغیب دی۔

شب قدر  کے لفظ”قدر” کو علماء نے دو معنی بیان کیے ہیں : ایک یہ کہ قدر کے معنی وہ رات کہ جس میں تقدیروں  کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس  رات  میں افراد، قوموں اور ملکوں کی  قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس رات میں کتاب اللہ کا نزول محض نزول نہیں بلکہ یہ وہ کام ہے جو پوری دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔(تفہیم القرآن ، جلد ششم :سورہ القدر:۱۔۵)۔ اس کی تائید قران کی آیت  “اس رات ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے “کرتی ہے  (سورہ دخان،۴۴:۵)۔دوسرےمعنی یہ کہ شب قدر بڑی قدر و منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے  جس کی تائیدقرآن کی آیت    “یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے ”   کرتی ہے۔ (سورہ قدر،۹۷:۳)۔

 ایک مکمل  مکی سورہ  سورة القدر اس رات کی اور اس میں نازل کردئے جانے والے کلام اللہ کی قدرو قیمت اور اہمیت واضح کردیتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد سے مرسلا روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر فرمایا جس نے ہزار مہینوں تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہ سن کرصحابہ کو اس شخص پر بڑا ہی رشک آیا اور انھوں نے تمنائیں کیں کہ کاش ہمارے نصیب میں بھی عمر دراز ہو تو ہم بھی اللہ کی عبادت میں اپنی جان گنوائیں گے۔ یہی وہ وقت تھا کہ سورہ القدر نازل ہوئی۔ ( تفسیر الخازن ،۴:۳۹۷)۔ابن جریر نے بھی مجاہد سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد شخص کا ذکر فرمایا جو رات کو اللہ کی عبادت  کرتا تھا اور دن کو ایک  روایت کے مطابق روزہ رکھتا تھا اور،دوسری روایت کے مطابق اللہ کی راہ میں جدوجہد اور کوشش کرتا تھا۔ یہ سن کرصحابہ کو اس شخص پر بڑا ہی تعجب ہوا   اور انھوں نے آرزوئیں کیں کہ کاش ہمیں بھی  اتنا موقعہ مل جاتا کہ ہم بھی اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اپنا دن رات کھپا دیتے۔ یہی وہ وقت تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر سورہ القدر نازل ہوئی۔ (تفسیر مظہری)۔ اسی طرح کی ایک اور روایت کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف پیغمبروں (حضرت  ایوب علیہ السلام،حضرت زکریا  علیہ السلام،حضرت یوشع علیہ السلام )کے بارے میں تذکرہ کیا جنھوں نے اسی اسی سال اللہ کی عبادت  میں صرف کرکے ایک لمحہ کے لئے بھی اسکی نافرمانی نہیں کیں۔ سب نے کم عمری کو عبادت کم کرنے کا ذمہ دار مانا اور سب نے اپنی عمر درازی کے لئے اللہ سے دعا کی تو اللہ نےبذریعہ جبرئیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر  سورہ القدر نازل  فرمائی۔ (  تفسیر القرطبی،۲۰/۱۳۲)۔

اس سورہ مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کو تسکین قلب  ملا اور وہ خوشی و مسرت سے جھوم اٹھے۔ أمام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ لیلةالقدر اللہ کی طرف سے امت کے لئے ایک تحفہ ہے جو امت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو خاص ہونے کی دلالت کرتا ہے۔(الدر المنثور ،۶:۳۷۱)۔ یہ رات تحفہ اس لئے تھی کہ اس رات  قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحب قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں لفظ “قدر”  تین مرتبہ آیا ہے۔ (تفسیر کبیر،۳۲:۲۸)۔  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کہ جو شخص اس رات کو ایمان اور احتساب کے ساتھہ قیام کرے گا تو  اس کے سابقہ گناہ کردئیے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)۔

شب قدر کے تعین کے بارے میں قریباً پچاس اقوال  موجود ہیں جن میں کچھ روایات  شب قدر کا رمضان کی ستائیسویں شب میں ہونے کے حق میں ہیں۔ سورہ قدر ،کہ جس میں شب قدر کا ذکر کیا گیا ،میں رمضان کے تیس روزوں کی طرح کل ۳۰ الفاظ ہیں اور  شب قدر  کی طرف اشارہ لفظ “ھی” سے کیا گیا جو کہ ستائیسواں لفظ ہے۔ (تفسیر قرطبی،۳۲:۳۰/تفسیرالقرطبی،۱:۱۳۶)۔ اسی طرح فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شب قدر کے تعین کے بارے میں عرض کیا تو  ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کو طاق عدد پسند ہے اور اس میں بھی سات کے عد د کو ترجیح دیتا ہے۔ اپنی کائنات کی تخلیق میں اس نے سات کے عدد کو نمایاں ہے ،مثلا سات آسمان، سات زمین،سات چکر طواف کے،ہفتہ کے سات دن،وغیرہ۔(تفسیر کبیر،۳۲:۳۰)۔

جبکہ علماء کی بڑی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں طاق رات ہے۔۔۔(مسند احمد)۔ اعتکاف کا مقصد بھی شب قدر کی تلاش ہی ہے۔ جو صرف رمضان کی ستائیسویں شب کو ہی نہیں بلکہ رمضان کی آخری دس راتوں کو کیا جاتا ہے۔

شب قدر کا تعین نہ کرنے کے مختلف وجوہات ہیں : ایک یہ کہ اس رات کا تعین دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے اٹھا لیا گیا۔ (صحیح بخاری)۔ دوسرے یہ کہ اللہ کو اپنے بندوں کا رات میں صرف اسی کی رضا جوئی کے لئے بیدار رہنا بہت پسند ہے۔ تیسرے یہ کہ عمل کی راہ مسدود نہ ہو اور  لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور صرف ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔ چوتھے یہ کہ اس رات کا متعین نہ ہونا گنہگاروں کے لئے شفقت ہے  اور پانچواں یہ کہ اس رات کے چھوٹ جانے سے ایک بندہ پورے سال پچھتاوے کا شکار نہ ہو۔ (تفسیر کبیر ،۳۲:۲۸)۔

 مختصر یوں کہ اگر کوئی بندہ ان طاق راتوں میں قیام فرمایا گا تو اسے لازمی طور سے نفلی اعتکاف،تہجد کی نماز ، قرآن مجید کی تلاوت  اور وہ دعا کہ جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سکھائی : اللھم انك عفو،تحب العفو ، فاعف عني۔ ” اے میرے مالک! آپ معاف فرمانے والے اور معافی کو پسند فرماتے ہیں ،پس مجھے بھی معاف فرما۔ آمین (مسند احمد،۶:۱۷۱،۱۸۲)۔اللہ سے دعا ہے کہ

حشر تک نام و نشاں تک نہ ہو،تاریکی کا

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش! ایسی بھی کوئی لائے سحر،آج کی رات!

Facebook Comments

ڈاکٹر زاہد احمد ڈار
سرینگر، جموں و کشمیر، انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply