نیلمانہ(قسط4)۔۔ادریس آزاد

کچھ نہ ہوسکا۔ وہ کچھ بھی تو نہ کرسکی۔ وہ اب ایک کمزور تتلی تھی۔ وہ اب ایک طاقتور انسان نہیں تھی۔ دِن پر دِن گزرتے چلے گئے۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ اُس کی زندگی مختلف سے مختلف ہوتی چلی گئی۔ اب تو کبھی کبھار اسے یوں لگتا جیسے وہ کبھی ماریہ تھی ہی نہیں۔ وہ ہمیشہ سے نیلمانہ تھی۔ایک نیلی تتلی جو کسی پورماشانی کی نیند کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ اس کی تمام انسانی یاداشتیں فقط جھوٹے خواب تھیں۔ لیکن اپنے ایسے خیالات پر اُسے کبھی دل سے یقین نہیں آیا تھا۔البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی انسانی یاداشتیں دھندلانے لگی تھیں۔ اُس پرتتلی کا وِژن غالب آتاجارہاتھا ۔

غم کے ہوں یا خوشی کے دن، وقت بالآخر گزر ہی جاتاہے۔ آج ماریہ کو تتلیوں کی دنیا میں آئے ہوئے نوسودن گزرچکےتھے۔اس دوران اس کی ننھی سی زندگی کے ساتھ کیا کچھ بیت گیا، وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔پرنس فائینی سے محبت کرنے کے جرم میں نیلی سمیارگس تتلیوں نے اسے اپنے خاندان سے نکال دیا تھا۔شاؤزان نے نیلمانہ کی بیوفائی کے غم میں کھانا پینا چھوڑدیاتھا اور اب وہ اتنا بیمار تھا کہ بستر مرگ پر پہنچ چکاتھا۔ماریہ گزشتہ دوسودنوں سے پرنس فائینی کے ساتھ رہ رہی تھی۔پرنس فائینی کے خاندان نے نیلمانہ کو بڑی مشکل سے قبول کیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ماریہ سیانی ہوتی گئی۔ اب وہ کسی کو اپنے انسان ہونے کی کہانی نہ سنایا کرتی تھی۔ دنیا میں صرف دو ہی لوگ تھے جنہیں ماریہ کی اصل کہانی معلوم تھی ۔ ایک ماریہ کا محبوب پرنس فائینی اور دوسرا ’’بزرگ وید موروان بابا‘‘۔ اب ماریہ ہرکسی سے اپنی درد ناک داستان چھپاتی تھی۔کیونکہ سب لوگ اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔ بعض نک چرھی لڑکیاں تو اس سے باقاعدہ نفرت کرتی تھی۔اس جادوگرنی کہتی تھی اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اُن کے اِس رویّے نے ماریہ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا شروع کردیاتو ماریہ سب سے الگ تھلگ رہنے لگی۔

نوسودنوں کا مطلب تھا کہ ماریہ نے تتلیوں کی دنیا کے تین مکمل سال گزار دیے تھے۔تین سال! خدا کی پناہ! کہنا آسان تھا۔ وہ اکثر حیران ہوتی کہ وقت کتنی تیزی سے گزرگیا۔اس دوران اس نے ایک بار بھی اپنے بابا کو نہ دیکھا۔حالانکہ ہرنئے دن کے آغاز پہ وہ اس اُمید کے ساتھ جاگتی کہ آج بابا باغیچے میں آئینگے اور وہ اپنے بابا کو دیکھے گی۔

جب سے وہ پرنس فائینی کے ساتھ رہنے لگی تھی، اُسے یہ اُمید بھی بندھ گئی تھی کہ ایک نہ ایک دن اُس کا پرنس اُسے دُور آسمانوں کے دروازے والی عظیم عمارت میں ضرور لے جائیگا۔ پرنس فائینی نے بھی ماریہ کے ساتھ وعدہ کررکھاتھا کہ جب اُن کی شادی ہوجائے گی تو وہ ہنی مون کے لیے وہیں جائینگے۔ پرنس نے اپنا ہنی مون کا منصوبہ اپنے خاندان والوں سے چھپا رکھاتھا۔

اور پھر وہ دن بھی آگیا جب پرنس اور ماریہ کی شادی ہورہی تھی۔پرنس کا خاندان موتیے کے پھولوں میں رہتاتھا۔ آج موتیے کی پوری کیاری پر بہار آئی ہوئی تھی۔ہرخاندان کی نوجوان تتلیاں پوری طرح تیار ہوکر آئی تھیں۔ ماریہ نے بھی حسبِ معمول شبنم کے ساتھ غسل کیا۔اڑوس پڑوس کی لڑکیاں بالیاں اُس کا بناؤ سنگھار کرنے آپہنچیں۔ ان لڑکیوں میں پرنس کی لاڈلی بہنیں بھی تھیں جو اپنی بھابھی کو دیکھ دیکھ کر اُس کی بلائیں لے رہی تھیں۔ سارا خاندان مخالف تھا لیکن اِن لڑکیوں نے اس نیلی تتلی کو دِل سے قبول کرلیاتھا۔ ماریہ نے بھی اُن کا دل جیتنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ انہیں کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ آسمانوں کی کہانیاں۔جہاں بڑے بڑے جنّاتی پیڑ رہتے تھے جو چلتے پھرتے تھے اور جو اپنے سے بھی بڑے جانوروں کو کھاجاتے تھے۔ماریہ انہیں یہ نہ بتاتی تھی کہ وہ بھی کبھی ان جنّات میں سے ایک تھی۔ بس وہ انہیں کہانیاں سناتی اور پرنس کی بہن خوشی سے پھولے نہ سماتیں۔ ایسی باتیں انہوں نے کبھی بھی نہ سنی تھیں۔ ماریہ نے پرنس کے خاندان کے بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی سنبھال لی تھی۔ گزشتہ دوسودِنوں میں اس نے کئی بچوں کو ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک بہت سی ضروری چیزیں پڑھائی تھیں۔ تدریس کی وجہ سے اب باغیچے کی باقی تتلیاں بھی اپنے بچوں کو ماریہ کے پاس پڑھنے کے لیے بھیج دیا کرتی تھیں۔

آج ماریہ کی شادی تھی۔ پرنس بے پناہ خوش تھا۔ ماریہ بھی خوش تھی۔ آخر اس نے اپنی تقدیر کو قبول کرلیاتھا۔ کسی کسی وقت اس کے دل سے ایک ہُوک سے اُٹھتی اور وہ ایک لمبی ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتی۔پرنس کی بہنوں اور دیگر تتلیوں نے جب اُسے اچھی طرح سے دلہن بنادیا اور دلہن کے کمرے سے باہر لے کر آئیں تو دیکھنے والی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنی حسین اور ایسی جوان تتلی انہوں نے آج تک نہ دیکھی تھی۔ماریہ بھی مسکرا رہی تھی۔ پرنس کی ماں نے آگے بڑھ کر ماریہ کو گلے سے لگالیا۔علاقے کی ساری بڑی بوڑھی تتلیاں بھی آج پرنس کے گھر مہمان تھیں۔ ہرطرف تتلیاں ہی تتلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ نوعمر تتلے لڑکیوں کے پیچھے اُڑے اُڑے پھرتے تھے۔ کھنکتے ہوئے قہقہے۔ نیکٹر کے لُٹتے ہوئے جام اور لڑکیوں بالیوں کے پھولوں کی پتیوں کی تھاپ پر شادی بیاہ کے گانے۔

معاً سارے پنڈال میں سنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔یکلخت خاموشی چھاگئی۔ گانے بند ہوگئے اور ہرایک سانس روک کر اپنی اپنی جگہ ٹھٹھک گیا۔ ماریہ کو پہلے پہل تو کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا ہورہاہے لیکن پھر اس نے محسوس کیا کہ سب لوگ ایک ہی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ماریہ نے بھی جھٹ سے اُسی جانب دیکھا۔ اور وہ کیا دیکھتی ہے کہ اس کے بابا بہت ہی دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے باغیچے میں آرہے تھے۔تتلیوں کی دنیا کے نوسو دِنوں میں پہلی بار۔ اتنے طویل انتظار کے بعد آخر آج اُس کے بابا باغیچے کی طرف آرہے تھے۔ماریہ کا دل مارے خوشی کے اچھل کر حلق میں آگیا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا کرے؟ خوشی کا اظہارکرے یا رونے لگ جائے۔لیکن وہ اپنے آنسو نہ روک پائی۔ آج کتنی مدت بعد وہ اپنے بابا کو دیکھنے والی تھی۔پرنس فائینی اپنی ہونے والی بیوی کی کیفیت دور سے ہی بھانپ گیا۔وہ اپنے جگہ سے اُڑا اور ماریہ کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنا دایاں پَرہولے سے ماریہ کے پر کے ساتھ مَس کیا۔ جیسے اُسے حوصلہ دے رہاہو کہ ’گھبراؤ مت! میں ہوں نا‘۔ماریہ نے ایک نظر پرنس کی طرف دیکھا اور آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ دھیمی آواز میں فقط ایک لفظ کہا،

’’میرے بابا‘‘

********

پروفیسر اب نزدیک آچکا تھا۔ وہ سیدھا اسی طرف آرہاتھا۔ آج اتنی زیادہ تتلیاں ایک ساتھ، باغیچے کے اِس حصے میں کیوں جمع تھیں؟ شاید اسی بات کی تحقیق کے لیے پروفیسر نے آج باغیچے میں آنا گوارا کیا ہوگا۔ کیونکہ جب سے اس کی بیٹی ماریہ کومے میں گئی تھی پروفیسر کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ وہ سارا سارا دن ہسپتال میں اپنی بیٹی کے سرہانے بیٹھا رہتا۔ آج تین دن بعد پروفیسر کا بڑا بیٹا باپ کو زبردستی گھر لے آیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتادیا تھا کہ ماریہ لمبے کومے میں چلی گئی ہے اور یہ کہ اس کی واپسی کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بیٹا پروفیسر کو گھر لے آیا کہ پروفیسر کی حالت خاصی خراب تھی۔ اس نے تین دن سے نہ کچھ کھایا پیا تھا اور نہ ہی نہایادھویاتھا۔پروفیسر گھر آیا تو سب سے پہلے اپنی لیبارٹری میں گیا۔ لیکن شیشے والی کھڑکی کے پاس پہنچ کر اُسے احساس ہوا کہ باغیچے میں کوئی غیر معمولی سرگرمی جارہی ہے۔باغیچے کی زیادہ تر تتلیاں صرف موتیے کی کیاری پر ہی منڈلا رہی تھیں۔ پروفیسر کچھ دیر تک شیشے کے پیچھے کھڑا تتلیوں کے رنگارنگ جھنڈ کو کسی قدر بے دلی سے دیکھتارہا پھر اس سے نہ رہا گیا اور وہ باغیچے کی طرف چل دیا۔

موتیے کے پھولوں کی کیاری کے پاس پہنچ کر پروفیسر رک گیا۔ اب وہ تتلیوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہا تھا۔ معاً ایک نیلی سمیارگس اُڑتی ہوئی ہوئی پروفیسر کی طرف آنے لگی۔نیلی سمیارگس کو دیکھتے ہی پروفیسر کو ماریہ کے برین ہمبرج والا دِن یاد آگیا۔ اس دن انہی نیلی سمیارگس تتلیوں کو دیکھنے کے لیے ہی تو ماریہ باغیچے کی طرف دوڑی تھی۔پروفیسرکے دِل میں نیلی تتلی کے لیے نفرت سی پیدا ہوئی۔اس نے اپنی طرف آتی ہوئی نیلی سمیارگس کو نظر انداز کردیا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک ایسا نہ کرسکا۔ نیلی سمیارگس نے پروفیسر کی توجہ خودبخود ہی اپنی طرف مبذول کرلی۔ جب وہ اُڑتی ہوئی آئی اور سیدھی پروفیسر کےپاس آکر پھڑپھڑانے لگی۔ پروفیسر نے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو نیلی سمیارگس پروفیسر کی ہتھیلی پر آبیٹھی۔

پروفیسر کے لیے یہ ایک اچھنبے کی بات تھی۔ یوں تو تتلیاں ہزاروں بار اس کی ہتھیلیوں پر بیٹھتی تھیں لیکن اِس نیلی سمیارگس کے بیٹھنے کا انداز ہی کچھ اور تھا۔ تتلی پہلے ہتھیلی پر اُتری اور پھر اُس نے اپنا رخ پروفیسر کے چہرے کی طرف موڑ لیا۔پروفیسر کو یوں لگا جیسے تتلی اسے دیکھ رہی ہو۔یہی وجہ تھی کہ وہ حیران ہورہاتھا۔معاً اُسے ماریہ کا دیا ہوا نام یاد آگیا جو ماریہ نے اِن نیلی تتلیوں کو دیا تھا۔اس نے خودکلامی کے سے انداز میں پکارا،

’’لُوسی!‘‘

چند ثانیے بعدنیلی تتلی پروفیسر کی ہتھیلی پر پھڑپھڑائی۔پروفیسر کو سب کچھ نارمل لگا لیکن نہ جانے کیوں اس نے پھر پکارا،

’’لوسی!‘‘

اُتنے ہی وقفے بعد لُوسی پروفیسر کی ہتھیلی پر دوبارہ پھڑپھڑائی۔اب تو لُوسی نے سچ مچ پروفیسر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ بار بار اُسے نام سے پکارتا اور ایک مخصوص وقفے کے بعد نیلی تتلی پروفیسر کی ہتھیلی پر پھڑپھڑاتی۔ پروفیسر حد سے زیادہ حیران ہورہاتھا۔ اسے وقتی طور پر اپنی بیٹی کی بیماری بھول گئی۔اس نے جانے کتنی بار لُوسی کو لُوسی کہہ کر پکارا اور ہر بار اُتنے ہی وقفے کے بعد لُوسی نے اس کی ہتھیلی پر اپنے پر پھڑپھڑائے۔یہاں تک کہ پروفیسر کو پیچھے سے بیٹے نے آواز دی اوراس کے خیالات کا تانتا ٹوٹ گیا۔ اس نے لُوسی کو آہستگی سے موتیے کے ایک پھول پر اُتارا اور بے دلی سے برآمدے کی طرف بڑھنے کے لیے مڑا۔ واپسی پر پروفیسر کی نظر اُس عدسے پرپڑی جو ماریہ کے ہاتھ سے بے ہوش ہوتے وقت گرگیاتھا۔ پروفیسر کی آنکھوں سے یکایک آنسو اُمڈنے لگے۔ اُس نے جھک کر عدسہ اُٹھایا اور ڈھیلے قدموں سے گھر کی طرف چل دیا۔

******

’’جب تم اپنے بابا کو پکار رہی تھیں تو کیا تمہارے بابا نے تمہاری آواز سنی تھی انّا؟‘‘

یہ لوسی کے سب سے چھوٹے پوتے کی آواز تھی۔

’’نہیں سارنگ بیٹا! میں چلّا چلّا کر اپنے بابا کو پکارتی رہی لیکن انہوں نے میری آواز نہ سنی‘‘

’’لیکن تم نے تو اپنے بابا کی آواز سنی تھی نا انّا؟‘‘

’’ہاں! وہ لُوسی لُوسی پکار رہے تھے۔ لیکن اُن کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ بہت سُستی سے آتی ہوئی آواز جیسے ان کے بولنے کی رفتار پتوں کے ہلنے کی رفتار سے بھی آہستہ ہو۔ میں بڑی مشکل سے سمجھ پائی کہ وہ کیا کہہ رہے تھے‘‘

سارنگ ہررات اپنی انّا سے یہ کہانی سنتاتھا۔حالانکہ اب وہ جوان ہوچکاتھا اور اپنے آس پاس کی تمام نوجوان تتلیوں میں کسی ہیرو کی طرح سے مشہور تھا کیونکہ وہ بہت زیادہ عقلمنداور بہادر تھا۔اُس کی انّا نے اسے تمام علوم پڑھائے تھے۔وہ بچپن سے ہی انّا کی گود میں پلا تھا۔ماریہ اب بوڑھی ہوچکی تھی۔اُسے تتلیوں کی دنیا میں وارد ہوئے اب چھتیس ہزار دِن گزرچکے تھے۔اس دوران اس کے بے شمار بچے پیدا ہوئے اور اس کے بچوں کے بچے پیدا ہوئے۔ سارنگ ماریہ کا پوتاتھا۔ اُس کا پرنس آج سے چند سال پہلے ہی اُسے اکیلا چھوڑکرچلاگیاتھا۔ ماریہ ہررات دولوگوں کو یاد کرکے رویا کرتی ۔ایک اپنے بابا کو اور دوسرے اپنی زندگی کے ساتھی، اپنے محبوب پرنس فائینی کو۔وہ جب بھی پرنس کو یاد کرتی تو اپنی ہنی مون کے دن ضرور یاد کرتی جب اُس کا پرنس اُسے دور آسمانوں کے دروازے والی عظیم عمارت تک لے گیاتھا۔وہ ماریہ کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا۔

اُس دن وہ ایک بار پھر اپنے بابا کی لیبارٹری میں آئی تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح پوری لیبارٹری میں اڑتی پھررہی تھی اور پرنس فائینی اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہاتھا۔ماریہ ہرہر الماری کے پاس گئی۔ اسے سب کیمیکلز کا پتہ تھا۔ وہ سب چیزوں کو پہچانتی تھی۔اُس دن ماریہ کو پتہ چلا کہ لیبارٹری میں اب اس کے بابا کام نہیں کرتے کیونکہ لیبارٹری کی سب میزیں ویران پڑی تھیں۔ اس دن ماریہ کو معلوم ہوا کہ انسانوں کی دنیا میں وہ یقیناً مرچکی ہے ورنہ اس کے بابا یوں غمزدہ ہوکر سب کچھ چھوڑ نہ دیتے۔اُس دن ماریہ کو اندازہ ہوا کہ اب اس کے بابا باغیچے میں آتے ہیں تو صرف گھومتے ہی کیوں رہتے تھے۔ تتلیوں پر تحقیقات کیوں نہ کرتے تھے۔وہ جان گئی کہ ماریہ کے بغیر اس کے بابا اُداس ہیں۔ وہ اس دن بہت روئی تھی۔ ہنی مون سے واپسی پر ماریہ کتنے دن روتی رہی تھی۔ اس کاپرنس اُسے دلاسہ دیتا۔ اسے زندگی کی خوشحالیوں کی طرف متوجہ کرتا ۔ اُسے گھربنانے، بچے پیدا کرنے اور ایک لمبی خوشحال زندگی ساتھ گزارنے کے خواب دکھاتا لیکن ماریہ کے دل کی اداسی کم نہ ہوتی۔

اس کے بعد ساری زندگی ماریہ اپنے بابا کو باغیچے میں آتا دیکھتی رہی۔ کبھی کبھار جب وہ زیادہ دُور نہ ہوتے تو ماریہ اُڑ کر بابا کے پاس چلی جاتی اور ان کی ہتھیلی کی گود میں یوں جاکر لیٹ جاتی جیسے آج ساری دنیا کے غم بھلا ہی تو دے گی۔ اس کے بابا اب پہلے سے بھی زیادہ خودکلامی کیا کرتے تھے۔ وہ اُسے لُوسی لُوسی پکارتے اور ماریہ کی باتیں بتاتے تو وہ زاروقطار رونے لگتی۔وہ ایک ایک بات سنتی، سمجھتی لیکن اُس کی کسی بات کو اس کے بابا کبھی نہ سمجھ پاتے۔ وہ ایک پَرپھڑپھڑاتی نیلی تتلی کے سوا کچھ بھی کبھی نہ دیکھ پائے تھے۔

اتنے سال گزارنے کے بعد اب ماریہ بہت بوڑھی اور کمزور ہوچکی تھی ۔ جب اس کے بابا شردھان میں آتے تو وہ اُڑ کر اُن تک جابھی نہیں سکتی تھی۔ کبھی کبھار اُس کے بابا خود ہی اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے موتیے کی کیاریوں کی طرف آنکلتے اور وہ اپنے بوڑھے پروں کے ساتھ مشکل سے اُڑتی ہوئی اب بھی کبھی کبھاراُن کی ہتھیلی پر جابیٹھتی۔اب بھی وہ لُوسی کے ساتھ ماریہ کی باتیں کیا کرتے اور اب بھی ماریہ ہربار روپڑتی۔

سارنگ کا نام بھی ماریہ نے اپنے بابا کے نام پر رکھاتھا۔یہی وجہ تھی کہ اپنی اتنی زیادہ اولاد میں فقط سارنگ ہی ماریہ کو سب سے زیادہ پیاراتھا۔ ماریہ نے سارنگ کو انسانی دنیا کی ہربات بتائی تھی۔ سارنگ بہت سمجھدار تھا۔ وہ اپنی انّا کی ہربات پر یقین کرتاتھا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ اس کی انّا کبھی انسان ہوا کرتی تھی۔ماریہ نے اسے سارے علوم اچھی طرح ازبر کروائے تھے۔ماریہ نے اسے زمان ومکاں کی ایسی تعلیم دی تھی کہ اب وہ اکثرسوچاکرتاتھا کہ کاش وہ کبھی انسانی زمانے کو اپنے تصور میں لاسکے۔وہ اپنے دوستوں کو آئن سٹائن کے نظریات سمجھایا کرتا تو سب اس سے پوچھنے بیٹھ جاتے کہ آئن سٹائن کون تھا اور یہ سب باتیں کیسے ممکن ہیں؟ سارنگ کی باتوں کو اُس کے دوست اکثرمذاق میں اُڑادیا کرتے تھے لیکن وہ اپنی لگن سے کبھی باز نہ رہ سکا تھا۔ اسے بھی لیبارٹری میں جانے کا بے پناہ شوق تھا لیکن وہ اپنی بیمار اور بوڑھی دادی کو پیچھے اکیلا چھوڑ کر اتنے لمبے سفر پر روانہ نہ ہونا چاہتاتھا۔

اسی طرح ایک دن وہ اپنے دوستوں میں بیٹھا انسانی دنیا کی باتیں بتارہاتھا کہ چند اوباش قسم کے ٹائیگر پتنگوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی شروع کردی۔سارنگ اگرچہ بہت بہادر تھا لیکن وہ اس طرح کے اوباشوں کو منہ نہیں لگاتاتھا۔ اس نے ٹائیگر پتنگوں کی باتوں کو نظر انداز کیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ بات جاری رکھی۔ لیکن اُس وقت وہ اپنے غصے پر قابونہ پاسکا جب اوباش ٹائیگر پتنگوں نے اس کی انّا کو فاحشہ ، جادوگرنی اور نہ جانے کیا کیا کہنا شروع کردیا۔ سارنگ سب کچھ برداشت کرسکتاتھا لیکن اپنی انّا کے لیے ایسے نازیبا الفاظ سننا اس کے بس سے باہر تھا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ٹائیگر پتنگوں پر حملہ کردیا۔ سارنگ کو اس کے سبھی دوست سمجھاتے رہے لیکن وہ اپنے غصے پر قابو نہ پاسکا۔ پتنگے تعدا د میں زیادہ تھے اور سارنگ اکیلا تھا۔ اس کے دوست لڑاکا نسل کے تتلے نہیں تھے اس لیے لڑائی میں شریک نہ ہوئے اور سارنگ اکیلا اُن بدمعاش ٹائیگر پتنگوں کے نرغے میں بری طرح پھنس گیا۔وہ ایسا غضبناک ہوکر لڑا کہ اس نے دوتین ٹائیگر پتنگوں کو اچھا خاصا زخمی کردیا لیکن اِس خونریزی میں اس کے اپنے پر بھی بری طرح ٹوٹ ہوگئے۔ اس کے لیے مزید اُڑتے رہنا ممکن نہ رہا اور وہ زمین پر گرنے لگا۔زخمی حالت میں زمین پر گرتے وقت بھی وہ سوچ رہاتھا کہ،

’’آئن سٹائن سچ کہتاہے۔چیزیں زمین پر گرتی نہیں ہیں بلکہ وہیں کی وہیں رُکی رہتی ہیں جبکہ زمین چیزوں کی طرف اُوپر کو اُٹھنے لگتی ہے۔گریوٹی کیسا عجب مظہرِ فطرت ہے‘‘

وہ اپنے آپ کو گرتاہوا محسوس نہیں کررہاتھا بلکہ اسے زمین اپنی طرف اُوپر کو آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔بے ہوش ہونے سے پہلے اُسے آخری منظر فقط اتنا یاد تھا کہ اس کے دوست چیخ چیخ کر ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

’’سارنگ کی انّا کو اطلاع کرو! ارے کوئی جاؤ! سارنگ کی دادی کو بتاؤ!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply