کوئٹہ وال چائے۔۔علوینہ مشتاق

کراچی میں رہنے والے کوئٹہ وال چائے کے عادی ہو  چکے ہیں۔جس جگہ بھی  ہوں، کہیں نہ کہیں کوئٹہ چائے ہوٹل مل ہی جاتا ہے۔گرما گرم کوئلوں پر بنی چائے تروتازہ کر دیتی ہے۔کچھ ماہ قبل مجھے ایک ڈاکیومنٹری کے حوالے سے اپنی ٹیم کے ہمراہ بلوچستان جانا ہوا۔ ہم کوئٹہ کی جانب رواں دواں تھے، سفر تھا بلوچستان کا،بلوچستان جو پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن اس کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ نظر انداز ہونے والا صوبہ۔

بلوچستان آئے دن خبروں میں رہتا ہے کبھی دھماکے، ٹارگٹ کلنگ تو کبھی مسنگ پرسنز، بنیادی سہولیات خال خال ہی نظر آتی ہیں۔صحت اور تعلیم کے حوالے سے بھی صوبہ پاکستان کے باقی صوبوں سے پیچھے ہے۔ہم مسلسل سفر میں تھے، اتھل جانے کب کا گزر چکا تھا بیلا کراس ہو چکا تھا۔ہم ارناچ کے قریب تھے کہ ہماری گاڑی پہلے ہلکی رفتار پر آئی اور پھر رک گئی نیچے اترے تو معلوم ہوا آگے دو بسوں میں ٹکراؤ  ہوا ہے ،حادثہ شدید تھا، آنے جانے والے دونوں ٹریک بند ہو چکے تھے ،ہم ہائی وے پر تھے، ڈرائیور سے کہا گاڑی پیچھے لے لو، اس سناٹے سے بہتر ہے کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ہم چائے پی سکیں۔ڈرائیور نے گاڑی واپس گھما لی ،کوئی آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہمیں  ایک پکی مٹی سے لپے ہوٹل کے آثار نظر آئے ،یہ   چائے کا ہوٹل تھا۔

ہم سب نیچے اتر  آئے  ،ایک آدمی ہماری جانب آیا، ہم نے اسے چائے کا کہا اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا پورے ہوٹل اور سڑ ک  پر ہمارے اور ان باپ بیٹے کے علاوہ  کوئی نہیں تھا۔ باپ اردو بولنے سے قاصر تھا لیکن لڑکا اردو بول سمجھ لیتا تھا۔ مجھے وہ جگہ بہت اچھی لگ رہی تھی بنجر پہاڑی علاقہ اور ہوٹل اور تیز ہوا۔۔

اپنی لوگوں کو سمجھنے اور جاننے کی عادت سے مجبور ہو کر میں اس ہوٹل کے کچن میں چلی گئی جہاں لڑکے کا باپ چائے بنانے میں مصروف تھا، چائے کی خوشبو ہوا میں پھیل رہی تھی لیکن اس چائے سے زیادہ جس چیز نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی وہ چند کتابیں تھیں۔

مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی اور میں نے اس لڑکے سے سوال جواب شروع کر دیے،
شروع میں لڑکا مجھ سے بات کرنے میں ہچکچا رہا تھاشاید اس ہوٹل پر خواتین کا رکنا بہت کم ہوتا تھا۔۔

لڑکے کی عمر زیادہ نہیں تھی اس کے پاس جو کتابیں تھیں وہ ساتویں جماعت کی تھیں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم ساتویں کلاس میں پڑھتے ہو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
پھر اس نے بتایا ،
مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن ہم بہت غریب لوگ ہیں، اور پھر ہمارے ابو کہتے ہیں بلوچستان میں جو زیادہ پڑھ جاتا ہے وہ لاپتہ ہو جاتا ہے،

نہیں ایسا نہیں ہے میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔۔۔

لیکن اس نے کہا کہ میرے ایک ماموں لسبیلہ میں پڑھتے تھے وہ کچھ سال سے لاپتہ ہیں۔میرے ابو نے مجھے سختی سے منع کر رکھا ہے پہلے میں اسکول جاتا تھا لیکن اب نہیں جاتا،
اس نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کوئی اسکول نہیں اسے کئی کلو میٹر پیدل چل کر اسکول جانا پڑتا تھا، لیکن ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ اسے اس سے فرق نہیں پڑتا اسے پیدل چلنے کی عادت ہے کیوں کہ پانی کے لیے بھی اسے کئی کلومیٹر چل کر جانا پڑتا ہے۔

میں نے اس سے پوچھا اگر تم اسکول نہیں جاتے تو یہ کتابیں تمہارے پاس کیسے؟
اس نے بتایا کہ وہ اپنے ہوٹل پر ہی پڑھتا ہے اس کے ہوٹل پر اکثر ایک گاڑی والا آتا ہے جو خضدار میں رہتا ہے۔ہفتے میں ایک بار اسے کراچی جانا ہوتا ہے تو وہ جاتے ہوئے اور آتے ہوئے اسے سبق پڑھا کر جاتا ہے۔کبھی کوئی اور بھی مل جاتا ہے جو اسے پڑھا دیتے ہے بس اسی طرح وہ کتابیں پڑھ رہا ہے۔

اس نے بتایا کہ وہ پرائیوٹ میٹرک کا امتحان دے گا اور اس سے آگے بھی پڑھے گا۔ابھی تو ابو کی اجازت بھی نہیں اور پھر ہوٹل سے اتنی آمدنی نہیں کہ  میں کسی اسکول جا سکوں، اس کے چہرے پر افسردگی ضرور تھی لیکن مایوسی نہیں۔

مجھے اس بچے سے مل کر بہت اچھا لگا۔مجھے لگا یہ ہی پاکستان کا مستقبل ہے جو نا مساعد حالات کے باوجود پُر عزم ہے۔

باتوں کے دوران چائے تیار ہوچکی تھی۔۔ہم نے مزیدار چائے پی اور دل میں اُس لڑکے کے لیے نیک تمنائیں لیے،دوبارہ سے سفر کے لیےنکل پڑے۔

علوینہ مشتاق نے جرنلزم میں ماسٹرز کیا ہے اور ایک نجی چینل میں بطور ایسوسیٹ پروڈیوسر کام کر رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

a

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply