راز پر لب کشائی۔۔۔خط نمبر 1 اور 2۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید

معزز قارئین!
“Sharing  the  Secret”
بچپن میں جنسی زیادتی کی شکار خاتون جیمی اور ان کے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل کے مکالمے پر مبنی کتاب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سہیل نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب سے میں بچپن میں زیادتی کے شکار لوگوں کی نفسیات اور تھراپی کے حوالے سے گہری اور دلچسپ معلومات حاصل کر سکی۔ چند باب آپ کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہوں گی!)  مقدس مجید
خط نمبر 01
گمشدہ حصّے
محترم ڈاکٹر سہیل!
اس وقت صبح کے تین بج رہے ہیں اور میں گزشتہ چار گھنٹوں سے بےچین ہوں۔ میں کسی کونے چھپ کر زور زور سے رونا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ کوئی مجھے تھام لے۔ میں کسی سے بات کرنا چاہتی ہوں لیکن میں تنہا ہوں۔ گھر پر صرف میرا شوہر موجود ہے مگر میں اس سے اس سلسلے میں بات نہیں کر سکتی۔ ہمارے درمیان  اس موضوع پر گفتگو دہائیوں پہلے ختم ہو گئی تھی۔ وہ صرف مجھ سے یہ کہے گا کہ میں  اس سب کو اپنے ماضی میں چھوڑ دوں اور آگے بڑھوں لیکن آج رات میرا ماضی میرے حال سے ٹکرا رہا ہے۔ یہ ٹکراؤ مجھے الجھن اور تکلیف میں مبتلا کر رہا ہے۔ اس درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے میں خود کو اذیت دینا چاہتی ہوں لیکن میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ میرے زخم بھر جائیں۔ جس مرہم پٹی نے میرے بکھرے حصوں کو بیس سال تک باندھے رکھا وہ اب کھلنے لگی ہے۔
ایک جسم سے متعلق یاد ایک body memoryنے ابھی مجھے چوکنا کیا ہے۔ یہ کوئی دھندلی سی یاد ہے مگر میری پرانی یادوں کا کھویا ہوا حصہ ہے۔ میں تقریباً پندرہ سے سولہ سال کی ہوں اور اپنے والدین کے باورچی خانے میں کھڑی ہوں۔ میں گھبرائی ہوئی ہوں اور وہاں سے بھاگنا چاہتی ہوں۔ میں اکیلی نہیں ہوں۔ وہ شخص بھی وہیں مجھے دھمکا رہا ہے لیکن میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں۔ میں اپنی حفاظت کر سکتی ہوں۔ میں اس کو یہ بتلاتی ہوں۔ وہ مجھے فرش پر دھکا دیتا ہے اور نیچے گرا دیتا ہے۔ میں اپنی کمر کے بل پڑی ہوئی ہوں۔ پھر وہ مجھے اٹھنے دیتا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میری یادداشت اس حوالے سے خالی ہے۔ وہ مجھے طنزیہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ جب چاہے میرے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ میں کبھی محفوظ نہیں رہ سکوں گی۔ جیسے ہی وہ جاتا ہے میں دراز سے ایک چاقو نکال کر اسے اپنی کلائی پر رکھ لیتی ہوں۔ میں مر جانا چاہتی ہوں۔
میں ہمیشہ حیران ہوتی ہوں کہ کیا ہی ایسا ہوا جس نے مجھے اپنی کلائی پر بلیڈ رکھنے پر مجبور کر دیا۔ کیا یہ صرف اس شخص کا خوف تھا کہ وہ جب چاہے مجھے نقصان پہنچا سکتا تھا یا یہ کچھ اور تھا؟  یہ بہت برا رہا ہو گا۔ کیوں میرا ذہن ہمیشہ یادداشت کے اسی حصے کو بازیافت کرتا ہے؟ کیوں یہ مجھے یاد نہیں آنے دے رہا کہ آخر اس شخص نے میرے ساتھ کیا کیا؟
آج رات مجھے اس یاد کا ایک کھویا ہوا حصہ مل گیا۔ یہ اب بھی دھندلا ہے مگر میں دیکھ پا رہی ہوں کہ آخر  ہوا کیا تھا۔ یہ میرے ذہن میں پروجیکٹر پر کسی پرانی فلم کی طرح چل رہا ہے۔ جب اس نے مجھے نیچے دھکا دیا اس نے میری جینز کو نیچے کھسکایا اور عقبی مباشرت کر کے میرا ریپ کیا۔ جب وہ میرے اوپر سے ہٹا، میں نے اپنی جینز کو اوپر کیا اور فرش پر بیٹھی اونچی اونچی رونے لگی۔ پھر اس نے کہا کہ وہ جب چاہے میرے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ مجھے طنزیہ انداز سے دیکھتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ میں اٹھ کھڑی ہوتی ہوں اور دراز سے ایک چاقو نکال لیتی ہوں۔ میں الماری سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھی اونچی اونچی رو رہی ہوں اور چاقو کو اپنی کلائی پر رکھ لیتی ہوں۔ میں مرنا چاہتی ہوں اور یہ نہیں چاہتی کہ وہ شخص مجھے آئندہ نقصان پہنچائے۔
جب میں تقریباً دس سال کی تھی اس وقت میں نے سمجھا تھا کہ  یہ بدترین زیادتی اب ختم ہو جائے گی لیکن میں غلط تھی۔
 میرا سر چکرا رہا ہے۔ اب یہ اگلا دن ہے۔ میرا ذہن ابھی بھی دھندلا ہے۔ میں بےحس اور زخمی ہونے کے درمیان ڈول رہی ہوں۔ یہ جذباتی اذیت اس قدر گہری ہے کہ مجھے اندر تک تکلیف پہنچا رہی ہے۔ میں مشکل سے یہ دن گزار رہی ہوں۔
ایک ہفتہ بیت جانے کے بعد دھند آخرکار ہٹ چکی ہے لیکن درد اب بھی باقی ہے۔ میرا ذہن نئی یاد کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے یا ان معلومات سے  انکار کر رہا ہےجو اس یاد کے ذریعے آئیں لیکن مجھے اس بارے میں سوچنا ہو گا اور صحت یاب ہونے کے لیے مجھے اس پر بات بھی کرنی ہو گی۔
ڈاکٹر سہیل، میں اس سب سے کیسے نجات حاصل کر سکتی ہوں؟
مخلص
جیمی لاکلن
ــــــــــ—————————————-
ڈاکٹر خالد سہیل
خط نمبر 02
اعتماد
محترمی جیمی!
یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ کا ہمارے اس تھراپی کے تعلق پر اتنا اعتماد قائم ہوسکا کہ آپ پہلا خط لکھنے اور مجھے ہم راز بنانے کے لیے تیار ہو گئیں۔
میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ کسی تھراپسٹ خاص طور پر ایک مرد تھراپسٹ پر بھروسا کرنا اور اپنی زندگی کی ذاتی تفصیلات بتانا آپ کے لیے آسان نہیں رہا ہو گا کیونکہ بچپن میں آپ نے جس مرد پر اعتماد کیا اس نے آپ کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا۔ اسی لیے اس کے بعد پھر  کسی سے بھی ایک اعتماد کا تعلق قائم کرنے میں ایک طویل وقت لگا۔
گزشتہ سالوں میں میں نے آپ کی اسپورٹو تھراپی SUPPORTIVE THERAPYکی۔ میں آپ کے خاندان میں پیش آنے والے مسائل اور سماجی مشکلات سنا کرتا اور آپ کو یقین دہانی کراتا کہ آپ اپنے روزمرہ کے معاملات سے نمٹ سکتی ہیں۔
پچھلے سالوں میں میں نے آپ کے زندگی گزارنے کے انداز میں ایک پیٹرن دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ قریبی تعلقات استوار کرنا اور پھر ان کو سنبھال کر چلنا اور ان کو نبھانا آپ کے لیے مشکل تھا۔چونکہ اب آپ کے دونوں بچے ٹین ایج میں داخل ہو چکے ہیں اور آپ کی انگلی چھوڑ کر خود چلنے کے لیے تیار ہیں، میری رائے ہے کہ آپ  قریبی دوستوں کا سرکل بنائیں جسے میں “فیملی آف دی ہارٹ” کہتا ہوں۔
مجھے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اب آپ اسپورٹو تھراپی سے گریجویٹ ہونے کے بعد ڈائنامک تھراپی DYNAMIC THERAPYکیلئے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے مشورہ دیا کہ ہمیں آپ کے حال اور ماضی کے تعلقات کا جائزہ لینا چاہئیے تاکہ ہم آپ کے لاشعور کے پیٹرنز کو سمجھ سکیں اور آپ کی  شعوری مشکلات سے واقف ہو سکیں جو آپ کو لوگوں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔
محترمی جیمی!
میں حیران نہیں ہوں کہ آپ کے ذہن میں اپنے ماضی میں ہوئی زیادتی سے جڑی ایک نئی یاد آئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ اپنے ذہن کے لاشعوری حصے میں ایک گہری غوطہ خور بنتی جا رہی ہیں تاکہ وہاں ایک طویل عرصے سے دفن ہوئی یادداشت کو واپس لا سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایسی یادیں تکلیف دہ ہیں لیکن وہ آزادی کا سبب بھی ہیں۔ یہ بالکل ایک بچے کو جنم دیتے وقت کی درد زہ جیسی ہیں جن کی بدولت آپ اپنے ایک نئے، صحت مند اور روشن ضمیر وجود کو جنم دیتے ہیں۔ اب آپ ایک پرامن طرزِ زندگی اور صحت مند تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ آپ ان تکلیف دہ یادوں کو اپنے دوستوں اور رشتےداروں کے ساتھ شیر نہیں سکتیں لیکن خوش قسمتی سے آپ مجھ پر اتنا بھروسا کرتی ہیں کہ مجھے ان یادوں کے متعلق بتا رہی ہیں۔
میں آپ کو یقین دہانی کراتا چلوں کہ میں یہاں آپ کی مدد کرنے اور آپ کو سہارا دینے کے لیے ہوں تاکہ آپ کے زخم بھر جائیں، آپ صحت مند ہو جائیں اور ایک بھرپور زندگی گزاریں۔ میں ہمیشہ سے آپ کو بتاتا آیا ہوں کہ آپ ایک بہترین لکھاری ہیں اور آپ اپنی کہانی ایک ایسے انداز میں لکھ سکتی ہیں جو بہت سے لوگوں کو تحریک دے بالخصوص نوجوان خواتین کو جن کا کبھی جسمانی، جذباتی یا جنسی زیادتی سے سامنا ہوا ہو۔ اب آپ تیار ہیں کہ آپ خطوط کی صورت میں اپنی زندگی کا اگلا باب لکھ سکیں۔ تھراپی کا کسی عاقل و بالغ انسان کا اپنی زندگی کی کہانی کو دوبارہ اپنے ہاتھوں سے لکھنے کے مترداف لیا جا سکتا ہے ایسی کہانی جس میں آپ ہیرو ہوں نہ کہ مظلوم اور VICTIM۔
کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ کن حالات میں آپ پہلی مرتبہ کسی ماہرِ نفسیات سے ملیں اور اس ملاقات کا کیا نتیجہ نکلا؟
مخلص
ڈاکٹر سہیل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply