میرے کپتان (وزیراعظم) سے مکالمہ۔۔زین سہیل وارثی

میں وزیراعظم جناب عمران خان کا بےحد شکرگزار ہوں کہ انھوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمیں    انٹرویو  کے لئے وقت مہیا کیا۔ امید ہے آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔

صحافی ، ل۔ف۔ا۔ف۔ہ:
22 سال کی جدوجہد کے بعد آپ نے اس مقام کو حاصل کیا ہے، آپ کے بقول آپ کے پاس 200 ٹیکنوکریٹس (ماہرین) تھے جن کو اپنے اپنے شعبہ پر مہارت حاصل تھی پھر کارکردگی کا ایسا فقدان کیوں؟ نیز جب آپ حزب اختلاف میں تھے تو آپ جنوبی کوریا کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہاں حادثہ ہوا تو وزیراعظم نے استعفی دے دیا یہاں آپ کے ہوتے ہوئے چینی، آٹا، پٹرول نایاب ہو گئے، ریلوے، پی آئی اے اور دیگر ادارے وزراء کی شعلہ بیانیوں سے تباہ ہو گئے آپ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

وزیراعظم:
دیکھیں ل۔ف۔ا۔ف۔ہ شروع میں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ہو رہا ہے اور ہم نے کرنا کیا ہے، خیر سمجھ تو ابھی بھی نہیں آئی، کیونکہ ہم تو کچھ کر نہیں رہے، خالی جگہ ہمیں لانے والے پُر کر رہے ہیں اور جہاں جگہ خالی نہیں وہاں ہم نے مفادات کا تصادم کروا رکھا ہے، آپ چینی، آٹا، پٹرول، گیس اور مہنگائی ہی کو دیکھ لیں۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ میں دن رات کام کرتا ہوں، گھر جا کر بھی دفتر کا کام کرتا ہوں، یہاں تک کہ  بدعنوانی سے بھی پرہیز کرتا ہوں، میرے دوست و احباب کے بدعنوانی کے قصے  مشہور ہیں لیکن میں ایماندار ہوں، نیک بھی ہوں، شرافت بھی ہے، مگر شاید شخصی نااہلی   کا بوجھ یہ خوبیاں کم نہیں کر سکتیں۔

میری انتھک محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ غربت کو بذریعہ غریب ہماری حکومت نے ختم کیا ہے۔ کیونکہ ہم نے ہمیشہ مسئلہ کو جڑ سے پکڑا ہے یہی وجہ ہے کہ غریب ہماری حکومت کی گرفت میں ہیں۔

200 عالم و فاضل لوگوں کی جہاں تک بات ہے تو جب میں نے کرکٹ چھوڑی تھی تب دنیا کی نمبر ون ٹیم دے کر گیا تھا۔ اب بھی جب میں حکومت چھوڑوں گا تو دنیا کی نمبر ون ٹیم دے کر جاؤں گا جس نے 5 سال میں کچھ ڈلیور نہیں کیا ہو گا۔ دیکھیں جب میں کرکٹ کھیلتا تھا تو لوگ کہتے تھے کرکٹ نہیں کھیل سکتا، پھر کہتے تھے فاسٹ باؤلر نہیں بن سکتا، پھر کہتے تھے شوکت خانم نہیں بنا سکتا، پھر کہتے تھے وزیراعظم نہیں بن سکتا میں نے سب کیا، یہ بھی کر لوں گا کیونکہ میں ضدی ہوں اور لاڈلا کھیلنے کے لئے چاند مانگ ہی لیتا ہے۔

آپ کہتے ہیں نوٹس نہیں لیا، دیکھیں ل۔ف۔ا۔ف۔ہ  ،جو وزیر اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے میں اسکی وزارت یا تو تبدیل کر دیتا ہوں یا مزید اہم وزارت دے دیتا ہوں۔ شیخ رشید احمد، خسرو بختیار اور غلام سرور خان مثال کے طور پر موجود ہیں۔

صحافی، ل۔ف۔ا۔ف۔ہ:
آپ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں وہاں تو ایک چادر کا بھی حساب دینا پڑتا تھا، یہاں آپ سے فارن فنڈنگ (بیرون ملک امداد) کا سوال کیا جاتا ہے تو آپ عدالتوں میں جا کر سٹے لے لیتے ہیں۔

وزیراعظم:
دیکھیں ل۔ف۔ا۔ف۔ہ ،ریاست مدینہ بنتے وقت لگتا ہے، میرے پاس کوئی بٹن تو نہیں ہے جسے آن کروں گا تو تبدیلی آ جائے گی۔ جس طرح آپ وزیراعظم تو جیسے تیسے بن جاتے ہیں لیکن وزیراعظم کرتے کیا ہیں، حکومت چلتی کیسے ہے، یہ سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔

جہاں تک فارن فنڈنگ کا تعلق ہے، اگر مجھ سے حساب لیا گیا تو باقیوں سے بھی حساب لیا جائے یہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام کو بھی تو بیرون ملک سے امداد ملتی ہے، ہم نے تمام کھاتوں (اکاؤنٹس) کا حساب دیا ہے سوائے انکے جن کی صورتحال نازک ہے، لیکن وہ بھی جلد واضح ہو جائے گی کیونکہ لندن کی عدالت نے ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہاں سے کڑیاں کھل جائیں گی۔ پھر میں اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو این آر او (وزارتوں میں ردوبدل کرکے) دے کر معاف کر دوں گا۔

صحافی، ل۔ف۔ا۔ف۔ہ:
آپ نظام میں اصلاحات کی بات کرتے تھے، یکساں تعلیمی نظام، معاشرتی و معاشی انصاف کی بات کرتے تھے، آپ عوام پر سرمایہ کاری کی بات کرتے تھے اور ان تمام منصوبوں کا کوئی پُرسان حال ہی نہیں۔ آپ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی بات کرتے تھے۔

وزیراعظم:
دیکھیں ل۔ف۔ا۔ف۔ہ ،فتح اور کامیابی صرف کہانیوں میں ہوتی ہے، نیز سکون صرف قبر میں ہے، اس دنیا میں سکون و چین ممکن نہیں۔ ہم آپ کو سکون دینے کے لئے آئے بھی نہیں ہیں، جن کے آرام و چین کے لئے ہمارا بندوبست کیا گیا تھا وہ نا صرف چین میں ہیں بلکہ انکی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاھی میں۔ ہم آپ کے لئے آئے ہوتے تو اس ٹیم کا میں آپ کے لئے انتخاب کرتا میرے انتخاب سے لوگوں کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ میں مشکلات ختم کرنے نہیں، بڑھانے کے لئے آیا ہوں۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ چینی جو 50 سے 53 روپے کلو تھی ہم نے محنت کر کے اسے عوامی پہنچ سے دور کیا ہے، تاکہ ذیابیطس پر قابو پایا جا سکے۔ آٹا کی قلت اس لئے پیدا کی گئی تاکہ لوگوں کو موٹاپے سے چھٹکارا دلوایا جا سکے، کیونکہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کاربوہائیڈریٹس مضر صحت ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہماری ماحول دوست پالیسیوں کا تسلسل ہے ہم چاہتے ہیں لوگ زیادہ سے زیادہ اپنے قدموں اور میٹرو بسوں پر سفر کریں۔ اس تمام تر مشق سے لوگوں کی صحت بہتر ہو گی اور میٹرو کا خسارہ بھی کم ہو جائے گا۔ رہ گیا معاشی اور معاشرتی انصاف پچھلے اڑھائی سال میں ہم نے اس پر بھی بہت محنت کی ہے۔ یہ ہماری پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے غریب غریب تر ہو رہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس کی رفتار میں اضافہ ہو کیونکہ جب ملک میں اشرافیہ رہ جائے گی تو ہم اپنے نعرہ کی تکمیل کے قریب ہوں گے دو نہیں ایک پاکستان صرف اشرافیہ کے لئے۔

صحافی، ل۔ف۔ا۔ف۔ہ:
آپ کبھی چینی انقلاب، کبھی ایرانی انقلاب، کبھی امریکی  طرزِ  جمہوریت کی بات کرتے ہیں، اور آخر میں اس سب کو ریاست مدینہ جیسے مقدس نظریہ سے جوڑ دیتے ہیں۔ کیا آپ ابہام کا شکار نہیں۔

وزیراعظم:
دیکھیں ل۔ف۔ا۔ف۔ہ ،یہی میری خوبی ہے 22 سالہ جدوجہد میں بھی میں نے ابہام ہی پھیلایا ہے، 1992ء کے ورلڈ کپ کا ابہام، 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کا ابہام، انقلاب لانے کا ابہام،بدعنوانی کا ابہام، دو نہیں ایک پاکستان کا ابہام، تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت بنانے کا ابہام، نجات دہندہ ہونے کا ابہام، ٹیکس اکٹھا کرنے کا ابہام، آپ لکھتے جائیں فہرست ختم نہیں ہو گی۔ کیونکہ مجھے کام ہی یہ آتا تھا، ہے اور میں کرتا رہوں گا۔ نیز ہمارے سیاسی دانشور گوئیبل نے کہا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ بلآخر وہ سچ ثابت ہو جائے۔ آخر میں اس ملک میں جب کچھ نہ  بِکے تو مذہب اور حب الوطنی بیچنا شروع کر دو ،کاروبار کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ جیسے میرے کاروبار کو چار چاند لگ گئے۔ کیوں نظام چلانے کی اہلیت تو ہے نہیں نا مجھ میں، نہ  میری جماعت میں۔

صحافی، ل۔ف۔ا۔ف۔ہ:
آپ کی اڑھائی سالہ کارکردگی کی بات کی جائے تو اس میں یوٹرن کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کارکردگی صفر بٹا صفر ہے، مقاصد و بیانات (وژن اور سٹیٹمنٹ) میں تضاد ہے۔ نوازشریف کی مثال لے لیں، انکی طبعیت ناساز تھی، لیکن آپ کے ماتحت لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ان کو پاکستان سے باہر بھیجا، جب آپ کو پتا بھی چل گیا تو آپ نے کچھ نہیں کیا اور فرما دیا میں این آر او نہیں دوں گا۔ مہربانی فرما کر وضاحت دے دیں۔

وزیراعظم:
دیکھیں ل۔ف۔ا۔ف۔ہ منزل تک پہنچنے کے لئے ہم بہت سے راستے لیتے ہیں جیسے میں نے اس کرسی تک پہنچنے کے لئے انتہائی غلط راستے چنے، جب آپ منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو اس کے بعد آپ اپنے عہد و پیماں بھی بھول جاتے ہیں، یاد آئیں گے تو ایک ایک کرکے عملدرآمد شروع کر دیں گے۔ نوازشریف کو ہم نے نہیں پچھلی حکومت نے بھیجا ہے کیونکہ وہ حکومت شہباز شریف کی تھی اس لئے انھوں نے رپورٹس میں ردوبدل کر کے ہمیں اس جال میں پھنسایا ہے، لیکن آپ بے فکر رہیں میں ان کو این آر او نہیں دوں گا۔ اگر کوئی اور خفیہ ہاتھ این آر او دے دے طبی رپورٹس کی طرح تو میں اس کا کچھ کر نہیں سکتا، لیکن میں ایک بااختیار وزیراعظم ہوں۔ میں منتخب ہوا ہوں سیلیکٹ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صحافی، ل۔ف۔ا۔ف۔ہ: آخر میں خواتین و حضرات میں وزیراعظم صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے ملک میں 1 کروڑ نوکریاں دیں، 8000 ارب ٹیکس اکٹھا کیا، پروٹوکول نہیں لیا، 50 لاکھ گھر لوگوں میں تقسیم کیے، حزب اختلاف کے تمام چوروں سے بدعنوانی کا پیسہ واپس لیا، گورنر ہاؤس اور وزوزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا۔ عدالتی و انتظامی (بیوروکریسی) نظام میں اصلاحات کیں، نئے قوانین کے لئے قانون سازی کی، یکساں تعلیمی نظام اور صحت کی سہولیات تمام شہریوں کو مہیا کیں، معاشی ترقی کو 10 فیصد تک لے گئے، 350 چھوٹے بڑے ڈیم بنائے ہیں، تحریک انصاف اپنے چئیرمین کا انتخاب بذریعہ انتخابات کرتی ہے، بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کیا ہے، پٹواری اور تھانہ کلچر تبدیل کیا ہے پاکستان اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پہلے دس ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں بدعنوانی کی شرح سب سے کم ہے۔ اس سب کی بنیادی وجوہات عوام الناس کو انڈے، مرغیاں، مرغے، کٹے، کٹیاں دینے کی بدولت ہوا۔ آخر میں خدائے بزرگ و برتر کے آگے التجا ہے، کہ تحریک انصاف کی حکومت اگلے 5 سال کے لئے بھی سیلیکٹ ہو تا کہ ملک مزید کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکے۔

Facebook Comments