فرض کیجئے کہ آپ نے سنا ہے اور یقین کرتے ہیں کہ زمین چپٹی نہیں ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ آپ کا یقین درست ہے۔ لیکن درست ہونا علم نہیں کہلاتا۔ اگر آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ آپ کا یقین کیوں درست ہے تو پھر یہ صرف یقین ہے، علم نہیں۔ مثال کے طور پر، آپ بتا سکتے ہیں کہ چپٹی زمین کی نفی چاند گرہن کے وقت چاند پر پڑنے والے سائے کی گولائی سے ہو جاتی ہے۔ یا اس بات سے کہ ایک بحری جہاز سمندر میں دور جاتے وقت آہستہ آہستہ افق سے نیچے غائب ہو جاتا ہے۔ یا اس وجہ سے کہ اگر ہم مغرب میں چلتے جائیں تو زمین کا چکر کھا کر واپس اصل مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ آپ کو علم ہے کہ زمین چپٹی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف کسی کے کہنے پر آپ نے یقین کر لیا تھا اور پوچھنے پر دہرا دیتے ہیں۔ آپ اپنے یقین کی وجہ بتا سکتے ہیں۔ “علم ایسا یقین ہے جو درست بھی ہے اور اس کا حامل اس کے ہونے کی وضاحت بھی کر سکتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا سائنس اور نیچرل دنیا کے بارے میں علم سے کیا تعلق؟ سائنسدان دنیا کے بارے میں کئی یقین رکھتے ہیں (مثلاً، ہماری کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں) اور وہ اس یقین کی وضاحت کر سکتے ہیں (طاقتور ٹیلی سکوپ سے آسمان کو سکین کیا ہے، خاص علاقوں میں ستارے گنے ہیں ، شماریاتی تکنیک سے اس کو extrapolate کیا ہے اور پھر تخمینہ لگایا ہے)۔ لیکن کیا یہ یقین درست ہے؟
سچ کی کورسپونڈنس تھیوری کہتی ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ یہ کس درجے کا سچ ہے طریقہ یہ ہے کہ پڑتال کی جائے کہ بیرونی حقیقت میں چیزیں کیسے ہیں۔ بات ختم۔ اور یہاں پر مسئلہ ہے۔ آپ کو کیسے پتا ہے کہ دنیا واقعی کیسی ہے؟ شاید آپ کو یہ ایسا سوال لگ رہا ہو جن کو کرنے کا الزام فلسفیوں پر لگتا رہتا ہے، جو گہرا لگنے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔ لیکن اس پر تھوڑا سا غور کرنا ہمیں بتا دے گا کہ اصل الجھن کہاں پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ تر سائنسدان اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ اس کا جواب تجربے اور مشاہدے میں ہے۔ خود ہی پڑتال کر لیں۔ مثال کے طور پر، اگر میں دعوٰی کرتا ہوں کہ میرا دوست فیقا لانڈھی میں رہتا ہے۔ تو آپ ایڈریس لیں، جائیں اور خود پتا کر لیں۔ فیقا لانڈھی میں رہتا ہے۔ یہ سچ ہے۔ اس میں کیا بڑی بات ہے؟ اس سادہ ترین سوال میں بھی چیزیں اتنی سادہ نہیں۔
پڑتال کیسے ہو گی؟ یہاں پر اس کیلئے مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ اگر میں اس ایڈریس پر جاوٗں اور گھنٹی بجانے پر دروازہ کھولنے والے کا نام فیقا ہوا تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ میرا دوست ہے، یہیں رہتا ہے اور کام ختم۔ ٹھیک؟
لیکن لازم تو نہیں کہ وہ فیقا میرا دوست ہی ہو؟ یا پھر وہ میرا دوست ہے تو اصل میں یہاں رہتا نہ ہو، کسی سے ملنے آیا ہو۔ اب جب ہم اس تلاش میں نکلے ہیں تو پھر کچھ آگے جانا پڑے گا۔ قانونی دستاویز دیکھنے پڑے گی، مثلاً شناختی کارڈ دیکھا جا سکتا ہے۔ (یہاں ہم اس پر اتفاق کر لیں گے کہ شناختی کارڈ کا سسٹم ٹھیک کام کرتا ہے)۔ ہم فیقے کی نگرانی کر لیں گے کہ وہ وہاں سے نہیں نکلتا (یہاں مفروضہ یہ بنا لیں گے کہ وہ چند روز رہنے نہیں آیا)۔ دوستوں یا محلے داروں سے پوچھ لیں گے (یہاں مفروضہ یہ کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہے) وغیرہ وغیرہ۔
فیقا لانڈھی میں ہی رہتا ہے (یا کم از کم میرا یہی خیال ہے) لیکن نکتہ اس کی رہائش کا نہیں۔ یہ ہے کہ اس نتیجے کا انحصار کئی قسم کے شواہد پر ہے جو میرے یقین کی توجیہہ کرتے ہیں۔ ہر ایک پر سوال کیا جا سکتا ہے۔ پیچیدہ سائنسی دریافتیں، جیسا کہ ملکی وے کے ستارے یا الیکٹرون کا چارج یا ارتقا کی حقیقت ۔۔۔ اس بارے میں شواہد بہت زیادہ پیچیدگی رکھتے ہیں۔ اور بہت سے مفروضے لینے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی تھیوری ہمیشہ غیرحتمی ہو گی اور نئے شواہد ملنے پر ہم اس میں رد و بدل کر لیں گے۔ یہی تو سائنس کی انٹرپرائز کی طاقت ہے اور اس کے بغیر ہم اچھے علم تک نہیں پہنچ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ کی کورسپونڈنس تھیوری یہ فرض کر لیتی ہے کہ ہم علم کی حدود “epistemic limitations” سے باہر جا سکتے ہیں (مثال کے طور پر، جو ہماری بائیولوجیکل خاصیتوں کی وجہ سے ہیں) اور “خدا کی آنکھ” تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ فلسفی کانٹ کے وقت سے جانتے ہیں کہ ایسا کوئی بھی ویو ہمیشہ کے لئے انسانوں کی پہنچ سے دور رہے گا لیکن چند سائنسدان ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسا کہ سائنس کسی جادوئی طریقے سے اس مسئلے پر قابو پا لے گی اور سب حدود کو توڑتی ہوئی Truth (کیپیٹل T) تک رسائی حاصل کر لے گی۔
سائنس واحد سچائی ہے۔ اگلے سو سال میں ہمیں فلاں شے کا علم ہو جائے گا۔ اگر وقت اور وسائل ہوں تو ہم سب کچھ جان لیں گے۔
کسی بھی جادوئی یقین کی طرح یہ صرف ایک جادوئی یقین ہے۔
اس کو سائنٹزم کہا جاتا ہے۔ قدیم یونانی اسے hubris کہتے تھے۔ ہم اسے “مہمل یقین” کہتے ہیں۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں