انچاس فیصد پاکستانی، سازشی نظریات کے حامی۔۔ذیشان نور خلجی

گیلپ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 49 فیصد عوام کورونا ویکسین نہیں لگوانا چاہتے کیوں کہ یہ لوگ آج بھی کورونا وائرس کو ایک سازش ہی سمجھتے ہیں۔

مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی، کورونا وائرس اگر ایک سازش تھی تو پھر اس کا سب سے زیادہ نشانہ بھی کافر خود ہی کیوں بنے؟ اور اگر انہوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ وائرس وائرل کیا تھا تو پھر خود کیوں اس کی لپیٹ میں آ گئے؟

ان 49فیصد پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس سازش کا مقصد دراصل مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو بند کروانا تھا۔ کیا ان عبادت گاہوں کو، جہاں بیٹھ کر ہم دعائیں مانگتے ہیں کہ یااللہ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں؟ اور پھر ہماری ایسی دعائیں قبول بھی نہیں ہوتیں۔ دراصل ان بھلے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ہماری عبادت گاہیں بند ہونے کا نقصان بھی سب سے زیادہ انہی کافروں کو ہو گا۔ کیوں کہ ہم لوگ تو ستاروں سے آگے جہاں ڈھونڈنے میں مگن ہیں جب کہ بنی نوع انسان کے مسکن زمین پر کمند ڈالنے کا کام کافروں نے ہی اپنے سر لے رکھا ہے۔

اسی باعث مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ خانہ کعبہ کے ائیر کنڈیشنرز یا پھر دوسری بڑی عبادت گاہ مسجد نبوی ﷺ کے لاؤڈ اسپیکرز، ایسی تمام سہولیات کی چیزیں ناپاک کفار کے ممالک سے ہی بن کر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہماری عبادت گاہوں سے وابستہ بیسیوں ایسی اشیاء ہیں کہ جن پر کفار ممالک کی معیشت کا حد درجہ انحصار ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چاند پر قدم رکھنے والے لوگ کسی ایسی قوم کے خلاف سازشیں گھڑنے لگ جائیں جن بیچاروں کو عید کے عید بھی چاند نظر نہیں آتا اور وہ ہر طرح کی سہولت کے لئے ان کے محتاج ہیں۔

پاکستان کے انچاس فیصد عوام دراصل دنیا کے پانچویں بڑے ملک کی آدھی آبادی ہیں جو کہ کورونا ویکسین کو سازش سمجھ رہے ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں اس سے پہلے جو پولیو ویکسین کو بھی کفار کی سازش سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے تمام دنیا میں پولیو وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن پاکستان اور برادر اسلامی ملک افغانستان ابھی تک اس آگ میں جل رہے ہیں۔ دراصل انہی بے تکے اور احمقانہ سازشی نظریات کے باعث دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک میں ہم نے صرف افغانستان جیسے ناخواندہ اور پسماندہ ترین ملک کے ساتھ کھڑے ہونے کا انتخاب کیا ہے۔ ایسے سازشی نظریات پر یقین رکھنے والوں کا  ماننا ہے کہ کورونا ویکسین اور پولیو ویکسین میں بانجھ پن پیدا کرنے والے خطرناک کیمیکلز موجود ہیں۔

اگر یہ بات درست ہے تو پھر دنیا کے باقی ایک سو ترانوے ممالک نئی نسل پیدا کرنے میں کیسے کامیاب ہو گئے ہیں؟

دراصل بقیہ تمام ممالک نئی نسل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پولیو جیسی لعنت سے بھی چھٹکارا پا چکے ہیں جب کہ ذہنی طور پر اپاہج ہم لوگ ایک جسمانی طور پر اپاہج نسل بھی تیار کرنے پر بضد ہیں۔ اور ان جیسے عقل کے کوہ ہمالیے تو آئیوڈین ملے نمک سے بھی سازشی تھیوری ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ بلکہ ان لوگوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی بھی غلط ہے کیوں کہ ہر جان کو رزق دینے کا وعدہ اللہ نے کیا ہوا ہے جب کہ دوسری طرف یہ لوگ ہر بابے، پیر اور عامل کی درگاہ پر صرف اس لئے حاضری دیتے ہیں کہ اولاد نرینہ ہو سکے۔ کیوں کہ یہ بہت سیانے اور دور اندیش لوگ ہیں اور یہ اولاد میں بیٹا صرف اسی لئے چاہتے ہیں کہ بڑھاپے کا سہارا بن سکے۔ ان لوگوں کو یہ تو پتا ہے کہ ایک نومولود کا رزق اللہ کے ہاں موجود ہے لیکن انہیں اس بات کا بھی ڈر ہے کہ جب یہ بوڑھے ہو جائیں گے اور کمانے کے قابل نہیں رہیں گے تو اللہ کی ذات ان کے رزق کا بندوبست نہیں کر سکے گی لہذا انہیں ایک عدد بیٹے کی اشد ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ صرف سنے سنائے نظریات پر یقین رکھتے ہیں اور خود ان کے پاس نہ تو اتنی عقل ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی قوت فیصلہ ہوتی ہے کہ خود سے کسی سازشی نظریے کو اپنا سکیں۔ اور اس بات کا اندازہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ابتداء میں کورونا وائرس کو بہت سے لوگ جھوٹ سمجھتے رہے لیکن بعد کے حالات دیکھ کر اکثریت نے مان لیا کہ واقعی یہ حقیقت ہے۔ اور اب کورونا ویکسین آنے کے بعد دھیرے دھیرے یہی سب لوگ پھر سے متنفر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور بڑھتے بڑھتے جن کی تعداد انچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دراصل ایسے سازشی نظریات پر ان کا ایمان صرف اور صرف بھیڑ چال کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ جن سازشی نظریات پر یہ لوگ یقین رکھتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ ایسا کوئی ایک مستند واقعہ بھی سامنے نہیں آ سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگوں کو خود ان باتوں پر سوچنا ہو گا کیوں کہ پہلے ہی سنی سنائی باتوں پر ایمان لانے سے یہ تعداد انچاس فیصد تک جا پہنچی ہے اور ہم پاکستانی جو کہ افواہوں اور سازشی نظریات میں اللہ کے فضل سے خود کفیل ہیں اور پھر ان باتوں پر ان دیکھے خدا کی طرح ایمان بھی لے آتے ہیں تو کہیں یہ نہ ہو کہ بھیڑ چال کے نتیجے میں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے سو فیصد تک پہنچ جائے اور ایک نیا ورلڈ ریکارڈ ہمارے حصے میں آ جائے۔ ورلڈ ریکارڈ سے یاد آیا کہیں یہ انچاس فیصد بھی تو ہمیں اسی صف میں کھڑا نہیں کر رہا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply