سول سروس کی لیلیٰ۔۔عارف انیس

نوکری، محض نوکری ہے. اس کے ساتھ جو بھی سابقے یا لاحقے لگا دیے جائیں، وہ بس دل کو رجھانے کے طریقے ہوتے ہیں. یہ بھی سچ ہے کہ ملازمت پیشہ لوگوں نے دنیا کو تبدیل کرنے میں اتنا ہی کردار ادا کیا ہے، جتنی ان کو اس کی تنخواہ ملتی ہے. اور یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے تین سب سے بڑے نشے ہیروئین، میٹھا اور ماہوار تنخواہ ہیں.
تاہم پاکستان میں پیدا ہونے، بڑا ہونے اور سسٹم کو اندر باہر سے دیکھنے کے بعد پھر بھی میں اس تحریک کا پرچارک ہوں کہ ہر اہل اورباصلاحیت پاکستانی گریجویٹ کو سی ایس ایس ضرور کرنا چاہیے، کیونکہ اس مہم میں زندگی میں پہلی بار( اور شاید آخری بار ) وہ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، سوالات اٹھاتے ہیں، کتابوں کی جگالی کرتے ہیں اور اپنی زندگی اور نظام کو بہتر طریقے سے سمجھنا شروع کرتے ہیں.
میں نے 2001 میں سی ایس ایس کیا اور 29 ویں کامن میں شامل ہوا. ذوق آوارگی بعد میں مجھے بہت سی جگہوں پر لے گیا. دنیا کے بڑے اداروں، سینڈ ہرسٹ، ہارورڈ اور آکسفورڈ سمیت بہت سی جگہوں پر ذاتی انٹریکشن کا موقع  ملا. مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سی ایس ایس کرنے والے لوگ ذہین ترین لوگوں میں سے ہوتے ہیں. یہ ایک اور المیہ ہے کہ بعد میں یہ ذہین ترین لوگ سسٹم کا چارا بن جاتے ہیں. پاکستان کی موجودہ حالت کی ذمہ دار خاکی بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ سول سروس بھی ہے. مگر میں مانتا ہوں کہ سی ایس ایس کرنے والوں میں بہت دم ہوتا ہے اور مڈل کلاس /لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے لیے یہ گیم چینجر ہے. جب 2002 میں، میں نے سول سروس جوائن کی تو تب جنرل مشرف کا ایک جملہ بہت مقبول تھا کہ موازنے میں ایک کپتان، سی ایس ایس کرنے والے سے بہتر ہے. ہوسکتا ہے یہ میرا تعصب ہو مگر سول سروس انٹیلیکچول کیپیسیٹی میں مستثنیات کے علاوہ عموماً خاکیوں سے کہیں بہتر ہے. گو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ دونوں ایک ہی بستر میں پائے جاتے ہیں.
سی ایس ایس کو میں ایک ایمپاورمنٹ کا ٹول سمجھتا ہوں کہ وہاں موجود بندہ یا بندی سینکڑوں کے کام آتا ہے /آتی ہے اور ہمارے مردم خور معاشرے میں کچھ نہ کچھ امان مہیا کرتا ہے. بدقسمتی سے فی کس جہالت 2001 کے مقابلے میں دگنی ہوچکی ہے. اس لیے امتحان دماغ کو کھولنے اور پھرولنے کے لیے بہت مؤثر ہے. ایک اور چیز یہ بھی سیکھی کہ جتنی محنت ہم اپنے آپ کو ناکام کرنے کے لئے کرتے ہیں، اس سے آدھی محنت میں کامیاب ہوا جاسکتا ہے.
جیسے کہ ہمارے المشہور ملک ریاض کا مبینہ قول ہے کہ “قلم کی طاقت بندوق سے کہیں، زیادہ، مگر پلاٹ سے کہیں کم ہے”. میں نہ ملک ریاض ہوں، نہ ارب پتی، سو نہ تو پلاٹ پیشہ کرسکتا ہوں اور نہ ہی دتھیاں بانٹ سکتا ہوں. اپنے پاس صرف حوصلے اور امید کی فراوانی ہے، سو روزانہ امید کی روٹی حاضر کرتا ہوں.
وادی سون والوں کا بہت شکوہ تھا کہ اتنی( مصنوعی) مشہوری کر لی مگر علاقے کے لیے کیا کیا؟ ملک لوگ چونکہ ڈاہڈے ہوتے ہیں سو میں نے سوچا کہ دو چار لفظ سیکھے ہیں سو وہ سکھائے جائیں. 2020 میں دو تین مہینہ لمبی ایک مہم چلائی جس میں دو سے زیادہ گریجوئیٹس نے اپلائی کیا. ان میں سے پچاس کو منتخب کر کے سی ایس ایس کی ماسٹر کلاس شروع کی ہے. ارادہ صرف یہ ہے کہ انہیں 2022 کے امتحان کے لیے تیار کیا جائے تاکہ جب رزلٹ نکلے تو نتیجے میں کچھ بے نوا لوگ بھی شامل ہوں.
گزشتہ تین مہینے کی ورچوئل کلاسوں کے بعد نیت کی ہے کہ وادی سون سے شروع کیا ہوا سلسلہ آگے بڑھایا جائے اور پورے پاکستان میں جہاں کہیں، ہمت اور ذہانت کے حساب سے تیار مگر وسائل کے حوالے سے تنگ گریجویٹ جہاں کہیں بھی ہے، اس کو شامل کرلیا جائے. ورچوئل معاملے میں ایک آسانی ہے کہ انٹرنیٹ کنکشن اور امنگ میں دم ہو تو ملن ہو ہی جاتا ہے. سو مارچ سے دسمبر تک 9 مہینے کی ایک میراتھان شروع کر رہے ہیں، مختلف کامنز سے تعلق رکھنے والے بہت سے شاندار افسران نے بھی نکی جئی ہاں کردی ہے. سو قافلہ تیار ہے.
10 فروری 2021 تک اس لنک پر درخواست دی جاسکتی ہے. 25 فروری تک شارٹ لسٹ کے مرحلے کے بعد مارچ سے سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری شروع کردی جائے گی. کریٹیکل تھنکنگ، مائنڈ میپنگ، سپیڈ ریڈنگ ،اور اسی طرح کی جدید تکنیکوں کے ساتھ کم وسائل والے گریجوئیٹس کو دنیا کے بہترین اداروں کے پڑھے لکھوں کے ساتھ مقابلے کے لئے تیار کیا جائے گا.
یہ ساری ٹریننگ فری ہے. ویسے تو یہ ٹریننگ 2003 سے میں دیتا رہا ہوں اور بہت سوں کا بھلا ہوا ہے. تاہم فری کا لفظ برا ہے سو اس کی بجائے اس مرتبہ اسے پاتھ فائنڈر سکالرشپ کا نام دیا ہے. شارٹ لسٹنگ ٹف ہوگی. مگر جو لوگ اس میں شامل ہوجائیں گے، وہ انشاءاللہ بہت سے شعبوں میں کامران ہوں گے. نیت یہ ہے کہ افتادگان خاک میں سے کچھ لوگ نظام کے اندر پہنچیں اور کچھ دروازے اپنے جیسوں کے لیے کھولیں. ہمت اور کامیابی کے لیے دعا کیجئے گا.
لنک حاضر ہے. 10 فروری کے اختتام پر بند ہوجائے گا. شارٹ لسٹنگ کا مرحلہ مکمل کرنا لازمی ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply