عامر لیاقت ، عشق رسالت مال تجارت ہرگز نہیں ہے۔عارف مصطفیٰ

 محض کف افسوس مل کر کیا ملے گا ۔ اگربنام عشق رسالت کاروبار تجارت یوں چالو رہےگا، لیکن اب بات محض افسوس کی بھی نہیں رہی بلکہ کب کی نہایت قابل شرم بن چکی ہے کیونکہ جب عشق رسالت بھی اگر ادنیٰ سیاسی مفادات کے تابع کردیا جائے اور کوئی اس کو اپنی ذاتی اغراض کی تکمیل کا ہتھیار بنالے تو اس سے زیادہ قابل شرم بات اور کیا ہوسکتی ہے ؟ 20 اکتوبر کو اپنے پروگرام َ ایسے نہیں چلے گا َ، میں عامر لیاقت نے عجب کمال دکھایا کہ الطاف حسین کو الوداع کہنے والے نمائشی پروگرام میں اپنے سابق پیر مغاں پہ کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ الطاف حسین پہ یہ برا وقت اس لیے پڑا ہے کہ اس نے خود کے لیے محسن انسانیت کا لقب استعمال کیا تھا۔ یعنی ایسا لگتا ہے کہ جیسے محقق دوراں اور بقراط عصر عامر لیاقت کو کئی برس بعد اب جا کے اس لقب کے معنی سمجھ میں آئے ہیں کیونکہ الطاف حسین نے تو یہ گستاخی کئی برس قبل کی تھی کیونکہ اس وقت اس کی سالگرہ پہ برنس روڈ سیکٹر نے جو مبارکبادی بینرز لٹکائے تھے ان میں ہی یہ لقب الطاف حسین کے لیے لکھا گیا تھا اور یہ شدید گستاخی الطاف حسین کے ایماٗ کے بغیر کی ہی نہیں جاسکتی تھی ۔

واضح رہے کہ محسن انسانیت والا یہ گستاخ بینرعام شاہراہ پہ کئی روزآویزاں رہا تھا اورشاید صرف امت اور تکبیر نے ہی اس کی فوٹو دکھانے کی ہمت جٹائی تھی ورنہ اس گھناؤنی حرکت کی خبریں عام کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ سوشل میڈیا و فیسبک بنا تھا اور یہ گھناؤنی حرکت بہت مشہور ہوئی تھی ۔ تو سوال یہ ہے کہ اس وقت عامر لیاقت کا عشق رسول کہاں لاپتہ ہوگیا تھا اوراس وقت پیارے نبیﷺ کی شان میں کی گئی اس گستاخی پہ وہ کیوں مہر بہ لب رہے ؟ ۔۔ کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کا عشق رسول بھی ان کی خاص ذاتی و افادی اغراض سے منسلک ہے  ؟؟

ان کے اس عجیب و غریب رویے کی ایک مثٓل یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ وہ سنہ2006میں ایم کیوایم چھوڑنے کی وجہ بھی عشق رسالت سے جوڑ کے بتاتے ہیں اور اس کی توجیح انہوں نے بہت بعد میں یہ پیش کی کہ ان کا ایم کیو ایم سے اس بات پہ شدید اختلاف ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایرانی علما کے اس فتوے کی تائید کی تھی کہ جس کی رو سے گستاخ رسول سلمان رشدی کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا اورایم کیوایم کے نزدیک یہ مؤقف انتہا پسندی کی ذیل میں آتا تھا   اور چونکہ برطانوی حکومت نے سلمان رشدی کو سر کا خطاب دیا تھا لہٰذا وہاں برسوں سے مقیم الطاف حسین کی برطانوی شہریت کو خطرات لاحق ہوسکتے تھے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہاں بھی دوہرے پن کی انتہا کردی کیونکہ عشق رسالت کی حمایت میں انہوں نے جب اس اہم پالیسی اختلاف پہ ایم کیوایم چھوڑی تو اس وقت اس اقدام کی یہ وجہ تو قطعی بیان نہیں کی تھی بلکہ اپنی علمی مصروفیات کا عذر تراشا تھا اور اپنےآخری بیان میں جاتے جاتے تو انہوں نےالطاف حسین کی تعریفوں کے انبار لگادیے تھے اور اس کی بڑی مدح سرائی کی تھی جو کہ اس گھناؤنی پالیسی کا معمار تھا ۔

اب کوئی سوچے کے عشق رسولﷺ  کے مقبل کھڑی اس پالیسی کے معمار کی توصیف و ستائش کرتے ہوئے ان کا عشق رسالت اور دینی غیرت کے تقاضے کہاں جا سوئے تھے ۔ اور یہی نہیں بلکہ10برس بعد وہ ایم کیو ایم میں واپس کیوں پلٹ آئے تھے جبکہ  ایم کیوایم نے نہ تو اس حوالے سے اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی کی تھی اور نہ ہی ان سے کوئی معذرت کی تھی اور ان کے اس طرح پلٹ آنے سے یہ بخوبی واضح ہوگیا تھا کہ ان کا پہلے چلے جانا بھی عشق رسالت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ چند ایسی ذاتی اغرض اور مفادات کا معاملہ تھا کہ جو اس بے فیض وزارت میں رہ کے پورے نہیں ہو پارہے تھے کیونکہ ان کے سینئر وزیر اعجاز الحق نے انہیں َ کھل کرَ کھیلنے نہیں دیا تھا ۔ اور اب ایم کیوایم کو دن بہ دن رو بہ زوال ہوتے دیکھ کے وہ موقع سے فائدہ اٹھا کے اس کی قیادت پہ قبضہ کرنے کے لیے پلٹ آئے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں آخر میں مجھے اس حوالے سے عامر لیاقت سے صرف یہی کہنا ہے کہ وہ اپنی نمود و افزائش کے لیے بڑے شوق سے جتنے چاہیں پینترے بدلیں اورجتنی چاہیں قلابازیاں کھائیں لیکن خدارا عشق رسالت کے معاملے کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے یوں استعمال نہ کریں کہ یہ وہ معاملہ ہرگز نہیں کہ جس سے حقیقی اہل عشق انہیں یوں مسلسل کھلواڑ کرنے دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply