کچرا، کُتے ، مچھراور کراچی۔۔محمد مشتاق خان

کتے بہت وفادار ہوتے ہیں اور مچھر کو اگر خون چوسنے کا موقع مل جائے تو تب تک چوستا رہتا ہے جب تک اپنی جگہ سے ہلنے  کے قابل بھی نہ  رہے، اس لئے کراچی میں کتوں کی وفاداری اور مچھروں کو ان کے ہم فطرت ہونے کی وجہ سے سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے خاص اہمیت دی جاتی ہے اور دونوں کو سرکاری طور پر مارنا منع ہے بلکہ ان کی افزائش ِنسل پر خاص توجہ دی جارہی ہے اور جلد انسانوں کے ساتھ ساتھ کتے اور مچھر بھی یہ احتجاج کرتے نظر آئیں گے کہ مردم شماری کے ساتھ ٹھیک سے سگ شماری اور مچھر شماری کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ کراچی کی حکومت باضابطہ طور پر اس کے اصل حق داروں کو منتقل ہوسکے ۔

بلاول بھٹو صاحب نے کتوں کو انسانوں کے فتنے سے بچانے کے لئے یہ حکم بھی دیا ہے کہ تمام کتوں کی ویکسینیشن کی جائے تاکہ کتوں کے کاٹنے سے انسان مر ہی نہ  جائے یا پاگل ہوکر ہمیں  ہی نہ  کاٹ لے لیکن چھوٹے چھوٹے بچے فجر اور عشاء کے نمازی یا رات گئے گھر آنے والے شہریوں کو کتے مسلسل کاٹ رہے ہیں اور ان زخمی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک تو ان کو یہ پتہ نہیں  چلتا کہ جس کتے نے ان کو کاٹا تھا اس کو ویکسینیشن لگی تھی کہ نہیں، اس لئے کتوں کو کوئی نشان لگانے کا اہتمام ہونا چاہیے، ویکسینیشن کے بعد اور دوسرا یہ کہ ویکسینیشن والے کتے جب کاٹتے ہیں تو ان کے دانتوں سے بچوں بوڑھوں اور خواتین کو زخم آجاتے ہیں جو کئی کئی دن تک ٹھیک نہیں ہوتے اور شدید درد رہتا ہے۔۔ اس لئے براہ کرم ان کتوں کے دانتوں کے زخم سے بچنے کے لئے تمام شہریوں کو حفاظتی لباس فراہم کیا جائے، خیر مجھے تو ذاتی طور پر ویکسین کے خالص ہونے کا اعتبار بھی نہیں  اس لئے میں بائیک پر اپنے ساتھ ایک ڈنڈا  بھی رکھتا ہوں تاکہ اگر کتے حملہ کریں تو میرے پاس بھی ہتھیار ہو ان سے لڑنے کے لئے ۔

کراچی میں کتے چاہے کسی بھی نسل ،رنگ یا قوم کے ہوں ان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے ۔اور ان تمام کتوں میں بھی جھگڑا بس زر، زن اور زمین کا ہی رہتا ہے۔ یہ کتے خوراک سے بھری کچرا کنڈیوں پر قبضے کے لئے یا زن کے حصول کے لیے سارا وقت لڑتے رہتے ہیں، ان کے گروپ بنے ہوئے ہیں اور اکیلا کتا کسی دوسرے گروپ کے علاقے میں نہیں  جاسکتا، ان کتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ وہ وقت دور نہیں  کہ یہ کتے انسانوں کو صرف کاٹنے پر اکتفا کرنا چھوڑ ان انسانوں کو مکمل طور پر کھانا شروع کر دینگے ۔

کراچی کے شہری رات کو دیر سے سونے کے عادی ہیں ،اس کی ایک وجہ موسم کے ساتھ ساتھ یہ کتے بھی ہیں، کیونکہ یہ کتے رات کو اتنا بھونکتے ہیں کہ کوئی آسانی سے سو بھی نہیں  سکتا،  ویسے  نیند سولی پر بھی آجاتی ہے تو آخر کار کراچی کے چند شہری ان کتوں کے بھونکنے کے باوجود سو ہی جاتے ہیں یہی چند شہری صبح فجر کی نماز کے وقت مسجد میں بھی موجود ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر شہریوں اور کتوں کے سونے کا وقت ایک ہی ہے کیونکہ میں نے سورج نکلنے سے لیکر دوپہر تک ان کتوں کو سڑک کنارے سوتے ہی دیکھا ہے ۔

مچھروں کی افزائش کے لئے بھی خاص اہتمام ہے ،صاف اور گندہ دونوں طرح کا پانی ہر جگہ جمع رکھا جاتا ہے تاکہ مقامی اور سری لنکن عرف ڈینگی مچھر دونوں سکون سے اپنی زندگی بسر کرسکیں ۔
کراچی کا عام مچھر بھی اتنا بڑا ہے کہ  میں شروع میں سب مچھروں کو ڈینگی مچھر سمجھتا رہا، پھر بہت بڑے مچھر دیکھ کر  ڈینگی مچھر کی تفریق کرنا بھی آگیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کراچی کے مچھر اپنے بچوں کو شاید میمنوں کے گھروں میں تربیت دیتے ہیں کیونکہ یہ بہت چالاک مچھر ہوتے ہیں ،جیسا کہ کراچی کے لوگوں نے جالیاں لگا کے تقریباًٍ  اپنے گھروں کو مکمل سیل کیا ہوتا ہے حتی کہ  ویسٹ اوپن گھروں میں بھی ان جالیوں کی وجہ سے ہوا تک نہیں  اندر آپاتی ،لیکن یہ مچھر پھر بھی ہر گھر میں آزادی سے اڑتے پھرتے ہیں ۔یہ بہت نڈر مچھر ہیں اور چالاک بھی، میری قریب کی نظر کمزور ہے تو مچھر کو تالی میں صحیح سے نہیں لے پاتا اور ہر تالی کے بعد اکثر مچھر کو زمیں یا بستر پر مرا ہوا دیکھ کے دلی سکون حاصل کرتا اور اس کی لاش کو بستر سے نیچے پھینک دیتا ہوں، پھر ایک دن میں حیران رہ گیا جب واش روم میں ،مَیں نے تالی سے مچھر مارا اور اس کی لاش نیچے گر گئی یہ لاش بالکل ساکت پڑی رہی لیکن جونہی میں اٹھا تو یہ لاش اڑ گئی میں بہت حیران ہوا مچھر کی اس چالاکی پر اور پھر ہر بار یہ چیز چیک کرنا شروع کردی تو یقین کریں کہ اگر مچھر تالی میں آکرنیچے گر  جائے تو یہ زمین یا بستر پر گر کر مرنے کا ناٹک کرتا ہے اب ان نوٹنکی مچھروں کی لاشوں کو پھینکتا نہیں  بلکہ دوبارہ مارتا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply