ورزش کے فائدے اور میں۔۔عارف خٹک

میرا وزن جب 110 کا ہندسہ عبور  کرنے لگا،تو مجھے  شدید احساس ہوا کہ چل بیٹا اب چل چلاؤ کا وقت آگیا ہے۔ سیڑھیاں چڑھنے سے جان جاتی تھی۔ بلکہ “چڑھنے” والے کسی بھی کام سے اوسان خطا ہونے لگتے۔ ازدواجی زندگی تلخیوں کا شکار ہونے لگی۔ ہر ویک اینڈ پر عشاء کی نماز بڑے ہی خشوع و خضوع سے پڑھنے کا اہتمام کرتا،کہ یااللہ یا تو آج کی رات مجھے بیمار کردے یا پھر بیگم کو۔اگر بیمار نہیں کرنا چاہتے تو ہم دونوں میں سے کسی ایک کو اپنے پاس اُوپر بُلا لے۔ کیونکہ آدابِ مُباشرت اب جزا سے سزا بن گئے تھے۔

ایک دن بیگم نے پارک میں ایک صحتمند جوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا،کہ ماشاءاللہ کیا باڈی ہے بچے کی۔ بیگم کا للچایا ہوا لہجہ دیکھ کر ڈُوبتے ہوئے دل کے اندر سے کہیں آواز آئی،کہ جا خٹک اب تیری حالت چچا تلاوت خان جیسی ہونے والی ہے،کہ اب ہماری بیگم محلے کے اوباش بچوں کو سیٹیاں بجانے کا موقع دیں گی۔اور ادھر شہر میں ہماری عزت کی سیٹی بج جائے گی۔ یہ سوچتے ہوئے فرطِ جذبات میں سیدھا اپنا ہاتھ “ہولسٹر” پر گیا مگر ہولسٹر میں پستول ہوتا تو نکلتا۔

ہانپتے کانپتے ایک دن جِم جا پہنچا۔ اور اپنے ٹرینر عُمر کے سامنے رو پڑا،کہ اب میری اور میرے خاندان کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے جوان،سلم اینڈ سمارٹ بنا دیں۔اور میرے ڈولے شولے جان ابراہم جیسے کردیں،تاکہ میں دوبارہ عشق کرسکوں۔اور عشق کے بعد اصل معرکے سرانجام دے سکوں۔

ٹرینر نے پہلے دن مجھے ٹریڈ مل پر بھگایا،تو پانچ منٹ کے بعد شکایتی لہجے اور ملامتی نظروں سے دیکھ کر بولا۔کل سے بریزیئر پہن کر آنا۔ آپ کے فِگر کی اُچھل کود دوسرے ورزش کرنےوالے مردوں کو بری طرح سے ڈسٹرب کر رہی ہے۔ بغیر بند باندھے آپ کا ہوش رُبا فِگر جِم میں ہیجان خیزی کا ماحول پیدا کرے گا۔اور یہ ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔
پہلے ہی دن مجھے اتنا بھگایا گیا۔کہ اس دن صحیح معنوں میں اندازہ ہوا کہ کتے ہانپتے ہوئے زبان باہر کیوں نکالتے ہیں،کیوں کہ بیچارے کچی  زمین پر جو بھاگتے ہیں۔ سائیکلنگ کے بعد روز فرش پر پاکستانی سیاستدانوں کی طرح گرا پڑا ہوتا۔اور میرا ٹرینر میجر جنرل آصف غفور کی طرح میٹھی میٹھی دھمکیاں دے کر پھر سے بھگاتا۔

تین گھنٹے ورزش کے بعد بیگم مجھے بُھوکا سُلاتی، کہ کھانا مت کھاؤ۔ میں رو پڑتا کہ بُھوکا کیوں سلا رہی ہو؟کہنے لگتی میں بھی تو “بُھوکی” ہوں۔ کیا میں روئی ہوں؟جو آپ ٹسوؤں پہ اُتر آئے؟میرا ٹرینر عمر روز سامنے بٹھا کر باپ کی طرح نصیحتیں کرتا تھا۔ کہ تلی ہوئی چیزیں مت کھانا۔فاسٹ فوڈ کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، چینی سے بنی ہوئی چیزیں تجھ پر حرام ہیں۔ کولڈ ڈرنک موت ہے تیرے لئے اور بریانی کو دیکھ کر ہمیشہ یہ سوچنا،کہ اس میں کسی نے آپ کو مارنے واسطے زہر ڈالا ہوا ہے۔ میں تابعداری سے سر ہِلا ہِلا کر تائید کرتا۔ وہ مجھے سیٹ سے اُٹھا دیتا اور خود بریانی، زردہ اور کولڈ ڈرنکس بمعۂ چرس والی سرگٹ تناول فرماتا جاتا۔

کرکٹر انور علی میرے ساتھ ورزش کرتا تھا۔ ان کے پی سی بی ٹرینر جو ورزش اُس کو کراتے۔مُجھے بھی مُفت میں کرانی شروع کردی۔ ایک ماہ بعد میں نے انور علی سے کہا کہ آپ کو تو اس کُتا خواری کے پیسے ملتے ہیں۔ مُجھے کیا مل رہا ہے؟جو یوں آپ کے ساتھ مفت میں ذلیل وخوار ہورہا ہوں۔آگے سے جواب دیتا،لالہ “جوانی”۔ اور میرے حوصلے ایک بار پھر سےبلند ہونے لگتے۔
پانچ ماہ میں تین دفعہ دورانِ ورزش بےہوش ہوگیا۔ کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر آپ دو ہزار کیلوریز جلاتےہیں اور لیتے دو کیلوریز بھی نہیں،تو بےہوشی تو بنتی ہے۔ بالآخر ٹرینر نے تھوڑا بہت کھانے کی اجازت دے دی۔کیوں کہ اگر میں مر جاتا تو اس کو پھر ماہانہ فیس کون دیتا۔

پچھلے دنوں یورپ اور مشرق وسطٰی کے دورے پر گیا۔ سوچا اب تو 79 کلو میں بچیوں کے ساتھ دوڑیں لگاؤں گا۔ مگر وہاں بھی بیگم نے نہار مُنہ پارکوں، سڑکوں اور ہوٹل جم میں بھگایا۔ میں نے ایسی زندگی پر لعنت بھیجی۔کہ لوگ یہاں آکر کسی اور کے پیچھے بھاگتے ہیں اور میں بیوی کے ساتھ بھاگ رہا ہوں۔ اگر آپ لوگوں نے اپنا وزن کم کرانا ہے،تو بیوی کو ضرور بیرون ملک اپنے ساتھ لےکر جائیں۔لیکن اگر وزن ہلکا کرنا ہے۔تو پھر اُسے گھر پر بچوں کے پاس چھوڑ جائیں۔

آج چھ ماہ بعد میں سمال سائز کے شرٹس پہننے لگا ہوں۔ ڈولے شولے بھی بن رہے ہیں۔ پیٹ کا نام و نشان بھی نہیں رہا۔بلکہ اب تو پیٹ سیکس پیک بن رہا ہے۔ اب بیگم کو یہ اعتراض ہے کہ ہر تصویر میں مُنہ نہیں آتا۔ بلکہ پینٹ میں کچھ “نازیبا” نظر آتا ہے۔”نازیبا” پر مُسلسل تنقید سُن کر میں نے پوچھا،کہ اب آپ ہی بتاؤ کہ کیا نظر آنا چاہیے۔ الجواب بولی کہ چلو ٹھیک ہے، نظر آنے دو کہ اب میں بھی فخریہ کہہ سکتی ہوں کہ صاحبِ حیثیت ہوں۔۔۔۔۔

جس “کام” سے بچنے کےلئے میں مرنے کی دُعائیں مانگتا تھا۔اب مخالف فریق ہر روز مرنے کی دعائیں مانگتی ہیں۔ فریق مخالف تو یہاں تک آکر کہہ دیتی ہیں،کہ شرم تو نہیں آتی کہ اس عمر میں آپ کے لڑکپن کے چونچلے ہی ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ اب تیسری کر ہی لو۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ مرد بن کر سوچیں کہ ورزش کے کیا کیا فائدے ہیں۔تو جانی سن پر لعنت بھیج کر خود کو فٹ رکھنا شروع کردیں۔ اور اپنی ہی ویڈیوز بنا بناکر مزے لیتے رہیں۔ بس کوشش کریں کہ رابی پیرزادہ کی طرح اپنا فون کسی دوکاندار کو ہر گز نہ بیچیں،ورنہ عمرے کا خرچہ اضافی ہوگا۔

خواتین کو مشورہ ہے کہ ورزش سے حتی الامکان بچیں۔کیونکہ موٹاپے میں آپ کے پاس کچھ کھونے کے لئے ہے ہی نہیں۔بلکہ جن چیزوں کو ہم مرد تین تین گھنٹے مخصوص ورزش کرکے بڑھاوا دیتے ہیں۔وہ آپ لوگوں کے موٹاپے میں مُفت میں ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے کوشش کریں کہ وزن بڑھائیں۔کیوں کہ مرد ویسے بھی شیر کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔اس کو گوشت پسند ہوتا ہے۔ ویسے کچھ مرد کتے کی خصلت رکھتے ہیں ۔گوشت ان کو بھی پسند ہوتا ہے،مگر وقت گزاری کےلئے ہڈیاں چبانے کا بھی ان کا من کرتا ہے۔ سو ایسے مردوں سے بچ کر رہیں۔ ایسے مردوں کیلئے پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے۔
یہی کتے نما مرد پھر آپ کو ٹریڈ ملوں پر بھگاتے رہتے ہیں۔

آج میں لالہ عارف خٹک کا سوچتا ہوں تو میری ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ کہ کتنا منحوس مرد تھا۔دو پاؤ کے مُنہ پر تین پاؤ مونچھیں رکھ کیسے اِتراتا تھا۔ آج کل تو وہ مونچھوں کا سوچے بھی نہ۔ کیونکہ آدھے پاؤ مُنہ پر دو پاؤ مونچھیں رکھ کر اب وہ سیدھا مُنہ کے بل ہی گرے گا۔ میری محبوبہ کہتی ہے،کہ اس وزن کے ساتھ ویسے بھی آج کل مُنہ کے بل کررہے ہو۔ پوچھا جانو وہ کیسے؟شرما کر مُنہ دوسری طرف پھیر لیا۔
میری بیگم کہتی ہے کہ آج بھی عارف خٹک وہی ہے۔ میں پوچھتا ہوں وہ کیسے؟کہتی ہیں کہ پہلے شرٹ کے بٹن ناف کے پاس کُھل جاتے تھے۔ اب مُنہ زور جوانی کی وجہ سے سینے کے بٹن کُھل رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الحمداللہ وزن کم کرنے کے بعد اب اس نے مُجھے تیسری شادی کی اجازت بھی بخوشی دے دی ہے۔اس لئے خواہشمند خواتین و حضرات اپنی سی ویز بھیج دیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply