سخت سائنس، نرم سائنس (6)۔۔وہاراامباکر

“سائنسدان آجکل اس شائستہ فکشن کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام سائنس برابر ہے۔ ہر سائنسدان کا شعبہ اور طریقے ایک ہی جتنے مفید کام کرتے ہیں (سوائے کسی حریف کے، جو غلط سمت میں کام کر رہا ہے)”۔
یہ اقتباس 1964 میں “سائنس” کے جریدے میں جان پلاٹ کے آرٹیکل سے ہے۔ اور یہ “سخت” اور “نرم” سائنس کے درمیان بحث کی جھلک ہے۔ پلاٹ کا نکتہ تھا کہ سائنس کے کچھ شعبے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جبکہ کچھ دوسرے شعبے وقت ضائع کر رہے ہیں۔ انہوں نے (اور کئی دوسروں نے) فزکس، کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کو سخت سائنس قرار دیا۔ ایکولوجی، ایولیوشنری بائیولوجی، نفسیات، سوشیولوجی کو نرم سائنس۔ ان کا استدلال تھا کہ نرم سائنس میں کام کرنے والوں کو فزکس سے راہنمائی لینی چاہیے۔
پلاٹ نے اچھا نکتہ اٹھایا تھا۔ عام تاثر کے برعکس سائنس کوئی ایک شے نہیں۔ اس کا ایک طریقہ کار نہیں۔ تاہم نرم اور سخت سائنس کے بارے میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پلاٹ کا یہ دعوٰی درست ہے کہ مختلف اقسام کی سائنس میں ترقی کی رفتار فرق ہے؟ کسی حد تک ایسا ہے۔ لیکن یہ پیٹرن سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں جو نرم اور سخت کو تقسیم کر دیتی ہے۔ پارٹیکل فزکس اور مالیکیولر بائیولوجی نے بیسویں صدی میں زبردست پیشرفت کی۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ کچھ مسائل میں طویل عرصے تک پیشرفت نہیں ہو سکی۔ نیوٹن اور آئن سٹائن کے درمیان گریویٹی کے بارے میں پیشرفت نہیں ہوئی تھی۔ جنرل ریلیٹیویٹی اور کوانٹم مکینکس کی آپس میں دوستی کروانے پر ایک صدی کے قریب کی ناکامی ہے۔
آرگانزمل بائیولوجی (ایکولوجی اور ایولیوشنری بائیولوجی) کو “تقریباً نرم” سائنس سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں تیزرفتار پیشرفت کے کئی دور رہے ہیں۔ جبکہ مالیکیولر بائیولوجی میں 1953 میں ڈی این اے کا سٹرکچر معلوم کرنے کی کامیابی سائنس کا بڑا سنگِ میل ہے لیکن دوسری طرف انسانی جینوم سیکوئنسنگ کی کامیابی نے ماہرینِ حیاتیات کو توقع سے بہت ہی کم جوابات دئے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف سائنسی شعبوں میں ترقی کی رفتار مختلف رہی ہے اور ہر شعبے اور مسئلے میں کبھی تیز پیشرفت ہوتی رہی ہے اور کبھی ناکامیاں رہی ہیں جو تھیوریٹیکل (نئی انسائٹ نہ ملنا) اور ایمپیریکل (نئی دریافت نہ ہونا)، دونوں نوعیت کی ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ کئی امکانات ہو سکتے ہیں۔ زیرِ بحث مسئلے کی پیچیدگی، تحقیق کی گرانٹ کے سائز، شعبے میں کسی قدآور شخصیات کا ہونا یا اچھی قسمت ۔۔۔ سبھی کا کردار رہتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد فزکس کو پبلک فنڈنگ کا بڑا حصہ ملا۔ ضروری نہیں کہ زیادہ فنڈ کا لازمی مطلب تیزرفتار ترقی ہو (کینسر کے علاج پر سست پیشرفت اس کی مثال ہے)۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ بہتر آلات بنائے جا سکتے ہیں، بہتر دماغ اس شعبے کی طرف آ سکتے ہیں۔ یا پھر آئن سٹائن جیسی شخصیات کا فزکس میں ہونا اس شعبے کو پرکشش بنا دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسز کا ایک اور پہلو پیچیدگی ہے۔ ایک طرف پارٹیکل فزکس میں ہم سادہ ترین آبجیکٹس، ایٹم اور ان کے ذرات کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ دوسری انتہا پر بائیولوجی پیچیدہ ترین اشیا، جو اربوں خلیات پر مشتمل جانداروں یا دسیوں ہزار ویری ایبل پر مشتمل ایکوسسٹم کی سٹڈی ہے۔ ان کے درمیان میں کیمسٹری، فلکیات یا ارضیات آتے ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ فزکس میں کامیابی کی ایک وجہ اس میں پیچیدگی کے عنصر کا کم ہونا ہے۔ اس کا مطلب فزکس یا کیمسٹری میں بڑی کامیابیوں کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے۔ صرف یہ کہ ان عوامل کی وجہ سے فزکس میں اس قدر اچھی پیشرفت تعجب کی بات نہیں۔
مالیکیولر بائیولوجی میں ڈی این اے کے سٹرکچر، ڈی این اے ریپیلکیشن، جینیاتی کوڈ، خلیاتی مشینری کی گہری دریافتیں بہت زبردست کامیابی رہی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے مالیکیولر بائیولوجی جینومکس کے شعبے میں داخل ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ بہت زیادہ ڈیٹا حاصل کئے جانا اور شماریاتی طریقوں سے تجزیہ ہے۔ اور شماریاتی طریقے سے تجزیہ نرم سائنس کا خاصا سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیچیدگی کی سطح بڑھنے کے ساتھ ساتھ سائنس کا یہ شعبہ اپنی ہئیت تبدیل کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مسئلہ سائنس کرنے کے طریقہ کے بارے میں عام پائی جانے والی غلط فہمی ہے۔ ہایپوتھیسس بنایا، تجربات ڈیزائن کئے، ڈیٹا اکٹھا کیا۔ جو ہائپوتھیسز ناکام ہوئے، ان کو مسترد کر دیا اور ہمیں اچھا جواب مل گیا۔ ٹھیک؟
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ فزکس کرنے والے تو ایسا کرتے ہیں لیکن ایکولوجسٹ یا سائیکولوجسٹ وغیرہ اتنا سادہ کام نہیں کر پاتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ صرف کچھ طرح کے سوالات کے لئے کام کرتا ہے۔ اصل دنیا سادہ نہیں اور اس میں قابلِ اعتبار علم تک پہنچنے کے کئی طرح کے طریقے بنانے پڑتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی سائنسدان بھی ہیں جو واقعی میں ایسا سمجھتے ہیں کہ سائنس ایک اچھی طرح ڈیفائنڈ ایک ہی قسم کی ایکٹیویٹی ہے۔ اصولی طور پر ہر شے فزکس ہے اور اصولی طور پر کوئی “تھیوری آف ایوری تھنگ” کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ (یہ پوزیٹوسٹک فلسفے کا ایک خیال ہے)۔ سائنس کے کئی شعبے فزکس کی نظر سے سمجھے جا چکے ہیں اور ماضی کی کامیابی مستقبل کی ضامن ہے۔
ایسا کہنے کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ دنیا کا تمام علم “اصولی” طور پر فزکس تک ریڈیوس ہو سکتا ہے تو اس پر یہ سوال بنتا ہے کہ وہ کس اصول کا حوالہ دے رہے ہیں؟ فزکس سے سوشیولوجی، اکنامکس، سائیکولوجی، بائیولوجی یا دیگر سائنسز کا راستہ کیا ہے؟ (ایسا کوئی معلوم اصول نہیں ہے)۔ لیکن ہم پہلے تجزیہ کر لیں کہ ہمارے سوال کا مطلب کیا ہے۔
فرض کیجئے کہ میں آپ کو کہوں کہ اگر وقت اور ہمت ہو تو میں اصولی طور پر سب سے بڑے معلوم پرائم نمبر بتا سکتا ہوں اور ایسا کرنے سے انکار کر دوں کیونکہ یہ تیرہ ملین ہندسوں پر مشتمل ہے۔ تو میں نے جواب دینے سے انکار تو کیا اگرچہ میں عملی طور پر ایسا نہیں کر سکا لیکن تھیوری میں درست تھا۔ لیکن اگر میں آپ کو کہوں کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ لامحدود پرائم نمبر موجود ہیں۔ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ایسے کسی ثبوت کا خاکہ کیا ہو گا (ویسے، یہ ثبوت موجود ہے) اور آپکو بالکل مطمئن نہیں ہونا چاہیے، اگر میں صرف یہ کہہ دوں کہ “مجھے “اصولی” طور پر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ لامتناہی نہ ہوں”۔
اس لئے صرف کہہ دینا کافی نہیں کہ ہر شے فزکس کے عدسے تک ریڈیوس ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس نینسی کارٹ رائٹ کا تھیوری اینٹی رئیلزم یہ کہتا ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اور اگر نینسی درست ہیں تو پھر ہر سائنس ایک شے نہیں۔ اس کی ایک مثال لی سمولن نے تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے بارے میں پیش کی ہے لیکن آسان مثال ارتقا ہے جس کو فنڈامنٹل فزکس تک نہیں لے جایا جا سکتا۔ یا اکانومکس کی تھیوریوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔
کیا فوڈور، کارٹ رائٹ، لی سمولن وغیرہ اس بارے میں درست ہیں؟ پتا نہیں۔ لیکن کم از کم اس خیال پر سنجیدگی سے غور کر سکتے ہیں۔
اور اس پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ “سخت” اور “نرم” سائنسز میں سے کوئی کمتر یا برتر نہیں اور ایسا نہیں کہ اگر ماہرینِ نفسیات فزکس کے طریقے استعمال کرتے تو بہتر نتائج حاصل ہو سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیری ہیجز نے 1987 میں ایک تجزیہ کیا۔ یہ فزکس (سخت سائنس کی ملکہ) اور نفسیات (نرم سائنس کی سنڈریلا) کا مقابلہ تھا۔ کیا یہ درست ہے کہ فزکس نفسیات سے بہتر پرفارم کرتی ہے؟ اس کو دکھانے کے لئے پہلا سوال تھا کہ کس لحاظ سے بہتر؟ ہیجز نے اس کا معیار consistency رکھا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر زمین کا قطر 12700 کلومیٹر ہے تو مختلف طریقوں سے پیمائش کو اس کے قریب قریب نتیجہ دینا چاہیے۔ اگر ایک طریقے سے یہ تین ہزار کلومیٹر نکلتا ہے اور دوسرے سے ایک لاکھ تو پیمائش میں کچھ سنجیدہ مسئلہ ہے۔ (سوڈوسائنس کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر کسی کری ایشنسٹ سے زمین کی عمر کے سوال کا جواب اور اس کی وجہ پوچھنا اس کی مثال ہو گی جو بتا دے گی کہ کری ایشنزم سائنس نہیں)۔
ہیجز نے پارٹیکل فزکس اور نفسیات کے مختلف شعبوں کو لیا۔ شائع ہونے والی جرائد سے کئی سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اور نتیجہ نکالا جو حیران کن تھا۔ اگر تجربات پر دہرانے پر نتائج کی مماثلت کو معیار بنایا جائے تو ان دونوں میں خاص فرق نہیں تھا۔ فزکس کے تجربات دہرائے جانے پر ایک ہی نتائج دیتے ہیں ۔۔۔ اس خیال کو ڈیٹا کی سپورٹ حاصل نہیں۔
ہیجز نے الیکٹرون اور پروٹون کے ماس کے نتائج لئے۔ ان میں توقع کی جا سکتی تھی کہ نتائج یکساں یا قریب قریب ہوں گے۔ 60 اور 70 کی دہائی میں نتائج کا کانفیڈنس انٹرول عام طور پر اوورلیپ نہیں کرتا تھا۔ یعنی کہ نتائج ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
اس ڈیٹا کا یہ مطلب نہیں کہ فزکس میں ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ الیکٹرون یا پروٹون کا ماس کیا ہے۔ اس وقت سے اب تک بہت سے مزید تجربات ہو چکے ہیں۔ نتائج اب ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ اور ایسا نہیں تھا کہ ہیجز جن نتائج کا تجزیہ کر رہے تھے، ان میں اتنی ویری ایشن تھی کہ نیوکلئیر فزکس کے بنیادی اصولوں پر ہی شک کیا جائے۔ لیکن بنیادی نکتہ باقی ہے۔ سائنس کی ملکہ میں بھی کئی برسوں تک نتائج میں عدم مطابقت رہتی ہے اور نرم سائنس کی سنڈریلا بھی کئی بار معاملات میں بار بار دہرانے پر بالکل یکساں نتائج دیتی ہے۔ تو کیا ان میں فرق نہیں؟
نہیں۔ ابھی ہم آگے چلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر تجزیہ جارج ہاورڈ نے کر کے دکھایا کہ فزکس میں آئندہ آنے والے نتائج کی پیشگوئی اور وضاحت کی طاقت بہت زیادہ ہے اور یہ وہ چیز ہے جو نرم اور سخت سائنس کو الگ کرتی ہے۔
ہاورڈ نے یہ بھی دکھایا کہ پارٹیکل فزکس میں ہم نوے فیصد سے زائد فرق کی وضاحت تجربات میں پیمائش کے نقص کی وجہ سے کر لیتے ہیں۔ جبکہ سوشل سائنس میں نہیں۔ اور اس میں فیکٹرز “نامعلوم” رہتے ہیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جو انہیں “نرم” بناتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ پیشگوئی کی طاقت سخت سائنسز میں زیادہ ہے۔
اب سوال یہ کہ نرم سائنسز میں وضاحت کی طاقت کم کیوں ہے (یہاں موازنہ سوڈوسائنس سے نہیں، جن کی وضاحتی طاقت صفر ہے)۔ کیا اس کی وجہ انسانی ایجنسی ہے؟ جو یہ طے کر دیتی ہے؟ کیوں تجربات ہر بار دہرانے پر وہی نتائج نہیں دیتے؟
نہیں۔ یہاں پر ایک اور تصور ہے جو سائنس کے تصورات میں سے سب سے پرسرار ترین ہے۔ یہ کازیلیٹی کا تصور ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply