سب ایکتا کپور ہیں ۔۔۔ معاذ بن محمود

بارلے ممالک میں محلے داری کا تصور وہ نہیں ہوتا جو اپنے دیس میں ہوا کرتا ہے۔ اپنے ملک میں محلے میں داخل ہونے سے گھر پہنچنے تک کم از کم ایک بندہ ایسا ضرور ملتا ہے جس کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ لگائی جا سکے۔ بارلے ممالک میں وہ ایک مردِ مجاہد بھی نہیں ملتا۔ چونکہ یہی معاملہ اہل خانہ کے ساتھ بھی ہوتا ہے لہذا سارا دن گھر میں بیٹھ کر پک جانا فطری ہے۔ دوسرے الفاظ میں دفتر سے گھر پہنچنے کے بعد کھانے پینے میں، بچوں کے سکول کی دن بھر کارگزاری کا ایک ورژن بچوں کی زبان سے اور دوسرا ورژن ان کی ماں کی زبان سے سن کر اس پر محتاط تبصرہ کرنا کہ کوئی ایک بپھر نہ جائے، بھی کچھ وقت لے لیتا ہے۔ اس کے بعد کھانا پینا، کافی قہوہ وغیرہ کو پہنچنے تک بچوں کے سونے کا وقت یعنی دس بج جاتے ہے۔ اب رہ جاتے ہیں میں بیگم اور نوزائدہ میکائل۔ یہاں سے چار بجے صبح تک کا سفر ہم تینوں فلموں یا سیزنز کے سنگ گزارتے ہیں۔ بیچ بیچ میں میکائل ہمیں اپنی دندان انگیزی کا احساس دلاتا رہتا ہے کہ موصوف کے دانت نکلنے کو ہیں۔

فلمیں اور سیزنز کے لیے میرے پاس چار سبسکرپشنز تھیں۔ “تھیں” اس لیے کہ کل میں نے اپنی سبسکرپشنز پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک کو کینسل کیا ہے جس کی جملہ وجوہات آگے آئیں گی۔

میرے پاس نیٹ فلکس کا اکاؤنٹ ہے جو کبھی لاہور سے لاگ ان ہو رہا ہوتا ہے، کبھی ریاض سے، کبھی کراچی سے اور کبھی کرناٹک سے۔ میں البتہ روزانہ کی بنیاد پر ابو ظہبی سے ہی لاگ ان کرتا ہوں۔ باقی آپ اچھے سمجھدار لوگ ہیں، بھائی بندی کے اصولوں کو جانتے ہی ہوں گے۔ مزید گہرائی میں جان کاری درکار ہو تو “How I met your mother” کے شدھ خبیث کردار بارنی سٹنسن کی کتاب “Bro Code” سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ خیر بات ہورہی تھی نیٹ فلکس کی۔ نیٹ فلکس پر آڑھا ترچھا، الٹا سیدھا، نیلا پیلا سرخ بلکہ ست رنگی گویا ہر قسم کا مواد موجود ہے۔ بہت کچھ دیکھنا باقی ہے مگر کافی کچھ دیکھ بھی چکا جس میں ارطغرل وہ سیریز ہے جسے دو بار دیکھنا شروع کیا اور دونوں بار پہلی قسط میں تنگ آگیا کہ اداکاری و کہانی دیکھوں یا سب ٹائٹلز۔ تیسری بار ہمت کر کے پھر دیکھنا شروع کی، ساتویں قسط تک پہنچ کر سوچا چلو سیزن ختم ہونے والا ہوگا شاید دو تین اقساط اور ہوں مگر اقساط کی فہرست دیکھنا شروع کی تو سکرول کر کر کے انگلیاں دکھ گئیں۔ ۷۰ سے زائد اقساط؟ عینک والا جن؟

قصہ مختصر، نیٹ فلکس پر نیا کانٹینٹ کم دکھائی دینے لگا تو امیزون پرائم ویڈیوز کی سبسکرپشن لے لی۔ یہاں اچھی سیریز موجود ہیں تاہم پرائم کا اصل مسئلہ “الے پلے ناڑی ٹرنگا پنگہ ملیالم” ہے۔ جس نے ملیالم سننے کا دکھ نہیں جھیلا اس کے لیے اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ پرائم پر اکثریتی مواد بھارتی علاقائی سیریز یا فلموں پر مبنی ہے۔ البتہ کچھ بہت اچھے سیزن بھی موجود ہیں جن میں کارنیوال رو، فیملی مین، مرزاپور، جیک رائن، ھانا وغیرہ شامل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر نیٹ فلکس کے بعد پرائم کے ظالمانہ گھساؤ کے باعث اب یہاں بھی اچھی سیریز کا قحط محسوس ہونے لگا۔

او ایس این میرے پاس موجود تیسری سبسکرپشن ہے جس میں گیم آف تھرونز کے علاوہ کوئی قابل ذکر سیریز دیکھنے کو ملی نہیں مگر چونکہ گھر کے ٹی وی پر جس پر بچوں کا راج ہے، او ایس این چلتا ہے جسے ہٹایا نہیں جا سکتا، لہذا یہ ملک ریاض کو عطاء کی گئی اعزازی ڈگریوں جیسی ہے۔

ان سب کے درمیان ایک اور سبسکرپشن بھی تھی جو کئی ماہ پہلے فیس بک کے اشتہار پر کلک کرنے کے بعد لی گئی۔ یہ اشتہار اس قدر انتہاء درجے کا حدت آمیز تھا کہ میں فوراً تین ماہ کی فری سبسکرپشن لینے سے خود کو روک نہ سکا۔ یہ ایکتا کپور کی آلٹ بالاجی کی سبسکرپشن تھی۔ اس پلیٹ فارم کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں کہانی پر کم زنانی پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے کہ مالکہ خود وکھری ٹائپ کی زنانی ہیں۔ بدنام زنانہ “گندی بات”، “ٹرپل ایکس” وغیرہ جیسی بیکار کہانیوں کے درمیان یہاں سبھاش چندرہ بوز کی زندگی پر مبنی ایک شاہکار نہ سہی اچھی سیریز ضرور موجود تھی جس نے تین ماہ کے غیر استعمال شدہ ٹرائل کے بعد اگلے چند مہینے دیے گئے پیسے حلال کیے۔ آلٹ بالاجی کی سبسکرپشن بھی اس میں موجود زیادہ تر مواد کی طرح سستی ہے تاہم یہ سبسکرپشن کینسل کروانے کی وجہ یہاں موجود بیکار مواد نہیں تھا۔

جو لوگ نیٹ فلکس یا پرائم ویڈیوز سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان دونوں پلیٹ فارمز پر کسی بھی کانٹینٹ خصوصاً نئے کانٹینٹ کے آغاز میں سکپ انٹرو کا آپشن دیا جاتا ہے تاکہ صارف انٹرو کے حصے کو نظرانداز کر کے سیریز کے اصل آغاز تک پہنچ سکے۔ آلٹ بالاجی میں بھی یہ فیچر موجود ہے مگر ذرا مختلف انداز میں۔

میں بھارتی اداکاروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا۔ ایک بھارتی دوست کے توسط سے معلوم ہوا کہ ایکتا کپور ایک غیر شادی شدہ جذباتی خاتون ہیں جن کا پسندیدہ موضوع سیکس ہے۔ کم از کم آلٹ بالاجی کی حد تک یہ بات سمجھ آتی ہے۔ مزید یہ کہ ایکتا خود نمائی، خود پسندی اور نرگسیت کے چکر میں ہر چلڑ کو اداکاری کا پلیٹ فارم فراہم کر کے انہیں پیسا کمانے کا ذریعہ فراہم کرتی ہیں اور ان سے “واہ واہ” وصول کر کے اپنی نرگسی کھجلی کو مٹانے کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ آلٹ بالاجی سٹریمنگ پلیٹ فارم یہ بات بھی کنفرم کرتا ہے۔ چلو یہاں تک بھی ٹھیک ہے گو یہ کام تو ہم سوشل میڈیا پر آئے روز دیکھتے ہیں۔

آلٹ بالاجی کے ضمن میں مسئلہ یہ تھا کہ انٹرو سکپ کرنے کی آپشن اس وقت تک نہیں آتی جب تک انٹرو کے آغاز میں کریڈٹس کے دوران جلی حروف میں ایکتا کپور کا نام نہیں سامنے آجاتا۔ کم از کم لیپ ٹاپ پر ایک دو سیریز دیکھتے ہوئے میرا مشاہدہ یہی رہا۔

ایسی حرکتوں سے مجھے سب سے پہلے چیف مسخرہ ثاقب نثار ذہن میں آتا، پھر اپنے چھوٹے میاں صاحب اور پھر معذرت کے ساتھ خان صاحب۔ سب سے آخری خیال سوشل میڈیا پر مقبول بیانیہ پکڑتے پائے جانے والے کئی “معتبر” احباب کی بابت آتا۔ خیر مجھے یہ خود نمائی اس حد تک بری ضرور لگی کہ میں نے سبسکرپشن کینسل کر دی ۔

سیکرڈ گیمز کے شروعات میں ایک ڈائیلاگ تھا “کبھی کبھی تو لگتا ہے اپن ہی بھگوان ہے”۔

بس ویسے ہی۔۔ آلٹ بالاجی کے تجربے کو اپنے معاشرے کے تناظر میں دیکھتے ہوئے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

“کبھی کبھی تو لگتا ہے یہ سب ہی ایکتا کپور ہیں”۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply