مچھلی کھانے والے درخت۔۔وہاراامباکر

مچھلی کھانے والے درخت کسی فکشن کہانی کے کردار لگتے ہیں لیکن یہ اصل ہیں اور ہماری زمین پر ہی ہیں۔ شمالی امریکہ کے مغربی ساحل کے کئی جنگلوں کے درخت سالمن مچھلی کھاتے ہیں۔ اور یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہمارے سیارے پر زندگی کے تانے بانے کیسے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
جب ہم کہتے کہ یہ کہ مچھلی “کھاتے” ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ ان کے تیز پنجے ہیں یا اپنی نوکیلے دانتوں والے منہ کے ساتھ یہ پانی سے سالمن نکال کر چباتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ درخت اپنی غذائیت کا بڑا حصہ مچھلیوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ ایسا اس لئے کر سکتے ہیں کہ تیز پنجوں اور نوکیلے دانتوں والے ریچھ پانی سے سالمن نکال کر چباتے ہیں۔
جب سالمن مچھلی نے انڈے دینے ہوں تو یہ سمندر سے دریاوٗں اور ندیوں سے ہوتے ہوئے ان جگہوں پر پہنچتی ہیں جہاں پر انڈے دے سکیں۔  اور یہاں پر ریچھوں کی پارٹی ہو جات ہے۔ یہ اپنے سردیوں میں سونے کی تیاری کے لئے خوراک کھا رہے ہوتے ہیں اور یہ مچھلیاں ان کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ لیکن ریچھ ان کو کھاتے وقت بڑا گند مچاتے ہیں۔ دو مہینوں میں ایک ندی میں یہ مچھلیوں کی پانچ ٹن باقیات جنگل میں پھینک دیتے ہیں۔ اور ان باقیات میں وہ شے ہے جن کی ان درختوں کو اشد ضرورت ہے۔ نائیٹروجن۔
ہر جاندار کی طرح پودوں کو بڑھنے کیلئے مختلف غذائی اجزا کی ضرورت ہے۔ جس علاقے میں جو جزو کم سپلائی میں ہو، اس کو limiting nutrient کہا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ کے مغربی ساحل میں یہ لمٹنگ نیوٹرنٹ عام طور پر نائیٹروجن ہے۔ مچھلی کی لاشوں میں نائیٹروجن بہت پایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں کام کرنے والے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ درخت ان ریچھوں کے چھوڑے ہوئے کچرے کو “کھا” جاتے ہیں۔ ایک بار سالمن گل سڑ جائے اور اس کے اجزا مٹی میں مل جائیں تو اس کو درخت استعمال کر لیتے ہیں۔
اس خیال کو ثابت کیسے کیا جائے؟ اس کے لئے نائیٹروجن کا پیچھا کرنے کی ضرورت تھی۔ تمام نائیٹروجن ایک جیسی نہیں۔ کچھ میں نیوٹرون کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ سات اور آٹھ نیوٹرون والی نائیٹروجن مستحکم ہے۔ یعنی اس کے دو مستحکم آئیسوٹوپ ہیں۔ زمین پر 99 فیصد نائیٹروجن سات نیوٹرون والی ہے جو نائیٹروجن 14 ہے۔ لیکن سالمن میں نائیٹروجن 15 کی شرح غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر سالمن اپنی تقریبا تمام زندگی سمندر میں گزارتی ہیں۔ سمندر میں ہونے والی کیمائی اور بائیولوجیکل پراسس کی وجہ سے یہاں پر نائیٹروجن 15 کی مقدار زمین سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سالمن غذائی زنجیر میں کافی اوپر ہے۔ جاندار نائیٹروجن آئسوٹوپ کو معمولی سے مختلف طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ بائیوکیمسٹری کے کچھ نرالے پراسسز کی وجہ سے، جن کو ہم پوری طرح نہیں سمجھتے، نائیٹروجن 14 کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ فوڈ چین میں جتنا اوپر جاتے جائیں، نائیٹروجن 15 غذا میں اتنی ہی زیادہ مقدار میں ہو گی اور نتیجہ جسم میں۔
نوے کی دہائی میں محققین کو معلوم ہوا کہ الاسکا میں سالمن کی گزرگاہوں کے قریب درختوں میں نائیٹروجن 15 غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ دریا کی سالمن کسی ذریعے سے درختوں تک پہنچ رہی تھی۔ اور صرف یہی نہیں۔ جب ایک درخت کے تنے کے دائرے دیکھے جائیں تو سالانہ پڑنے والی ہر تہہ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مچھلیاں درختوں کے لئے کتنی اہم ہیں۔ جن سالوں میں مچھلیاں زیادہ آئی تھیں، ان برسوں میں دائرے زیادہ بڑے تھے جن میں نائیٹروجن زیادہ تھی۔ اور جن درختوں نے سالمن سے غذائیت اخذ کی تھی، ان کے بڑھنے کی رفتار انیس فیصد تک زیادہ تھی۔
یعنی اگر آپ ایک درخت ہیں جو قدآور ہونے کے خواہشمند ہیں، تو مچھلی بلاناغہ کھائیں۔
اور اگر آپ ایک انسان ہیں تو مچھلی کھانے کے علاوہ مچھلی، ریچھ اور جنگل کے اس جال کے ہی نہیں، بلکہ ایکولوجی میں ایسے قسم قسم کے تعلقات کے بارے میں پڑھ بھی سکتے ہیں۔

اس پر پڑھنے کیلئے
https://fishbio.com/field-notes/the-fish-report/whos-eating-trees-eat-fish

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اس ویڈیو سے
https://youtu.be/BpYc3BXXrXw

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply