• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیکولر جمہوریت کے حق میں آخوند خراسانی کے دلائل ( دوم،آخری حصّہ) – – – صدیق اکبر نقوی

سیکولر جمہوریت کے حق میں آخوند خراسانی کے دلائل ( دوم،آخری حصّہ) – – – صدیق اکبر نقوی

15. دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور کسی کو آپ علما  پر اور آپ کے مذہب پر اس وجہ سے اعتراض نہیں ہوتا کہ اس کی بیماری کا علاج نہیں کر سکے۔ اس لیے کہ آپ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آپ کا مذہب بیماریوں سے شفاء کا ذمہ دار ہے، اور مریضوں کا علاج کرنا آپ علمائے دین کے فرائض میں سے ہے۔ اب اگر آپ اپنے دین اور علما  کی عظمت میں اضافہ کرنے کے لیے ایسا دعویٰ کرتے ہیں تو آپ اپنے دین اور اپنے آپ پر بہت بھاری بوجھ ڈالیں گے اور تمام لاعلاج بیماریوں کی ذمہ داری آپ پر اور آپ کے مذہب پر عائد ہوگی۔ یہی حال سیاست کا بھی ہے۔ ہم سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم لوگوں کے تمام دنیوی امور کو منظم طریقے سے انجام دینے کے لیے بہترین لائحہ عمل پیش کریں اور خود اس منصوبے پر عمل کروانے والے ہوں ،اور ان کے تمام سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کو حل کریں۔ ان کو ہم سے صرف یہ امید ہے کہ ہم مخلوقِ  خدا کے مصائب و مشکلات اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، بدعنوانی اور لوٹ گھسوٹ کے معاملے میں غیر جانبدار نہ رہیں۔

16. یہ نظریہ کہ اگر علما  میں سے کوئی ایک حکومت کا سربراہ بن جائے تو دنیا کے حالات بہتر ہو جائیں گے، وہی افلاطون کا نظریہ ہے جو یہ کہتا تھا کہ مدینہ فاضلہ ( Utopia ) قائم کرنے کے لیے فلسفی کو بادشاہ ہونا چاہیے تاکہ ہر عیب سے پاک معاشرہ بنا سکے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق جب تک اقتدار بغیر کسی نقص کے امامِ معصوم کے ہاتھ میں ہو اور اسے اپنے ارادے کو نافذ کرنے میں مزاحمت کا سامنا نہ ہو، تبھی مثالی معاشرہ قائم کرنا ممکن ہے۔ لہذا معاشرے کے حالات کی اصلاح علمائے کرام کے محض قیادت کو قبول کرنے سے ممکن نہیں ہے اور اگر یہ کام ممکن ہوتا تو امام صادق علیہ السلام کو جب حکومت کی سرپرستی کرنے کی پیشکش کی گئی تو وہ اس کو رد نہ کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب ابو مسلم خراسانی نے امام صادق علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ امت اسلامیہ کی قیادت کو قبول فرمائیں اور اجازت دیں کہ آپ کی قیادت میں اسلامی حکومت بنائی جائے تو آپ نے فرمایا: «ما أنت من رجالی ولا الزمان زمانی» نہ تم میرے لوگ ہو اور نہ ہی یہ وقت میرا وقت ہے۔ امام علیہ السلام نے حکومت کی کرسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے خدا کے بندوں کی تعلیم اور رہنمائی کے ذریعے، جہاں تک ممکن ہو سکا، عوام کی علمی سطح کو بلند کرنے کے عظیم اقدمات اٹھانے کو ترجیح دی، تاکہ انتظامی حالت اور سماجی نظام میں بہتری لائی جا سکے۔

17. ہمیں اپنی پوری تاریخِ مرجعیت میں سیاست کی دنیا میں غلط فیصلے کرنے کے دو متوازی طریقوں کا سامنا رہا ہے۔ ایک افراطی (ضرورت سے زیادہ مداخلت) اور دوسرا تفریطی (ضرورت سے کم مداخلت)۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ «لاتری الجاهل إلا مفرطاً أو مفرطا»، آپ جاہل کو افراط یا تفریط کے علاوہ کسی حالت میں نہیں پائیں گے۔ مثال کے طور پر غور کریں کہ سو سال پہلے ہمیں ظلم کا مقابلہ کرنے اور کرپشن کو کم کرنے کے لئے جو کہ ہمارے معاشرے میں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی تھی، جدوجہد کرنا چاہیے تھی، اور اپنے معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ کوشش کرنی چاہیے تھی۔ قوم کی اصلاح و ترقی کے لئے اہم اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور ان اہداف کی خاطر سنجیدہ قدم اٹھانے کے بجائے (1804ء میں) ہم نے طاقتور زارِ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا اور اس کے باوجود کہ ہمیں ایک بار سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے سبق نہیں سیکھا اور دوسری بار (1826ء میں) وہی غلطی دہرائی۔ اگرچہ ایسے حالات بھی پیش آئے کہ جب روسی دوسرے علاقوں میں اپنی مشکلات میں پھنسے ہونے کی وجہ سے بہتر شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کو تیار تھے، لیکن ہم نے ایسے نہیں کیا یہاں تک کہ روسیوں کو ان کی دیگر پریشانیوں سے چھٹکارا مل گیا۔ پھر وہ پوری طرح دل و جان سے ہمارے سامنے آئے اور پوری طاقت سے ہم پر حملہ کیا اور ہمیں اتنی بڑی شکست دی کہ ہمارے ملک کے بیس وسیع اضلاع  اپنے قبضے میں لے لئے اور اس جنگ کے بھاری تاوان اور نقصان کا بوجھ ہم پر ڈال دیا اور ہمیں اپنے قونصل خانے کے فیصلوں کا پابند بنا دیا۔ خدا ہی جانتا ہے اس جنگ کی دوسری آفتوں سے ہم کب چھٹکارا پائیں گے۔ اس کے علاوہ اس تباہ کن شکست کی وجہ سے ہمارے علما  جیسے آغا سید محمد (عرف سید مجاہد)، ملا احمد نراقی اور ملا محمد تقی برغانی شدید تنقید کا نشانہ بنے اور بعض اوقات ان کی توہین کی گئی۔ تاہم ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم نے انتہائی خراب داخلی صورت حال کو سدھارنے کی کوشش کرنے کے بجائے دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک کا مقابلہ دنیا کی سب سے کرپٹ اور سب سے کمزور حکومت کی قیادت اور سرپرستی میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور لوگوں میں جنگ کا شوق پیدا کرنے کے لیے، فقہ آل محمد (ص)، معصومین (ع) اور قرآن کریم کے نام پر ہم نے یقینی فتح کا وعدہ دے دیا۔ شکست کے بعد دوست و دشمن کے اعتراضات کا ایک سیلاب ہماری طرف بہہ نکلا کہ ان یقینی وعدوں کے پورا ہونے کے بجائے، وہ بھی خدا، پیغمبر اور آئمہ کے نام سے دیئے گئے وعدے، ہمیں ایسی ذلت آمیز شکست اور عبرتناک نتائج کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟

18. شیعہ مذہب کی بقا و دوام کا سب سے اہم عنصر جو اس مکتب کو دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز کرتا ہے، اجتہاد ہے۔ اگرچہ یہ صرف اجتہاد نہیں بلکہ اجتہاد مطلق ہے، کیونکہ چاروں سنی مذاہب میں سے ہر ایک کے پیرو فقہاء بھی اجتہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اجتہاد ان حدود میں ہوتا ہے جن کا تعین اس فرقے کے رہنما نے کیا ہوتا ہے، نہ کہ بصورت مطلق۔ مثال کے طور پر حنفی مسلک کا اجتہاد اور طریقہ ابو حنیفہ کے اجتہاد اور مسلک تک محدود ہے، آزادانہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اہل تشیع کے برعکس سنیوں میں آزادانہ سوچ و فکر کرنا اور اجتہاد کیوں نہیں؟ اور ان کے درمیان باب اجتہاد اپنے حقیقی معنی میں بند کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب حکومتیں سنی مذاہب کی سرپرست بنیں تو وہ اجتہاد اور آزاد فکر سے خوفزدہ تھیں اور اسے اپنے حکومتی مفادات اور مصلحتوں کے منافی سمجھتی تھیں تو انہوں نے اجتہاد کا دائرہ تنگ کر دیا اور آزادنہ فکر کرنے کو حرام قرار دیا اور سب کو پابند کیا کہ وہ اپنے اجتہاد و فکر کرنے کے دائرے کو چار اماموں میں سے ایک کے اجتہاد و فکر کے مطابق انجام دیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے بھی اپنے پاس وسیع حکومتی اختیار کے بغیر، جہاں بھی ضرورت پڑی اور جس حد تک ان کے پاس طاقت اور سہولت تھی، اپنے مخالفین اور اپنی ہی صنف (علما  و فقہاء) کے افراد کی آزادانہ سوچ اور اظہار رائے کو روکا ہے۔ اور اکثر اوقات انہوں نے کوشش کی کہ جو بھی ہمارے نظریات، بلکہ ہمارے مفادات، کے خلاف کوئی بات کہے تو اس کا منہ بند کر دیں اگرچہ وہ علم و تقوی کی کسی بھی سطح کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔ اس مقصد کی خاطر ہمارے علما  بھی بارہا اپنے ہی مسلک کے بعض علما  کو کافر اور فاسق قرار دینے کی حد تک گئے ہیں اور ان اقدامات اور طریقوں سے ہم نے اپنے دین و فقہ کو علمی لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان المناک واقعات کو روکنے کے لیے جتنی بھی توانائی و سہولت ہمیں میسر ہے، اسے بروئے کار لا کر ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ جن سے کوئی بھی رکاوٹ و پابندی اجتہاد اور آزادئ فکر کی راہ میں حائل نہ ہو۔ اس طرح کے اقدامات کرنے کے بجائے ملاؤں کی حکومت بنا کر اقتدار و اختیارات کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوشش کرنا اور جو طاقت اس وقت ہمارے پاس ہےاس کو کئی گنا مزید بڑھانا غیر معقول ہے۔ چونکہ اس طرح کرنے سے ایسے ناخوشگوار واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور اس کے منفی نتائج ہمارا اور ہمارے مکتب کا دامن پکڑ لے لیں گے۔ اور جو کچھ ہم بنارہے ہیں اسے اپنے ہاتھوں سے خود ہی تباہ کر دیں گے۔

19. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام لوگوں کے لیے مجھ تک پہنچنا کسی اور تک پہنچنے کی نسبت آسان ہے۔ جو کوئی مجھے خط لکھے اور نجف بھیج دے وہ خط مجھ تک پہنچ جا تا ہے۔ جو بھی نجف میں آئے وہ کسی بھی وقت مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اگر میں گھر پر ہوں تو وہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آ سکتا ہے اور اگر میں مدرسہ، مسجد یا حرم میں ہوں تو مجھ تک پہنچنا اور بھی آسان ہے۔ نہ کوئی دروازہ اور نہ کوئی کنڈی، نہ کوئی دربان، نہ کوئی محافظ، نہ کوئی پیشگی اجازت اور طے شدہ ملاقات، مختصر یہ کہ کوئی بھی مجھ سے کسی بھی صورت حال میں رابطہ کر سکتا ہے اور کوئی بھی مسئلہ یا مشکل بیان کر سکتا ہے۔ اب اگر میں ایک حکمران کی جگہ لے لوں تو مجھ تک پہنچنا اور مجھ سے ملنا اور بات کرنا کسی اور تک پہنچنے اور اس سے ملنے اور بات کرنے سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اس سے میرے اور معاشرے کے بیچ ایک پردہ حائل ہو جائے گا۔

20. اگر ہم حکومت پر قبضہ کرنا چاہیں تو حتماً ان سیاستدانوں کو دبانا ہوگا جو ظلم سے نجات اور قومی حکومت کے نعرے کے ساتھ ظلم کے خلاف جدوجہد میں ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کو دبانے کا بلاشبہ عوام پر برا اثر پڑےگا اور کہا جائے گا دیکھا! مذہبی رہنماؤں نے آمرانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران سیاست دانوں اور قومی لیڈروں کی حمایت و نظریات کا استعمال کیا اور جب اقتدار میں آگئے تو اب مکمل اقتدار اور سب اختیارات پر قبضہ کرنے اور مطلق العنان حکومت اور ظلم کو ایک نئی شکل میں باقی رکھنے کے لیے انہوں نے سیاست دانوں اور قومی شخصیات کو دبا دیا ہے۔ یعنی کہ جو کچھ خلیفہ سفاح نے ابو سلمہ اور سفاح کے بھائی منصور نے ابو مسلم کے ساتھ کیا۔

21. ہمارے شیخ (شیخ انصاری) علمائے دین کی حکمرانی کو قبول نہیں کرتے، وہ اس کام ( علما  کے حکومت کرنے یا بنانے ) سے متعلق دلائل میں علمی طور پر ناقابل حل اعتراضات کو مد نظر رکھنے کے علاوہ یہ بھی جانتے تھے کہ حکومتی عہدے خوا مخواہ ایسے امور کا باعث بنتے ہیں جن کے نتائج فقیہ کے تقویٰ اور عدالت اور فقیہ کی فقاھت و اجتہاد کے لئے بھی خطرناک ہوتے ہیں، اس لیے وہ فقہاء کی حکومت کے خلاف تھے۔ (ختم شد)

Advertisements
julia rana solicitors london

مأخذ: «دیدگاه‌های آخوند خراسانی و شاگردانش»، مصنف اکبر ثبوت، فصل اول.

Facebook Comments

صدیق اکبر نقوی
عن عباد بن عبداللہ قال علی انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر (سنن ابن ماجہ، ١٢٠)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply