غزل پلس(3)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیمیا گر نے مجھے جِھڑکا ، کہا ، گھر جاؤ
کچا لوہا کہاں بنتا ہے طلا ، گھر جاؤ

سرد تاریکی میں کیوں پھرتے ہو یوں آوارہ
دھوپ پہنا کے مجھے شب نے کہا، گھر جاؤ

قطرہ قطرہ مِری آنکھوں سے نچڑتا گیا درد
اور ہر قطرہ مجھے کہتا رہا ، گھر جاؤ

“روشنی روشنی” چِلّانے سے کب لوٹے گا
چاند گنگا میں کہیں ڈوب گیا ، گھر جاؤ

میں نے مئے  خانے میں غالبؔ سے کہا ڈرتے ہوئے
نشے سے غم نہیں مٹتا ہے ، چچا! گھر جاؤ

کیوں نُکیرین نے دھیرے سے یہ سمجھایا مجھے؟
زیست اک کھیل ہی تھا، ختم ہوا، گھر جاؤ

میلا توختم ہوا، لوگ گھروں کو ہیں رواں
دھول پھانکو گی یہاں رُک کے؟ بُوآ، گھر جاؤ

ہونگے صحرا میں بھٹکتے ہوئے  سواروں کو
چار اطراف سے آتی ہے صدا، گھر جاؤ

شعر بے روح ہیں،شاعر ہیں سبھی درماندہ
بزم برخاست ہوئی، بارے خدا، گھر جاؤ

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھ آنندؔ ! یہ پھاٹکــ نہیں کُھلنے والا
لوٹ آئے گی تمھاری یہ دعا، گھر جاؤ!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply