تتھاگت نظم (12)………. تین چوتھائی ہمارا مغز پوشیدہ ہے بھکشو

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند –

تتھاگت نظم (12)……….تین چوتھائی ہمارا مغز پوشیدہ ہے بھکشو

’’یاد کیا رہتا ہے مجھ کو؟ آپ نے پوچھا تھا اک دن
اور میں کوئی تسّلی بخش اُتّر* دے نہیں پایا تھا اس کا
دھیان میں ڈوبے ہوئے بیٹھے تھے، جب
آنند نے اس گفتگو کو
پھر سے چھیڑا جو کبھی آدھی ادھوری رہ گئی تھی۔

’’ہاں بتاؤ، یاد کیا کچھ ہے تمہیں بچپن، لڑکپن
کا، تمہارے سَنگھ میں آنے سے پہلے
زندگی کا؟‘‘

’’جی تتھا گت!
پیڑ سے اک بار گرنا اور ہفتوں تک مُڑی ایڑی پہ چلنا یاد ہے
شہد کے چھتّے پر پتھر مار کر اس کو گرانا یاد ہے
مکھّیوں نے جو مری دُرگت بنائی تھی
مجھے ڈنکوں سے اپنے چھید کر!
وہ درد، سُوجن۔۔۔بھولنا تو جیسے نا ممکن ہے اب تک!
باپ کا مرنا بھی مجھ کو یاد ہے جیسے کہ کل کی بات ہو
بان کی ایک چارپائی پر پڑی وہ لاش اُن کی
تیرتی رہتی ہے یادوں میں، تتھا گت!

بُدھّ آنکھیں میچ کر سنتے ہوئے بولے
’’کہو، کچھ اور بھی یادیں تو ہوں گی!‘‘

’’ہاں، تتھا گت، پر یہ سب یادیں ادھوری رہ گئی ہیں!‘‘

’’اس لیے شاید کہ ان یادوں میں کوئی درد یا افسوس
کا عنصر نہیں ہے!‘‘ بُدھّ بولے

’یہ بھی ممکن ہے، تتھا گت!‘‘ سر جھکا کر دھیرے سے آنند بولا

’’سوچنا، یادوں کو اپنی سوچ کا حصہ بنانا
اور ان یادوں کو اپنے ذہن میں ساکار* کرنا
اور ان سب لمحوں کو پھر اک بار جینا
اک یہی تو بات حیوانوں سے ہم کو مختلف رکھتی ہے، بھکشو!‘‘

’’جانور؟ کیسے تتھا گت؟‘‘

’’جانور کب سوچتے ہیں؟
اُن کے عادات و خصائل اُن کو ورثے میں ملے ہیں
گھاس چرنا، پتے کھانا
نسل کو آگے بڑھانے کے لیے *سمبھوگ کرنا
یہ سبھی باتیں تو ان کی نسل یا شجرے میں ہیں، آنند بھکشو!‘‘

چُپ رہے کچھ دیر گوتم بُدھّ۔۔۔کہا پھر سوچ کرکچھ
’’یہ سبھی یادیں تو بھکشو، صرف سوچوں کا ثمر ہیں
اور یہ تحفہ فقط اک نسلِ آدم کو ملا ہے
اور پھر آنند بھکشو
’آدی مانو‘ *سے چلیں تو
آج ا س زنجیر میں لاکھوں نئی کڑیا ں جُڑی ہیں
فاصلوں کو پاٹنے کے واسطے پہیّہ بہت لازم ہے، بھکشو
پہیئے کی ایجاد سب سے اہم تھی اپنے زمانے میں
اسی نے راستے کم کر دیے ہیں
ہر نئی پِیڑھی بڑھاتی جا رہی ہے
نت نئی ایجاد کے یہ سلسلے …
آنند بھکشو، کون جانے
کل کلاں انسان بھی اُڑنے لگے
اپنی کسی ایجاد کے بُوتے پہ….لیکن…‘‘

سادہ دل آنند ایسا منہمک تھا
بُدھّ جب چُپ ہو گئے تو جیسے اس کو یاد آیا
’’ہاں، تتھا گت
ساری پورانِک *کتھاؤں میں تو اکثر
دیوتا اُڑتے دکھائے ہی گئے ہیں!‘‘

بُدھّ جیسے مسکرائے
یا لگا آنند کو … وہ مسکرائے
اور بولے، ’’میرا منشا یہ نہیں تھا
میں تو ایجادوں کی بابت کہہ رہا تھا
…اور اب اک بات جو بے حد ضروری ہے
سنو، آنند بھکشو!‘‘

’’جی تتھا گت!‘‘

’’اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو
ماپ کر دیکھو تو شاید
چھہ گرہ سے کچھ زیادہ
اس کی اونچائی تمہیں محسوس ہو گی
اب تمہیں میں یہ بتانے جا رہا ہوں
گول گنبد کی طرح گردن پہ رکھے
چھہ گرہ اونچے تمہارے سر میں، بھکشو
سوچ کا محور ہے جو، وہ گوشت کا اک لوتھڑا ہے
یہ تمہارا مغز ہے آنند بھکشو، جس میں
ساری یادیں، پہلے دن سے آج تک کی
گیا ن اور وگیان، درشن* وہ سبھی کچھ
جو تمہاری یاد کی بنیاد ہے ، موجود بھی ، بیدار بھی ہے۔
وہ جسے تم کام میں لاتے ہوروزانہ، مگر ….‘‘

پھر ذرا سی دیر کو جب رک گئے تو کچھ جھجک کر
دھیمے سُر میں کہنے ہی والا تھا کچھ آنند، لیکن
بُدھّ بولے

’’گوشت کے اس لوتھڑے کا ایک حصہ وہ بھی ہے، جو
نوّے فی صد تک کلیتاً بیکار
خوابیدہ پڑ ا ہے ، جیسے گہری نیند میں ڈوبا ہوا ہو
آج تک شاید کسی انسان نے اس کو …یا اس کے
ایک معمولی سے حصے کو جگایا ہو تو ہو
لیکن یہ حصہ، مغز کا
جو ابتدا سے آج تک سویا ہوا ہے
جانے کب جاگے گا، اپنی بے پناہ طاقت کو اپنے ساتھ لے کر!
اور جب یہ جاگ جائے گا، تو بھکشو
سارے انساں
مغز کی اُن بھولی بسری طاقتوں سے لیس ہوں گے
آج جن کا علم بھی ہم کو نہیں ہے
یاد رکھو، تین چوتھائی ہمار مغز پوشیدہ ہے ہم سے!‘‘

’’ہاں، تتھا گت، بات تو سچی ہے، لیکن
جب یہ حصہ جاگ جائے گا، تو کیا ہم
ایسے بدلیں گے کہ آدم جات سے ہم
اور اونچے، اور اونچے، اور اونچے ….
ہوتے جائیں گے، تو پھرکیا
دیوتا بن جائیں گے ہم ؟‘‘

’’دیوتا بننا ضروری تو نہیں ہے
ہم اگر خوابیدہ حصے کو کبھی بیدار کر لیں
اور پھر اُن شکتیوں سے جو ہمیں اُس سے ملیں گی
اچھے کاموں کے بجائے
ہم بُرے, بیکار کاموں میں لگائیں
تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے، تب
آج کے انسان کی پدوی سے بھی گر جائیں گے ہم! ‘’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’

Advertisements
julia rana solicitors london

مشکل ہندی الفاظ کے معانی
دھیان ۔ بدھ مت کا خصوصی معنی۔ استغراق..
سمبھوگ : بمعنی جنسی فعل
! ‘ اُٹر۔ (اُت ت ر) بمعنی جواب
. سا کار ۔ بمعنی متصور
.. ( ’آدی مانو‘ : بمعنی بن مانس)
. (گیان۔ (علم) ؍ وگیان ۔( سائنس) ؍ درشن ۔( فلسفہ)
پدوی۔بمعنی حیثیت
…………………………………………………………………………

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply