خیال جناں۔۔عارف خٹک

وہ بے چینی سے اپنی انگلیاں چٹخانے لگیں۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اندرونی طور پر شدید بے چینی کی شکار ہے۔ پارک میں کچھ بچے فٹ بال کیساتھ کھیل رہے تھے۔ یہ روز کا معمول تھا۔ چار ماہ میں پہلی بار پارک کے زنگ آلود بینچ پر بیٹھ کر اس کو شور مچاتے بچے زہر لگ رہے تھے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھ کر سب بچوں کو پارک سے باہر بھگا دے۔ اس نے ایک دفعہ پھر اپنی کلائی پر بندھی سنہری گھڑی میں وقت دیکھا۔ پانچ بج رہے تھے۔ سردیوں کے دن تھے لہذا شام کا اندھیرا تھوڑی دیر میں پھیلنے کا الگ خدشہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“صائم اتنی دیر کیوں لگا رہا ہے؟”۔ وہ بڑبڑاتے لگی۔
چار مہینے میں پہلی بار صائم نے اس کو انتظار کی سولی پر لٹکا کر رکھا تھا۔ ورنہ روز وہ چار بجے سے پہلے اسی بینچ پر بیٹھا اس کا استقبال کرتا تھا۔ چار ماہ پہلے صائم میمونہ کو یہیں  ملا تھا۔ سنہرے بال، خوبصورت نیلی آنکھوں والا صائم پہلی ملاقات میں بے تکلفی سے اس کیساتھ بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ اتنی اچانک سے میمونہ کے پاس بیٹھ گیا کہ میمونہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ صائم نے انگلش میں “ہیلو” کہا۔ “میرا نام صائم خان ہے۔ اس شہر میں ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں آیا ہوں۔ نہ کوئی جاننے والا ہے نہ رشتہ دار۔ یہاں آیا۔ آپ کو دیکھا۔ اچھی لگی سوچا آپ سے دو باتیں کرلوں”۔ وہ حیرت سے منہ کھلے حسن کے اس پیکر کو یک ٹک دیکھتی جارہی تھی۔ صائم کی نیلی آنکھوں نے گویا اس کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ میمونہ نے پہلی بار اتنے وجیہہ مرد کو دیکھا تھا بلکہ بچپن سے انگلینڈ میں رہتے رہتے نیلی آنکھیں اس کیلئے اتنی پرکشش بھی نہیں رہیں تھیں۔ کیونکہ وہاں سو میں سے نوے انگریزوں کی آنکھیں نیلی ہی ہوتی ہیں۔ میمونہ کو اس کا بے باک انداز اور حد سے زیادہ خوداعتمادی حیران کئے جارہی تھی۔ صائم نے بت بنی میمونہ کو دیکھا تو بینچ سے ایکدم کھڑا ہوگیا۔ “مجھ سے دوستی کروگی؟”۔ اس مرد نے گویا میمونہ کو کچھ نہ سمجھنے کے قابل نہ چھوڑنے کی قسم کھائی تھی۔ اپنا دایاں ہاتھ بڑھا کر اس نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا۔ “ویسے بدقسمتی سے چار بھائیوں میں سب سے زیادہ شریف نفس میں ہی ہوں”۔ میمونہ بے ساختگی سے مسکرا اٹھی۔ “آپ اپنا علاج کیوں نہیں کراتے؟”۔ میمونہ نے صائم کا بڑھا ہوا ہاتھ نظرانداز کرتے ہوئے اس سے سوال پوچھا۔ وہ خفت سے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے وہی ناکام مصافحے والا نظرانداز ہاتھ بالوں پر پھیرنے لگا۔ “اس لئے تو دوستی کرنا چاہتا ہوں کہ کسی اچھے معالج کا پتہ ہی بتا سکو”۔
روز دونوں کی ملاقاتیں اب معمول کی ملاقاتوں سے بڑھ کر جیسے دونوں کے فرائض میں شامل ہوگیا اور ایک دن صائم نے بتایا کہ وہ چھٹیوں پر اپنے شہر جارہا ہے۔ میمونہ کو لگا جیسے وہ دوبارہ صائم کو نہیں دیکھ سکے گی۔ وہ بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے جیسے اپنے تاثرات اس سے چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ “کتنے دن کیلئے جاؤگے؟”۔ میمونہ کے لہجے میں ڈر نمایاں تھا۔ “پندرہ دن کیلئے”۔ صائم نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے جواب دیا۔ میمونہ اپنی انگلیاں مروڑنے لگی اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ کہ وہ کیسے صائم سے کہے ‘کہ مت جاؤ۔۔۔۔ اس شہر میں اس کی بھی کوئی سہیلی نہیں ہے۔ وہ کس سے باتیں کرے  گی’۔ صائم کہنے لگا۔ “میری بہن سعودی عرب سے آرہی ہے۔ اماں ابا کے انتقال کے بعد ہم چاروں بھائیوں کے ہر مسئلے کو وہی دیکھتی ہیں۔ میری بہن کل آرہی ہیں۔ مجھے اس کو دیکھنا ہے”۔ میمونہ نے بیتابی سے اپنا چہرہ صائم کے قریب کیا۔ “کیا باجی کو آپ یہاں نہیں بلا سکتے؟”۔ صائم حیرت سے میمونہ کا منہ دیکھنے لگا۔ وہ بیچارگی سے کسمسانے لگی۔ بالآخر صائم نے قہقہہ لگاکر پوچھا۔ “باجی کو کہاں رکھوں گا۔ خود تو بیچلر ہاسٹل میں رہتا ہوں”۔ میمونہ نے امید افزا نظروں سے صائم کو دیکھا اور اس کی مشکل کو آسان کرتے ہوئے کہنے لگی۔ ‘میرے گھر میں میرے اور مما کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ باجی کو ہمارے پاس چھوڑ دیجیئے۔ روز آپ ان سے ملنے آیا کریں”۔ صائم حیرت و استعجاب سے اس کا منہ دیکھنے لگا۔
وہ بے چینی سے بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بے تابی سے گھڑی کو دیکھا۔ چھ بج گئے تھے۔ ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ اس نے اپنی  اونی ٹوپی  سر پر اوڑھی۔ اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔ ایسا کبھی ہوا نہیں تھا کہ صائم نے اس کو اتنا انتظار کروایا ہو۔ اس نے بے چینی سے موبائل فون نکالا۔
صائم نے کام کا بہانہ بناکر اپنی چھٹیاں کینسل کرڈالیں۔ میمونہ نے فرط جذبات میں آکر صائم کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ حیرت سے میمونہ کو تکنے لگا۔ میمونہ نے شرما کر اس کا ہاتھ جلدی میں چھوڑ دیا۔ وہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ سی تھی۔ اگلے پل صائم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “ہم پشتون ایک دفعہ دوستی کا ہاتھ پکڑیں تو مرتے دم تک نہیں چھوڑتے۔ یہ روایت صدیوں سے ہماری پہچان رہی ہے”۔ وہ حیرت سے صائم کا چہرہ دیکھنے لگی۔ “یہ ہاتھ اب مرتے دم تک تھامے رکھنا مجھ پر فرض ہوچکا”۔ صائم کے لہجے میں چٹانوں جیسا عزم تھا۔
صائم کی محبت نے میمونہ کو جیسے بدل کر رکھ دیا۔ اب روز وہ دونوں ملنے لگے مگر اس بار ملاقاتوں کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ صائم نے اگلے دن موتیوں کے گجرے اس کی نازک کلائیوں  میں پہناتے ہوئے پوچھا۔ “میمو! تم ایک بزنس مین کی بیٹی ہو اور میں ایک ملازم پیشہ بندہ ہوں۔ کیا آپ کی ممی مجھے داماد کے روپ میں قبول کریں گی؟”۔ میمونہ کے چہرے پر ایک رنگ سا لہرا گیا۔ کچھ دیر وہ خاموشی سے صائم کی سحرانگیز آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ پھر چٹان جیسے اٹل لہجے میں گویا بغاوت کا اعلان کرڈالا۔ “میمو کی محبت کسی شرط کے بغیر ہے۔ کسی انجام سے بے پرواہ۔ اگر پشتون ولی میں ایک بار ہاتھ تھام کر ساری زندگی تھامنے کا رواج ہے تو ہمارے راجپوتانے میں ایک بار جس نے ہاتھ پکڑ لیا اس کا چھوڑنا ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے”۔ وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ ایستادہ کھڑی رہی۔ صائم کو میمونہ پر  اتنا بے تحاشہ پیار آیا۔ کہ اس نے میمونہ کی نازک کلائیوں میں بندھے موتیا کے پھولوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کو اپنی طرف زور سے دھکا دیا۔ میمونہ کٹے ہوئے  شہتیر کی طرح صائم کی گود میں  آگری۔ میمونہ نے گھبرا کر آس پاس دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔مگر اگلے لمحے وہ ماحول سے بیگانہ ہوئی اور صائم کی خوبصورت آنکھوں میں جیسے ڈوبنے لگی۔ “میمو کل میری بہن تجھے ملنے آرہی ہے۔ تیرا ہاتھ مانگنے تیری مما سے”۔ میمونہ جیسے خوشی سے نہال ہوگئی۔ “کل پانچ بجے باجی اسی پارک میں میرے ساتھ آئیں گی۔ پھر یہاں سے ہم سیدھا تیرے گھر جائیں گے”۔
میمونہ نمبر ملانے لگی۔ مگر یہ سوچ کر نمبر ڈائل نہیں کیا کہ مبادا صائم کی بہن کیا سوچے گی کہ کتنی بے شرم لڑکی ہے۔ لہذا اس نے موبائل فون پھر سے اپنے پرس میں رکھ دیا۔ ایک بار وہ تھی اور نہ ختم ہونیوالے انتظار کی گھڑیاں۔ گھڑی کی سوئیاں سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ کہ میمونہ ہل کر رہ گئی۔ شام کا اندھیرا پھیل گیا۔ پارک میں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ سردی مزید بڑھ رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنی ہُڈی کی پاکٹس میں گھسا دیئے۔ باہر کا سرد موسم میمونہ کے اندر جون کی تپتی حدت کو کم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہورہا تھا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ تو سات بج گئے تھے اس کی نظریں گیٹ پر ٹکی ہوئی تھیں کہ شاید صائم ابھی نظر آجائے۔ اچانک اس کے اندر امید کے دیئے پھر سے روشن ہونے لگے۔ ملگجےاندھیرے میں اس کو دو ہیولے نظر آ ہی گئے۔ اس کی خوشی کی انتہاء نہیں رہی کہ اس کے محبوب نے اس کی محبت کا مان بالآخر رکھ ہی لیا۔ ہیولے قریب آگئے تب اس کی انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ سامنے اس کی ماں اپنے باوردی شوفر کے ساتھ اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آگئی تھی۔ قریب آکر اس نے میمونہ کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا۔ “چلو بیٹا جلدی کرو۔ سردی زیادہ ہے اندھیرا بھی ہوگیا ہے گھر چلتے ہیں”۔ اس نے سختی سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے غرا کر کہا۔ “مما بس کچھ دیر اور صائم آ رہا ہے، “۔ اس کی ماں نے نظریں جھکاتے ہوئے کوئی جواب نہیں دیا۔ مگر اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑ کر گاڑی کی طرف دھکیلتے ہوئے لیکر جانے لگی۔ مگر میمونہ مسلسل مزاحمت کررہی تھی۔ “مما پانچ منٹ اور بس ۔۔۔۔۔ دیکھو اگر پانچ منٹ میں صائم نہیں آیا۔ تو پرامیس میں گاڑی میں بیٹھ جاؤں گی”۔ اس کے لہجے میں جیسے یقین سا تھا۔ اس کی ماں اپنا وزن سہار نہیں پائی۔اور بینچ پر ڈھے سی گئی۔ پانچ منٹ بعد میمونہ مرے ہوئے قدموں سے گیٹ سے باہر نکل گئی۔ جیسے وہ صدیوں سے لٹی پٹی اپنے محبوب کا انتظار کرتے کرتے بکھر گئی ہو۔ اس کی ادھیڑ عمر ماں نمناک آنکھوں سے اپنی بیٹی کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے فون نکالا۔
“ہیلو ڈاکٹر فرحان۔۔۔۔ آپ کی بات بالکل صحیح نکلی۔ میمونہ پر دوائیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے”۔ آگے سے ڈاکٹر فرحان کی تشویشناک آواز نے ماں کے اوسان خطا کردیئے۔ “میرا شک بالکل صحیح نکلا۔ وہ اب تصوراتی دنیا کی اسیر ہوچکی ہے۔ میمونہ پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ شیزوفرینیا کے خطرناک فیز میں جاچکی ہے”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply