• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تصورِارضی پیوستگی:اقبال کے نظریۂ قومیت کا بنیادی محرّک(حصّہ اوّل)۔۔۔ادریس آزاد

تصورِارضی پیوستگی:اقبال کے نظریۂ قومیت کا بنیادی محرّک(حصّہ اوّل)۔۔۔ادریس آزاد

اقبالیات کے طالب علم کے طور پر میرا یہ مؤقف ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے مخصوص نظریۂ قومیت کا اصل محرّک اُن کا تصورِ ارضی پیوستگی ہے-مَیں سمجھتا ہوں کہ اقبالیات کا یہی گوشہ ابھی تک محققین کی نظر سے پوشیدہ ہے-اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو کچھ اس لیے بھی عام تحقیق کا موضوع نہیں بنایا جاسکا کہ ماہرین ِ اقبال کی اکثریت کا تعلق یا تو ادب کے ساتھ رہاہے اور یا مذہب کے ساتھ، جبکہ ارضی پیوستگی اپنی کُنہ میں ایک خالصتاً فلسفیانہ تصور ہے-لیکن اس سے پہلے کہ مَیں اپنا مقدمہ پیش کروں، ضروری ہے کہ ہم عنوان میں موجود دونوں اصطلاحات کی متعین تعریف جسے منطق میں ’’precise definition‘‘ کہاجاتا ہے، طے کرلیں-
عنوان میں موجود پہلی اصطلاح ہے، ’’ارضی پیوستگی‘‘جبکہ دوسری اصطلاح’’اقبال کا نظریۂ قومیت‘‘ہے-ارضی کالفظ ارض یعنی زمین سے لیا گیا ہے اور ارضی پیوستگی سے مراد زمینی پیوستگی ہے جو اصل انگریزی اصطلاح ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کا ترجمہ ہے-ڈاکٹر اقبال نے یہ اصطلاح اپنے خطبات، ’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ میں سب سے پہلے استعمال کی ہے- اقبال کے بعد ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کا لفظ ہمیں ’’پروفیسر ہووَرڈ کلائن بیل‘‘ کی کتاب ’’اِیکوتھراپی، ہِیلنگ آورسیلیوز، ہیلنگ دی ارتھ‘‘ میں ملتاہے-یوں گویا اِس ٹرم کے خالق بھی ڈاکٹر اقبال ہیں-لیکن سیدنذیر نیازی نے اقبال کے خطبات کا ترجمہ کرتے وقت ارتھ روٹڈنیس کا ترجمہ ارضی پیوستگی کی بجائے فقط ’’ارضِ پیوستگی‘‘ کیا ہے جو مجھے ذاتی طور پربلیغ محسوس نہ ہوا تو میں نے ارض کو ارضی کے ساتھ بدل دیا-سید نذیر نیازی نے، مکتوبات میں،اپنے ایک اور مضمون میں بھی ارضی پیوستگی کے لیے ’’زمینِ پیوستگی‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے-مثلاً وہ کہتے ہیں:
’’راقم الحروف نے اپر انڈیا کانفرنس کے سلسلے میں ایک اصطلاح ’زمینِ پیوستگی‘ استعمال کی ہے جو انگریزی ترکیب Earth Rootedness کا ترجمہ ہے اور جسے حضرت علامہ نے اپنے خطبات میں یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے کہ جس قومیت، یا سیاسی اجتماع کی بنا وطن اور نسل پر ہوگی اس کی دنیا لازماً اس سرزمین تک محدود رہے گی جس میں وہ قوم یا وہ نسل آباد ہے یعنی جسے ہم اپنا مرزوبوم گردانتے ہیں-لہٰذا ناممکن ہے ہم اس مخصوص خطۂ ارض کی گرفت سے آزاد ہوسکیں‘‘ –
سید نذیر نیازی کے الفاظ سےفوری اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اقبال کا نیشنلزم ضرور کسی گہرے فلسفے کا مرہونِ منّت ہے، جسے وہ ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کَہ کر پکار رہے ہیں اور اِس مقالہ میں ہم اُسی فلسفے کا کھوج لگانے نکلے ہیں-
ارضی پیوستگی یا زمینی پیوستگی کا متعین مفہوم ہے،کسی شئے کی جڑوں کا زمین میں پیوست ہونا-ایک درخت ارضی پیوستگی کا شکار ہوتاہے کیونکہ اُس کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں-سید نذیرنیازی اسی مضمون میں ارضی پیوستگی کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو درخت کی ہی مثال پیش کرتے ہیں- لکھتے ہیں:
’’بالفاظِ دیگر ہماری اطاعت، ہماری وفاداری کی مثال وہی ہوگی جو کسی پودے یا درخت کی ہوتی ہے کہ جب تک کسی زمین میں گڑا ہے اس کی ہستی قائم ہے،یا یوں کہیے کہ وہ اپنی ہستی قائم رکھ سکتاہےجب تک اُس زمین میں گڑا رہے‘‘ –
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ زمین سے وابستگی اور زمین میں پیوستگی دو الگ الگ چیزیں ہیں-عربی کی ایک ٹرم’’خسف‘‘ یعنی زمین میں دھنس جانا،غالباً اقبال کی ارضی پیوستگی کے لیے مناسب ترین متبادل اصطلاح ہوسکتی ہےاور میری دانست میں اقبال کے ذہن میں عربی کی اصطلاح ’’خسف‘‘ ضروراپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ موجود تھی جسے اقبال نے انگریزی میں ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘اور اردو میں ’’قیدِ مقامی‘‘ کَہ کرپکارا-
چنانچہ ارتھ روٹڈنیس، ارضی پیوستگی، زمینی پیوستگی، قیدِ مقامی اور خسف، یہ چاروں تراکیب ہم ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور وہ مفہوم ہے:’’زمین پر موجود مخلوقات کی جڑوں کا زمین میں پیوست ہونا‘‘-
نباتات کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ اُن کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں لیکن زمین پر چلنے پھرنے والی مخلوقات جنہیں عربی میں ’’دابہ‘‘کہا جاتاہے، کی جڑیں زمین میں کس طرح پیوست ہیں؟ یہی وہ اہم سوال ہے جواقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو شاعرانہ استعارہ بازی سے جُدا کرنے کے لیے اُٹھایا جا سکتاہے-اسی سوال کا جواب ہم آئندہ سطور میں ملاحظہ کرینگے-
اِس مخصوص مقالے کے لیےارضی پیوستگی کا مفہوم متعین کر لینے کے بعد اب اگر ہم ایک بار جلدی سے اقبال کے نظریہ قومیت کو بھی دہرا لیں تو آئندہ سطور میں سامنے آنے والا مقدمہ منطقی اعتبار سے ہمارے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوجائے گا-ہم جانتے ہیں کہ اقبال وطنی قومیت کے مخالف ہیں اور اقبال کے نزدیک، ’’قوم مذہب سے ہے ‘‘ –
اگرچہ اس موضوع پر اقبال کے مشہور اشعار دہرانے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم فقط ایک شعر دہرا لیتے ہیں تاکہ اقبال کا تصورِ قومیت ہمارے ذہنوں میں ایک بار تازہ ہوجائے-اقبال کا ایک شعر ہے:
قوم مذہب سےہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
حوالہ:بانگِ درا
غرض ہم سب جانتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک انسانوں میں قومیت کی بنیاد مذہب کو ہونا چاہیے نہ کہ وطن اور قبیلہ کو-یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ِ ہاشمیؐ
حوالہ: ایضاً
پس عنوان میں موجود دونوں اصطلاحات کی متعین تعریف کا مرحلہ تمام ہوا-لیکن فوری طور پر جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ ہے کہ اگر اقبال کے نزدیک انسانوں میں قومیت کی بنیاد مذہب کو ہونا چاہیے تو کیا اقبال کو تاریخ ِ انسانی کے وہ تاریک ادوار دکھائی نہ دے رہے تھے جب عیسائیت نے قبائل اور خونی رشتوں کی بجائے مذہب کو قوم کی اساس تصور کررکھاتھا؟کیا پاپائیت نے صدیوں تک قومیت کی بنیاد مذہبِ عیسائیت کو ہی قرار نہ دیا تھا؟جوکوئی انسان عیسائی تھا،وہ چاہے کسی بھی وطن سے تھا وہ ایک بڑی عیسائی کمیونٹی کا فرد سمجھا جاتا تھا جس کی سربراہی پاپائے رُوم کے پاس تھی-یہی وہ دور ہے جسے یورپ کے ’’ڈارک ایجز ‘‘ کہا جاتا ہے-مذہب کی بنیاد پر قومیت کا تجربہ،اسی طرح مذہب کی بنیاد پر ریاست کا تجربہ،ماضی میں بری طرح ناکام ہوچکا تھا-مذہبی ریاستوں نے ظلم و استبداد کی ناقابلِ فراموش داستانیں رقم کررکھی تھیں اور یقیناً اقبال اس تاریخی حقیقت سے ناواقف نہیں تھے توپھر اقبال نے بقول مارکس ایک چلے ہوئے کارتوس کو کیوں استعمال کیا؟ یعنی مذہب کی بنا پر قومیت کی ناکام ترین تاریخ کے مطالعہ کے باوجود اقبال نے پھر سے ایسا کیوں کَہ دیا کہ ’’قوم مذہب سے ہے‘‘؟ یقیناً اقبال جیسے شخص کے لیے بیسویں صدی کے اوائل میں مذہبی قومیت کا نعرہ لگانا فقط مسلمان ہونے یا محض اسلام سے محبت ہونے کی وجہ سے نہ تھا-ضرور اقبال کے ذہن میں کچھ اور فلسفیانہ نکات اور منطقی قضیات بھی تھے جن کی مدد سے وہ پوری مغربی فکر کے مخالف کھڑے رہے اور بے پناہ مبلغانہ جوش کے ساتھ اپنا نظریہ ٔ مذہبی قومیت آخر دم تک پیش کرتے رہے-میری دانست میں اقبال کا یہی مقدمہ یعنی تصورِ ارضی پیوستگی، اقبال کے نظریۂ قومیت کا بنیادی محرّک ہے-
اب ہم بنیادی مدعا کی طرف آتے ہیں-اقبال نے اپنے خطبات میں ارضی پیوستگی کی اصطلاح جس جملے میں استعمال کی وہ جملہ یہ ہے:
“Blood relationship is Earth-rootedness”.
’’خونی رشتہ داری ارضی پیوستگی ہے‘‘-
ہم اقبال کے مطالعہ حیات الحیوان کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ آیا اقبال نے کس طرح خونی رشتہ داری یا قبیلہ پرستی یا اقبال کے مخصوص الفاظ میں وطن پرستی کو ارضی پیوستگی کے طور پر دیکھاہے-ہم جانتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء فقط حیاتیات کا ہی موضوع نہیں بلکہ ’’اینتھرو پولوجی، آرکیالوجی، لسانیات، سوشیالوجی اور نفسیات‘‘ سمیت کئی دیگر مضامین کا بھی بنیادی موضوع ہے-دراصل اِن میں سے ہرڈسپلن ارتقائے حیات کے قدرتی عمل کا کسی نہ کسی منفرد پہلُو سے مطالعہ کرتاہے-اقبال کے ہاں بھی ارتقا کو ایک بالکل الگ رنگ میں دیکھنے کے ثبوت ملتے ہیں جو اپنی ساخت اور ماہیت کے اعتبار سے نہ صرف اہم بلکہ چونکا دینے کی حدتک نتیجہ خیز ہے – غالباً اِس مخصوص پہلُو سے کہ جسے بجا طور پر’’اقبالین سوشیو بایولوجیکل ایوولیوشن‘‘ کہاجانا چاہیے اب تک نظریہ ارتقا کے نتائج پر غور نہیں کیاگیا-
اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو مزید قابلِ فہم بنانے کے لیے ہمیں اقبال کے مطالعہ حیات الحیوان کو الگ کرکے دیکھنا ہوگا-اقبال خود تو سائنسدان نہیں تھے لیکن غالباً انہیں قرآن اور تصوف کے مطالعہ نےتوجہ دلائی کہ مخلوقاتِ عالم کے طرزِ زندگی کو دیکھ کر انسان میں موجود اینمل سپرٹ کو دریافت کیا جا سکتاہے-
مثلاً اگرہم تھوڑی سی مدد بیالوجی کی پلانٹ کنگڈم سے لیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ زمین کے نیچے اگنے والی سبزیاں بنیادی طور پر پودوں کی جڑیں ہوتی ہیں- اگرہم غور کریں تو زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ زمین سے جو پودا جس قدر بلند ہے اُس کا پھل اتنے زیادہ حرارے یعنی کیلوریز کا حامل ہے-ہم جانتے ہیں کہ کھجور کے ایک چھوٹے سے دانے میں 282 کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ بڑی سے بڑی گاجر میں فقط 41کیلوریز ہوتی ہیں-یہ بھی ایک سطح پر توانائی کی جنگ ہے-معلوم ہوتاہے اقبال نےارضی پیوستگی کا نظریہ بنیادی طور پر قرآن کے مطالعہ سے اخذ کیا ہے-قران میں ہے،جب بنی اسرائیل نے من و سلویٰ سے بیزاری کا اظہارکرتے ہوئے مطالبہ کیا:
’’وَاِذَ قُلْتُمْ یَا مُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْم بَقْلِہَا وَقِثَّآئِہَا وَفُوْمِہَا وَ عَدَسِہَا وَبَصَلِہَا ‘‘
’’اور جب تم نے کہا: اے موسیٰؑ! ہم فقط ایک کھانے (یعنی من و سلویٰ) پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے تو آپ اپنے رب سے (ہمارے حق میں) دعا کیجیے کہ وہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز پیدا کر دے‘‘-
اس آیت میں بنی اسرائیل نے من و سلویٰ پر ککڑیوں، ترکاریوں او رپیازوں کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ‘‘
یعنی تم بدل دینا چاہتے ہو اُس کو جو ادنیٰ ہے اُس کے ساتھ جو خیر ہے؟
حوالہ:(البقرۃ:61)
گویا من و سلویٰ جو بلندیوں سے آنے والی غذا تھی، وہ خیر تھی اور اس کے مقابلے میں ترکاریاں اور پیاز ادنیٰ تھے کہ جو زمین کے نزدیک یا زمین کے نیچے اُگتے تھے-قران کے علاوہ اقبال کے مطالعہ میں ابن مسکویہ کا نظریۂ ارتقا بھی تھا جس کا ذکر انہوں نے کئی جگہ کیا – غالباً ابن مسکویہ نے بھی اس حقیقت کو پالیا تھا کہ جو مخلوق زمین کے جس قدر نزدیک ہے وہ اتنی ہی مجبور ہے اور جومخلوق زمین سے جس قدر بلندی پر ہے وہ اتنی ہی آزاد ہے- ابن ِ مسکویہ نے کھجور کے پودے کو تمام پودوں میں سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ لکھا ہے-بعینہ یہی حقیقت جو یہاں کیلیوریز کے اعتبار سے مختلف پودوں میں موجود توانائی کے حوالے سے اُن کی درجہ بندی کرتی ہے-یہی حقیقت کسی بھی سطح کی حیات پر اِسی طرح صادق آتی ہے-پودے جمادات کی طرح زمین میں پیوست ہیں -پودوں کے بعد حشرات الارض کا نمبر آتا ہے- حشرات الارض زمین میں دھنس کر رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کثرت سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کثرت سے مارے جاتے ہیں-زیادہ ترحشرات الارض کی جبلت میں پیٹ کے بل زمین پر رینگ رینگ کر مال جمع کرنا شامل ہے- حشرات کی روحِ حیوانی یعنی ’’اینمل سپرٹ‘‘ کے مالک، بعض انسان بھی ہوتے ہیں-جنہیں ہم سٹاکسٹ اور مال جمع کرنے والے لوگوں کے طور پر جانتے ہیں-حشرات الارض سے بلند درجہ درندوں کا ہے- درندےبھی قبیلوں میں رہتے ہیں-زیادہ تر درندوں کے مسکن غاریں ہوتی ہیں-غاروں میں رہنا بھی ایک طرح سے زمین میں دھنس کر رہنا ہی ہے-درندوں کی ایک نوع کا غول کسی دوسری نوع کے غول میں گھل مل کر نہیں رہ سکتا-غول کے کسی ایک فرد پر حملہ غول کے تمام افراد پر حملہ تصور کیا جاتا ہے-غول کا سردار اپنے غول کی تمام ماداؤں کا واحد شوہر ہوتا ہے-ایک درندہ دوسرے درندوں کو جنسی عمل کرتا ہوا دیکھے تو برداشت نہیں کرسکتا اور جنسی عمل میں مصروف جوڑے پر حملہ کر دیتا ہے-
درندوں میں جنسی عمل کے پیغامات کے لیے ایک خاص قسم کی بد بُو بطور کیمیائی محرک کے کام کرتی ہے-غول کا نیا سردار سابقہ سردار کے بچوں کو قتل کردیتاہے کیونکہ وہ پورے غول کو اپنی اولاد سمجھتا ہے اور اپنی نسل میں کسی دوسرے فرد کا خون شامل ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا-
انسانوں میں درندوں کی روحِ حیوانی کا مظاہرہ قبیلہ پرستی کی شکل میں نظر آتاہے- ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ گُتھے ہوئے انسانی قبائل اپنی غیرتِ خاندانی کے نام پر اپنے قبیلے میں کسی غیر قبیلے کے خون کی ملاوٹ برداشت نہیں کرسکتے-ایسے انسانی معاشرے درندوں کی روحِ حیوانی کے ساتھ جیتے ہیں-
درندوں سے بلند درجے پرچوپایوں کے ریوڑ ہیں- چوپایوں کی مختلف انواع ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکتی ہیں- مثلاً گائے، بکری، اونٹ، ہاتھی وغیرہ یہ سب ایک قافلے میں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں-چوپائے غاروں میں بھی نہیں رہتےلیکن چوپائے ایک دوسرے کی مدد کرنے کی جبلت سے تقریباً محروم ہیں-اسی طرح چوپایوں میں جنسی عمل قطعی طور پر آزادانہ ہے جو کہ انہیں اپنے زوج کے ساتھ بھی وفادار نہیں رہنے دیتا-چوپایوں میں بھی ایک خاص قسم کی بُو جنسی پیغامات کی ترسیل کا موجب بنتی ہے-چوپایوں میں نَر چوپائے زیادہ طاقتور جبکہ مادائیں کمزور اور مجبور ہوتی ہیں-جن انسانی معاشروں میں چوپایوں کی روحِ حیوانی پائی جاتی ہے وہ مادر پدر آزاد ہیں-وہ بزدل ہیں-ان کےلیے زمینی آلائشیں تو معنی رکھتی ہیں لیکن خاندان کوئی معنی نہیں رکھتا-
چوپایوں سے بلند درجے پر پرندوں کی ڈاریں ہیں-اگر ہم دس کبوتر اور دس کبوتریوں کو ایک جگہ بند کردیں تو وہ جوڑا جوڑا بن کر الگ الگ فیملی یونٹس میں تقسیم ہوجائینگے-پرندوں میں گزشتہ تینوں درجات ِحیات کی نسبت زیادہ خوبیاں پائی جاتی ہیں-پرندوں میں جنسی عمل کے پیغامات کسی بُو یا بدبُو کے ذریعے نہیں بلکہ فقط آواز کے ذریعے ایک دوسرے تک منتقل ہوتے ہیں-پرندے ملاپ سے پہلے خوشنما گیت گاتے ہیں اور ملاپ کے بعد برابر کی ذمہ داریاں اُٹھا کر گھونسلہ بناتے ہیں- اگر مادہ پرندہ گھونسلے کےلیے تنکے جمع کرتی ہے تو نر پرندہ بھی تنکے جمع کرتاہے-دونوں مل کر انڈوں کو سینچتے ہیں اور دونوں والدین مل کر بچوں کے لیے غذا تلاش کرتے ہیں-پرندوں میں بھی درجات ہیں-جتنا زیادہ بلندی پر پرواز کرنے والا پرندہ ہے نظریہ ارتقاءکی رُو سے اُس نے خود کو اُتنا ہی زیادہ محفوظ اور مضبوط بنا لیا ہے-
اقبال کی شاعری اور نثر سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اِن حقائق کا ادراک رکھتے تھے- مثلاً شیر اور خچر کے مابین مکالمہ میں گھوڑے کو صبا رفتار اور شاہی اصطبل کی آرزُو کَہ کر پکارا گیا ہے-اسی طرح مرغِ سرا اور مرغِ ہوا کے مابین مکالمہ میں جب مرغِ سرا، مرغِ ہوا کو طعنہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی پرندہ ہوں، تُو بھی پرندہ ہے، پھر تجھ میں اتنا تکبر کاہے موجود ہے؟ تو مرغِ ہوا اسے جواب میں کہتاہے:
کچھ شک نہیں پروازمیں آزاد ہے تُو بھی
حد ہے تری پرواز کی لیکن سرِ دیوار
واقف نہیں تُو ہمّتِ مرغانِ ہوا سے
تُو خاکِ نشیمن، انہیں گردُوں سے سروکار
حوالہ: بانگِ درا
جاری ہے

Facebook Comments