بسلسلہ یومِ والد

میرے والد مرحوم پروفیسر عابد صدیق صاحب کی کچھ سوانحی معلومات اور وفات :
ابوجان کی وفات کی خبر سن کر میرے دل پر پہلا خیال یہ گزرا تھا کہ میں اُن کا چہرہ دیکھنے کی نیکی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوچکا ہوں۔ بس یوں لگتا ہے کہ ایک چھجہ تھا جو سر سے ہٹ گیا ہے اور اب دھوپ سیدھی مجھ پر پڑتی ہے۔ میں اُن کی زندگی میں آخری بار بہاول پور آیا تو اُنھوں نے ایک ضروری کام کے سلسلے میں تایا جان ساجد اور اورنگ زیب بھائی جان کو بلایا۔ باتوں باتوں میں سب کو گواہ بناکر میرے بارے میں فرمایا کہ میں صفوان سے راضی ہوں۔ جو قدر کرے گا وہ فیض پائے گا۔ کسی اور بات کے جواب میں فرمایا کہ میری وجہ سے تم (سب گھر والوں) پر مصیبتیں رکی ہوئی ہیں جو میرے بعد ایسے اتریں گی جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹنے سے دانے گرتے ہیں۔ قدرِ عافیت کسے داند کہ مصیبتے گرفتار آید۔ (اور میں نے یہ نقد دیکھا: اُن کی وفات پر بہاول پور آتے ہوئے ہماری کوچ کا حادثہ ہوگیا۔ اللہ نے کرم کیا ورنہ بہت بری حالت ہوجاتی۔) اُن کی طبیعت خاصی خراب تھی۔ ایک بات کے جواب میں فرمایا کہ ”میں دو بار اللہ سے زندگی کی لیز (Lease) مانگ چکا ہوں کہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں، لیکن اگر اب بلاوا آتا ہے تو میں تیار ہوں۔“ یہ بات شاید لکھنے کی نہ تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا اللہ سے تعلق ایسا تھا کہ وہ یہ کہہ سکتے تھے۔ لاہوتیت کا یہ درجہ بھی اللہ کی عطا ہے، وہ جسے چاہے ارزاں کردے۔ اُس دن اُنھوں نے یہ بھی فرمایا کہ موت ایک پل ہے جو دو محبت کرنے والوں کو ملا دیتا ہے۔ میں نے اُنھیں اللہ سے ملاقات کے لیے بالکل تیار پایا۔ اُنھوں نے اپنے کاغذ اور فائلیں وغیرہ بالکل ایسے باندھ کر رکھی تھیں جیسے آج ہی اور ابھی جانا ہے۔ اُنھوں نے وفات سے ڈیڑھ دو گھنٹے قبل قرآنِ پاک اور تفسیر بیان القرآن ختم کی تھی۔
ابوجان 12/ مئی 1939 کو دوراہا منڈی ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ والدین کی پانچویں اولاد تھے۔ نجیب الطرفین راجپوت تھے۔ والد چوہان اور والدہ کی گوت سروئے تھی۔ تایا جان ساجد کی بیان کردہ خاندانی روایت کے مطابق بمبو خاں اِس سورج بنسی راجپوت خاندان کے پہلے مبارک نہاد آدمی تھے جنھوں نے سید احمد شہیدؒ کے خلاف لڑتے ہوئے قید ہوکر چند دن میں اسلام قبول کیا اور بقیہ زندگی جماعتِ مجاہدین کے دوشا دوش دادِ شجاعت دینے کے بعد بالاکوٹ کے آخری معرکے میں جان جاں آفریں کے سپرد کی۔ ابوجان نے زندگی کا غالب حصہ بہاول پور میں گزارا اور 7/ دسمبر 2000 کو نمازِ تراویح کے لیے نکلتے وقت حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پائی۔ اللہ نے اُنھیں جان کندنی کی تکلیف سے بچایا۔ نمازِ جنازہ تبلیغی جماعت بہاول پور کے امیر مولانا محمد اشرف صاحب نے پڑھائی جس میں ہر مکتبِ فکر کے لوگ شامل تھے۔ تبلیغی مرکز میں بھی اُن کی وفات کا اعلان ہوا اور اللہ کے راستے میں نکلی ہوئی جماعتوں کو نمازِ جنازہ میں شریک ہونے کو عرض کیا گیا۔ اُن کا جنازہ بہاول پور کے چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا جس کی لوگ اب تک مثال دیتے ہیں۔ قبر کے تعویذ پر اُن کا یہ شعر بھی کندہ ہے:
رکیں گے تجھ سے ملنے تک یہیں ہم
سمجھتے ہیں کہ دنیا ہے سرائے
اُن کی تاریخِ وفات معتدبہ وقت صرف کرکے میں نے یہ نکالی ہے:
آہ ابو جی عابد اِنّی مُتَوَفّیکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ (1421ھ) اور
کوچِ عابد: اِنّی مُتَوَفّیکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ (1421ھ)
سورۃ آلِ عمران کی آیت 65 کے اِسی ٹکڑے سے علامہ اقبال نے سر سید احمد خاں کی تاریخِ وفات نکالی تھی۔
مِنھَا خَلَقنٰٰکُم وَفِیھَا نُعِیدُکُم وَمِنھَا نُخرِجُکُم تَارَةً اُخریٰ۔ اِنّا لِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔
٭٭٭
۔
“الایام” کراچی میں شائع ہونے والے مضمون سے اقتباس۔ بشکریہ پروفیسر ڈاکٹر Nigar Sajjad Zaheer

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply