جے یو آئی GB کی سیاسی سرگرمیاں : ایک تجزیہ۔۔امیر جان حقانی

الیکشن 2020 گلگت بلتستان میں JUI دیامر کے چاروں  امیدواروں  نے انتخابی سیاست میں بہترین  سرگرمیاں دکھائیں اور مقابلہ کیا۔اچھے ووٹ حاصل کیے۔عوامی حلقوں میں جماعت کا نام زندہ رکھا۔ کارکن گلی کوچوں میں جماعت کے جھنڈوں اور پھریروں سے لیس ہوکر مٹر گشت کرتے رہے۔جبکہ گلگت، استور، گانچھے ،غذر اور ہنزہ کے امیدواروں کو کہیں PPP کے لیے قربان کردیا گیا، کہیں PTI کے لیے قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ حد تو یہ ہوئی کہ ایک حلقے میں ایک آزاد امیدوار مولوی رئیس الحسینی کے راستے میں JUI کو لِٹا کر اس کی ہار کو یقینی بنایا گیا۔اس کے پس پردہ عوامل کو فی الحال نہیں چھیڑا جارہا ہے۔مگر جو ہوا غلط ہوا۔ایسا مفاداتی اور پریشر گروپس کرسکتے ہیں وفاقی سیاسی جماعتیں کبھی بھی نہیں کرتیں۔ ان کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں۔

اگر JUI گلگت بلتستان کے ذمہ داران اس طرح کی غیر سیاسی اور وارداتی  سرگرمیاں  نہ کرتے تو جماعت پورے جی بی میں ایک متحرک جماعت بن کر ابھرتی۔سیٹیں نہ بھی جیتتی تو جماعت زندہ ضرور ہوتی اور تحریکی سیاست میں اس کا بڑا نام ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ نظریاتی لوگوں میں جماعت کی اس بے تکی “لیٹا لیٹی/ فعالیت” پر سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ جماعت کے بہت سارے کارکنان بھی اپنی جماعت کی صوبائی ذمہ داروں کی اس “لالچانہ روش” پر سخت نالاں ہیں مگر سیاست میں بھی عقائد کی طرح اندھے مقلد ہونے کی وجہ سے خاموش ہیں۔مگر ایسی خاموشیوں کی عمر بہت کم ہوتی ہے ۔ آئندہ کے لیے ایسا میکنزم بنایا جائے کہ ایسی درگت کی نوبت نہ آئے۔

اگر جمیعت کی وفاقی قیادت زرداری اور نوازشریف کی “کرپشن پروٹیکشن ” کے لیے جلسے جلوس میں مصروف ہونے کی بجائے بروقت گلگت بلتستان میں پہنچ جاتی جیسے بلاول اور مریم بی بی پہنچی تھی، اور اپنی جماعت کی کمپین کرتی اور انتخابی بارگینگ/ اتحاد کرتی تو شاید جماعت کو تین سیٹیں ملتیں  اور ایک ایک ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی سیٹ بھی مل جاتی۔یوں JUI گلگت بلتستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن جاتی۔اور بہت سارے انتخابی حلقوں میں JUI کی دبنگ انٹری ہوتی۔ جن حلقوں میں JUI کی دبنگ انٹری ہوتی ان میں استور کے دونوں حلقے، ضلع غذر کا ایک حلقہ اور ضلع گلگت کے حلقہ ایک اور دو قابل ذکر ہیں۔

اگلے  الیکشن کے لیے بھی بروقت کوشش کی گئی تو دیامر کے چار، گلگت کے دو، استور کے دو اور غذر کے ایک حلقے میں جے یو آئی کی انتخابی سیاست عروج کو پہنچ سکتی ہے ۔۔ باقی چند دیگر حلقوں میں بھی جماعت دیگر امیدواروں کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔اس کے لیے دل کیساتھ عقل بھی بڑی  کرنی  ہوگی ۔ اور الیکٹیبلز کو سیاسی بنیادوں پر اکھٹا کرنا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں JUI کو درست بنیادوں پر فعال کرنے پر از سرنو کام کیا جائے۔ ایک پورے صوبے کو یوں نظرانداز کرکے بے رحم تھپیڑوں کے حوالے  نہیں کیا جانا چاہیے۔ الیکشن 2020 میں ضلع دیامر کے سِوا پورے جی بی میں جماعت کا کردار اور رہنماؤں اور کارکنوں کی ایکٹیویٹز کا، غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو سرشرم سے جھک جائے گا۔اس لیے سردست اس غیرجانبدارانہ تجزیہ سے ہاتھ روکا جارہا ہے، کہ کہیں کسی کی دستار پر حرف نہ  آئے۔ بڑوں کا احترام بہر صورت لازم ہے۔مگر ادب کیساتھ اختلاف لازم ہے جو ان کے کارکنوں کو کرنا چاہیے اور حقائق کا تجزیہ بھی۔ ہم جیسے لوگ صرف نشاندہی کرسکتے ہیں اور بس۔یہ ذہن میں رکھا جائے کہ ہماری یہ ناقدانہ رائے جماعت کی بہتری کی خاطر ہے اور جماعت کو درست نہج پر استوار کرکے مفاداتی ٹولوں سے بچانے کے لیے ہے۔

گلگت بلتستان کی جے یو آئی کو زندہ و جاوید بنانے اور رکھنے کے لیے راشد محمود سومرو جیسے نڈر اور پرو ایکٹیوو سیاسی ورکر کی ضرورت ہے جو پورے صوبے میں خود بھی متحرک ہو اور کارکنان کو بھی متحرک کریں۔

الیکشن 2020 میں ضلع دیامر میں بھی بروقت سیاسی ایکٹیویٹز نہ کرنے کی وجہ سے صرف ایک سیٹ ہاتھ آئی۔اگر رحمت خالق ذاتی طور پر بے باکی کا مظاہرہ نہ کرتے تو داریل کی سیٹ بھی گنوادی جاتی۔ مشکل کے اس وقت میں دیامر کے چند سیاسی ورکروں کے علاوہ جے یو آئی داریل کیساتھ  اعلانیہ طور پر کوئی بھی کھڑا نہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیتی ہوئی سیٹ چھینی جارہی تھی، اس پر پیپلز پارٹی کے صدر امجد ایڈوکیٹ کی طرح طبل جنگ بجایا جاتا۔امجد ایڈوکیٹ اپنے پارٹی ممبر جمیل احمد کی ایک سیٹ کے لیے آخری حد تک گئے تھے، یہی کردار کا جے یو آئی کی صوبائی قیادت سے بھی توقع کی جارہی تھی مگر ایسا دکھائی نہ دیا۔

اس لیے گزارش کی جاتی ہے کہ جس طرح PMLN, ، PPP ،MWMاور جماعت اسلامی نے، کامیاب تحریکی سیاست کے ذریعے اپنی صوبائی پارٹیوں کو زندہ رکھا اس طرح کی سیاسی حرکیات JUIکو بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ PPPکے بعد JUI کے لیے گلگت بلتستان کی سرزمین سیاسی فعالیت کے لیے سب سے زیادہ ہموار ہے مگرJUI کی وفاقی قیادت کو اس کا احساس ہی نہیں اور سچ بات یہ ہے کہ وفاقی قیادت کا صوبائی کارکنوں اور مخلص سیاسی ورکروں سے رابطے کا شدید فقدان ہے۔ وفاقی قیادت چند لوگوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ وفاقی قیادت کا اس کٹھ پُتلی  کردار کی وجہ سے سابق امیر مولانا لقمان حکیم،سابق امیر مولانا قاضی عنایت اللہ،سابق ممبر گلگت اسمبلی قاری عبدالحکیم،مولانا حقنواز بلتستانی اور بلتستان کی پوری ٹیم، ممبر اسمبلی و سابق امیر مولانا سرور شاہ، ممبر اسمبلی حاجی شاہ،اور جماعت کو ابتدائی طور پر گلگت بلتستان میں متعارف کروانے والے بڑے بڑے ذمہ دار لوگ لاتعلق ہوکر رہ گئے ہیں اور نجی محفلوں میں مسلسل شاکی بھی ہیں۔

اگر سچ کہا جائے تو جماعت کی موجودہ قیادت نے ان سب کو زچ کرکے رکھ دیا ہے۔ جے یو آئی ایک سیاسی جمہوری جماعت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جماعت کی عشروں خدمت کرنے، سیٹیں جیتنے اور عوام میں متحرک کرنے والے لوگ، نو واردین کو امیرالمومنین کا درجہ دیں۔اس طرح JUI تانگیر کے سابق ممبر اسمبلی و منسٹر حاجی گلبر نے PTI جوائن کرکے سیٹ جیت لی ہے۔اور مولانا سرورشاہ نگران کابینہ میں ہونے کے باوجود بھی جماعت سے مکمل لاتعلق رہے۔

دیامر کے علاوہ پورے گلگت بلتستان میں کارکنوں کا ووٹ دیگر جماعت مخالف پارٹیوں کو پڑا ہے، جماعت کی صوبائی و ضلعی قیادت نے راتوں کو چھپ کر بھی ان کی حمایت کرتے ہوئے کمپین کی ہے اور کچھ حلقوں میں باقاعدہ پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے حق میں جےیو آئی کے  امیدواروں کو الیکشن سے  باہر کروایا گیا ہے۔ یہ سب المیہ ہے۔اس کے علاوہ جے یو  آئی گلگت بلتستان کی قیادت نے ایسا ماحول کریٹ کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے جید علماء کرام اور بڑے مدارس و جامعات کے علماء و مہتممین بھی جے یو آئی سے کٹے ہوئے ہیں۔ مرکزی سطح پر اس بات کا احساس کیا جانا چاہیے کہ اتنے بڑے علماء اور مدارس و جامعات کے حضرات JUI سے کیوں کٹے ہوئےہیں۔ اس پر مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی ایک مستقل سوال ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ  حافظ حفیظ الرحمان اور سابق ڈپٹی اسپیکر جمیل احمد نے جے یو آئی کو خیرباد کیوں کیا؟ اس پر بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔

بہت تفصیلات ہیں۔ ضرورت پڑنے پر  سب کے سامنے لائی  جائیں گی مگر JUI کے جی بی کا پورا اسٹرکچر زندہ کرکےمتحرک کرنے کی ضرورت ہے۔کیا کوئی عقل سلیم رکھنے  والا اس کام کے لیے کمر کس سکتا ہے؟ یا پھر JUI کو GB میں چند لوگوں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

احباب ان “خاطرات” کو سنجیدگی سے لیں۔ JUI کسی کی جاگیر نہیں، اکابرعلماء کی نشانی ہےجس پر سب کا برابر حق ہے۔ضرورت پڑنے پر مجھے گالیاں ضرور دیں مگر “خاطرات” پر دل سے کان دھریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments