عورت گالی نہیں۔۔رمشا تبسم

مورکھ جب بھی ہماری تاریخ لکھتے ہوئے ہماری جہالت,بد زبانی  اور گالی گلوچ کا ذکر کرنا چاہے تو اس کو  زیادہ الفاظ ضائع کرنے ،زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں صرف “عمران خان یا پی۔ٹی۔آئی ” لکھ دے مورکھ کا کام آسان ہو جائے گا اور سمجھنے والوں کے لئے سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ موصوف بد اخلاقی,بد زبانی,گالی اور جہالت کا مجموعہ لئے پھرتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ  چلتی پھرتی شرمندگی اور جہالت ہے۔ اب آپ سب سوچ رہے ہونگے کہ تاریخ تو “مورخ “لکھتا ہے تو “مورکھ “کون ہے۔ بیشک تاریخ” مورخ “ہی لکھتا ہے مگر سیانے کہتے ہیں تاریخ میں  بری باتیں جن کا ملک و قوم کے مفاد سے تعلق نہیں ایسی باتیں مورکھ ہی کرتے ہیں اور  پھر “مورکھ” ہی لکھتے ہیں۔لہذا جب مورکھ لکھا جائے سمجھ جائیں کے کسی مورکھ نے کچھ کہہ دیا جو کے ہمارے ملک و قوم کے نہ مفاد میں ہے نہ ہی لکھنے کے قابل۔
میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ  انسان کی زبان اور اس سے نکلنے والے شر اور خیر کے جملے در حقیقت  ہماری تربیت کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ کسی کے بھی والدین اس کی  نہ ہی غلط تربیت کرتے ہیں نہ ہی جہالت سے آشنا کرواتے ہیں۔مگر چونکہ ہم انسان ہیں اور انسان خسارے میں ہے لہذا ہم خسارہ سمیٹنے کی سمت خود ہی قدم بڑھاتے ہیں ۔انسان کوجو لقمہ گھر کی چار دیواری میں دیا جاتا ہے اس میں اسے  صرف اچھا بولنا سکھایا جاتا ہے کچھ لوگ اس لقمے کو مشہور  ہونے کے لئے یا  کسی رتبے کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں  غرور اورتکبر میں حرام کر دیتے ہیں۔
ایسے میں معاشرہ پہلی انگلی انسان کی تربیت اور تربیت کرنے والی ماں پر اٹھاتا ہے۔جبکہ حقیقت میں کوئی بھی ماں اپنی اولاد کو  شر بولنا نہیں سیکھاتی۔مگر اولاد اور خاص طور پر وہ اولاد جو خود کو تیس مار خان سمجھتی ہو  اور لوگوں کو جوتی کی نوک پر رکھتی ہو نا صرف اپنی ذلت کا بھی باعث بنتی ہے بلکہ اپنے  والدین کی تربیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔
حضرت امام علیؓ نے فرمایا زبان کا وزن بہت ہی ہلکا ہوتا ہے مگر بہت کم لوگ اس کو سنبھال پاتے ہیں ۔امام علیؓ نے فرمایا جسم ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا جب تالا کھلتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ دکان لوہے کی ہے یا سونے کی ۔
ہم ایک عرصے سے اس ملک میں بد زبانی,جہالت اور  گالی گلوچ کا ایسا طوفان دیکھ رہے ہیں جو تھمنے کی بجائے کسی برف کے گولے کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اب اس کا حجم اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ  پوری قوم کو اپنے حجم سے تباہ کرتا جا رہا ہے۔قوم مکمل طور پر اخلاقیات کے دائرہ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔
ایک گروہ اس گالی گلوچ پر قہقہے لگانے والا ہے ۔دوسرا گروہ اس کا دفاع کرنے والا ۔تیسرا گروہ اس  گالی گلوچ پر تنقید  کرتا ہے مگر اب چونکہ برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے لہذا تیسرا گروہ بھی گالی گلوچ پر  تنقید میں بدزبانی اختیار کرتا جا رہا ہے۔کچھ عرصے میں یہ تمام لوگ گالی گلوچ,بد زبانی والے گروہ بن جائینگے ۔فرق صرف اتنا ہوگا دو گروہ گالی گلوچ کی بنیاد ڈالنے والوں کے ساتھ ان کے حق میں کھڑے ہو کر گالی گلوچ کریں گے اور قہقہے لگائیں گے۔جبکہ تیسرا گروہ اسی گالی گلوچ کو برا کہنے کے لئے ہی بد زبانی اور گالی گلوچ پر اتر آئے گا بلکہ کسی حد تک اتر چکا ہے۔یہ ہماری موجودہ صورتِ حال ہے۔اور مستقبل قوتِ برداشت میں کمی اور بدزبانی میں عروج پر ہو گا۔

محترم عمران خان صاحب جو کہ بد قسمتی سے ہمارے وذیراعظم ٹھہرتے  ہیں۔جن کو حالانکہ ان کی محترمہ  تیسری بیگم (تیسری کا لفظ صرف اسلئے کیونکہ رجسٹرڈ اتنی ہی ہیں) کئی  بار بتا چکی ہیں آپ اب وزیراعظم ہیں مگر مجال ہے عمران خان کو یقین آتا ہو۔خیر یقین آئے نہ آئے مگر عمران خان صاحب نے گزشتہ روز تقریر میں بلاول بھٹو کو  “صاحبہ “کہہ کر مخاطب کیا۔نہ صرف “صاحبہ “کہا بلکہ کچھ لمحے رُکے پھر تالیوں کی صورت میں داد وصول کی پھر اپنی بات جاری رکھی۔عمران خان صاحب نے صاحبہ کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکہ انہوں نے بلاول بھٹو کو ایک طرح سے کمتر  اور کمزور کہا۔عمران خان کے نزدیک عورت ایک کمزور شخصیت ہے لہذا کسی گالی کی صورت بلاول کو صاحبہ کہا۔ عمران خان کے وزیر اور چاہنے والے اس بات کو بھی صحیح ثابت کرنے اور دفاع کرنے کی کوشش میں تھے۔میں نے بھی آٹھ گھنٹے انتظار کیا کہ  ابھی کچھ نہ کہا جائے  شاید کوئی یو۔ٹرن والے یو۔ٹرن لے ہی لیں اور محسوس ہو جائے کہ یہ بھی عمران خان کی چھوٹی سی  زبان پھسلی تھی جو آج کل منہ میں سنبھالے نہیں سنبھل رہی  ۔مگر رات کو ٹی۔وی شو میں عمران خان کے ایک وزیر سے جب اینکر نے سوال کیا کہ ” اس طرح عورتوں کی تضحیک کرنا غیر مناسب ہے۔عورت مرد کوئی کسی سے کمتر نہیں عورتیں بہت شاندار معرکے سر انجام دے چکی ہیں”۔ اس کے جواب میں پی۔ٹی۔آئی کے نمائندے نے کہا “عمران خان کا مطلب وہ نہیں حو آپ بیان کررہے ہیں”  مجھے تھوڑا سکون محسوس ہوا کہ  یہ کوئی سیانا بندہ ہے ضرور سیانی بات کرے گا۔مگر بس دل ہی بہلایا جا سکتا ہے یہ سوچ کر کے پی۔ٹی۔آئی کوئی  سمجھداری کی بات کر سکتی ہے۔ان موصوف نے کہا کہ “عمران خان نے صاحبہ کہہ کر عورتوں کی تذلیل نہیں کی۔بلکہ صاحبہ کہنے سے مراد تھا کہ بلاول نا اہل اور نالائق ہیں”۔عمران خان نے صاحبہ کہا  اور ان موصوف نے تفصیل بھی پیش کردی کہ صاحبہ اس لئے کہا کیونکہ صاحبہ جو ہوتی ہیں وہ نالائق اور نا اہل ہوتی ہے۔اب ہر شخص کو پیدا کرنے والی ہستی اسکی ماں ہی ہوتی ہے۔جو نو مہینے اولاد کو احتیاط کے ساتھ اٹھائے پھرتی ہے اور تکلیف سہہ کر جنم دیتی ہے ۔یہ ہستی بھی صاحبہ ہی ہے۔تو کس لحاظ سے کمزور کمتر نا اہل اور نالائق کہہ دیا عورت ذات کو۔
صرف یہی نہیں دھرنے اور جلوسوں میں عمران خان نے سر پر ڈوپٹہ لے کر محمود خان اچکزئی کی نقل اتاری تھی۔جس میں انہوں نے ڈوپٹے کا مذاق بنایا۔
اسی طرح الیکشن سے پہلے وزیراعلی  خیبر پختوانخوا اور موجودہ وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے کہا جس گھر میں پی۔پی۔پی کا جھنڈا ہوتا ہے مجھے لگتا ہے یہاں طوائفوں کے بچے رہتے ہیں۔
اس طرح بے شمار مواقع پر کسی نہ کسی طرح گالی گلوچ اور بدزبانی کا سلسہ جاری رہا اور جاری ہے۔
بحیثتِ عورت مجھے اور تمام عورتوں کو فخر ہے  کہ ہم صاحبہ کہلائی جاتی ہیں۔صاحبہ نہ ہی نا اہل ہیں نا ہی نالائق نہ ہی طوائفیں ۔اور نہ ہی یہ صاحبہ ڈوپٹہ لینے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔نہ ہی ڈوپٹہ شرمندگی کا باعث ہے۔
لہذا گزشتہ روز سر پر بھاری پگڑی سجائے اکڑ کر چیخ کر مردانہ آواز میں  صاحبہ کو ایک گالی کی طرح استعمال  کرنے والا شخص خود بہت حقیر معلوم ہوا۔
میں نے عورت مارچ کی غلط سمت اور بیہودگی پر بھی لکھا۔مرد  حضرات کی کردار کشی ان کے ساتھ برے سلوک اور مرَدوں کے حقوق اور ان کی قربانیوں پر بھی لکھا۔مجھے یہ بھی سننے کو ملا کہ عورت ہوتے ہوئے عورت ذات کی  بجائے مرد حضرات پر بات کر رہی ہوں۔مجھے فرق نہیں پڑا۔مگر عورت ذات کو گالی دینے سے فرق پڑتا ہے۔ڈوپٹے کی توہین اور مذاق سے فرق پڑتا ہے۔اپنی تحریر مَرد کھانے والی عورتوں میں ذکر کیا تھا کہ سب مرد برے نہیں کچھ برے ہوتے ہیں ان کی وجہ سے تمام مرد حضرات کو برا نہیں کہا جا سکتا ۔میں آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہوں۔کسی ایک “مرد “نے عورت کو سرِ عام ایک مجمعے کے  سامنے کسی دوسرے “مرد “کو  نا اہل ،نالائق  کہنے کے لئے گالی کی طرح “صاحبہ” کا لفظ استعمال کیا یا کبھی ڈوپٹے کا مذاق بنایا  لہذا ایسی صورت میں بھی برا صرف ایک یہی شخص اور اسکی  اس طرح کی حرکات  پر  تالیاں بجانے اور قہقے لگانے والے ہی ہیں۔
عورت ایک رحمت ہے۔ایک گالی نہیں ۔نہ ہی نالائق اور نا اہل ہیں۔
فرحت زاہد نے خوب کہا ہے کہ
عورت ہوں مگر صورتِ کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے  لئے سب سے لڑی ہوں
وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ  رہا  ہے
پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں
الفاظ , نہ آواز , نہ ہمراز , نہ دم ساز
یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں
اس دشتِ بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا
میں چوب کی صورت تیرے خیمے میں جڑی ہوں
پھولوں پہ  برستی ہوں کبھی  صورتِ شبنم
بدلی ہوئی رُت میں  کبھی ساون کی جھڑی ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اگر کوئی شخص گزشتہ حکومتوں کی مثالیں لا کر ہمیشہ کی طرح عمران خان کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے تو بیشک کرے مورکھ بھی لکھنے کو تیار بیٹھا ہے۔مگر کم سے کم
اس بات کو تو مان لیں کہ  عمران خان اور ماضی کے سیاست دانوں میں کوئی فرق نہیں سوائے بانوے کے ورلڈ کپ کے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”عورت گالی نہیں۔۔رمشا تبسم

  1. السلام علیکم!
    آپ نے اپنی اس تحریر کے ذریعے نہایت نفیس اور عمدہ طریقے سے عورت کی عزت و توقیر کا پاس رکھا۔۔۔۔ تذلیل کرنے والوں کو کو اک منہ توڑ جواب ہے یہ تحریر ۔۔۔۔ بلا سوچے سمجھے بولنے کی عادت انھیں کسی دن منہ کے بل گرائے گی ۔۔۔ انشاءاللہ۔۔۔ عورت خواہ ماں ہے ،بیٹی، بہو، بیوی ،بہن ہے ہر رشتے میں قابل عزت ہے ۔۔۔۔ اور یہ عزت ہمیں ہمارا مذہب بھی دیتا ہے ۔۔۔
    بقلم خود?
    رب کی اک تخلیق ہوں ، کمال بنی ہوں
    عورت ہوں ،کیوں تیرے لیے ملال بنی ہوں
    تذلیل کے سوا کوئی بھی تو جواب نہیں دیتا
    تیرے لیے میں لا ینحل سوال بنی ہوں
    تیرے ہی عروج کا باعث ہوں میں
    پھر بھی تو سمجھے کہ میں زوال بنی ہوں
    ماں ، بہن ،بیٹی ہررشتہ ہے مجھ سے
    ہر رشتے میں اچھائی کی مثال بنی ہوں
    عزت و توقیر کے قابل ہے میری ذات
    رحمت میں رب کی تا حال بنی ہوں
    بیٹی ہوں ،بیوی ہوں یا ماں ہوں میں
    ہر روپ میں تیرے لیے اک ڈھال بنی ہوں ۔۔۔
    اللہ رب العزت سے دعا ہے رمشا جی ! کہ کامیابی سدا آپ کے قدم چومے ۔۔۔ آمین ثم آمین

    1. بہت شکریہ عظمی جی آپ ہمیشہ اسی طرح سے حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور دعا دیتی ہے۔ ﷲ آپ پر اپنا کرم فرمائے۔بس ایک کوشش ہے کے اچھا لکھو۔اور ایسا کے حس سے اپنی اور دوسروں کی اصلاح ہو سکے

      1. اسلام علیکم!
        آمین ۔۔۔۔۔اور جزاک اللہ عزوجل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انشاءاللہ ۔۔۔۔ کامیابی سدا تمھارا مقدر ٹھہرے گی ۔۔۔اللہ تعالی تمھارا ہمیشہ حامی و نا صر رہے ۔۔۔۔ آمین

Leave a Reply