بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے روم،فارس، ہند اور چین میں معاشرتی معاشی اخلاقی اقتصادی جو بھی رسوم و رواج تھے انکو ختم کرنے کے لئے اللہ نے اپنا رسول بھیجا اور پھر عربوں نے ان حالات پر قابو پا لیا ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت تک نظامِ عدل قائم ہو گیا تھا ،مثالی اسلامی ریاست کے مضبوط ادارے قائم ہو چُکے تھے اور زمین پر عدل و انصاف کی حکمرانی تھی ۔۔۔۔ پھر نو مسلموں کے اندر کے پنڈت نے انگڑائی لی اور حالات نے واپسی کا رخ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ بے انصافی اور ظلم پر مبنی جو نظام رومہ فارس اور ہند میں تھا یہاں کے بااثر باشندوں کو دل و جاں سے عزیز تھا پھر انھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں اسی طبقاتی نظام کی بحال کے لئے بروئےکار لانی شروع کر دیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے کبھی نام بدل کر تو کبھی نظریہء ضرورت کے تحت تو کبھی علم و ترقی کے نام پر ہمارے اندر گھسانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اب بھی دورِ غلامی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے غلام اور اسکے اہلِ خانہ کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کی ذمہ داری اسکے مالک کے کندھوں پر تھی اور اب غلاموں کو تنخواہ دے دی جاتی ہے جس سے انکی روٹی کپڑا اور مکان کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں ۔۔۔۔ پہلے بھی اشرافیہ نسل در نسل اشرافیہ ہوتے تھے اب بھی افسر کا بیٹا افسر ہے ۔ پہلے بھی درجہ دوم کے شہریوں کے لئے تعلیم کی سہولیات میسر نہ تھیں اب بھی غریب اپنے بچوں کو پڑھانے سے معذور ہے ۔۔ پہلے بھی امراء کسی کی بھی بہو بیٹی کے ساتھ کھلواڑ کر سکتے تھے اب بھی صورتحال وہی ہے۔پہلے بھی شخصی حکومتوں کے قیام و دوام کے لئے سب جائز تھا اب بھی ایسا ہی ہے۔ شراب زناکاری فسق و فجور جوا چور بازاری اور نا حق قتل سبھی کُچھ ہے کیا بدلا؟؟ بس بدلا تو یہی بدلا کہ اب ہم اہنے تئیں بت پرست نہیں ۔۔۔ پتھر کے بت نہیں پوجتے ۔ گوشت پوست کے بتوں کو پوجتے ہیں۔ ہم خود کو موحد سمجھتے ہیں۔ باقی کیا رہ گیا ہے زمانہء جاہلیت میں بہن بیٹی سے نکاح روا تھا ۔ اب لوگوں کو تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ بہن بیٹی سے زنا کر لیں ۔ جہالت کی ایک آندھی ہے جو پورے زور و شور سے چل رہی ہے اور آسمان سے گھٹیا میڈیا کی ژالہ باری ہے جو ہمارے ایمان کے سروں پر ہتھوڑوں کی طرح برس رہی ہے ۔ طاغوت نظامِ عدل کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جا رہا ہے ۔۔۔ نفوسِ قدسیہ کو چُن چُن کر مارا جا رہا ہے ۔۔۔ دجال کی تاج پوشی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور مظلوم منتظر ہیں ایک نجات دہندہ کے۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں