یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتے/تحریر-ادریس آزاد

یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طورپر منایا جاتاہے۔ بات یہ ہے کہ اشتراکیت پسند تحریک نے مزدوروں کے لیے جو تگ و دو کی، وہ ایک ہی حقیقت کی بنیاد پر قائم تھی کہ مزدور معاشرے کا پِسا ہوا طبقہ ہے۔ دنیا بھر میں مزدوروں نے اس تحریک میں شامل ہوکر اپنی طاقت کا لوہا منوایا اور کئی بڑے بڑے مُلکوں میں حکومتیں قائم کیں۔ ان حکومتوں میں روس یعنی سوویت یونین کو سب سے زیادہ شہرت حاصل رہی ہے۔ سوویت یونین کے جھنڈے پر ہتھوڑے اور درانتی کی تصویر اس امر کی غماز تھی کہ اِس ملک میں مزدوروں اور کسانوں کی حکومت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میں روس کے جھنڈے کو دیکھتا تو مجھے قران کی مندرجہ ذیل آیات یاد آجاتی تھیں۔
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ(۵)وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ(۶)
اور ہم چاہتے تھے کہ ان پر احسان کریں جو ملک میں کمزور کیے گئے تھے اورانہیں سردار بنا دیں اور انہیں وارث کریں (۵) اور انہیں ملک پر قابض کریں اور فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس کا وہ خطرہ کرتے تھے (۶)
خصوصاً اِس آیت کا یہ حصہ دیکھنے لائق ہے کہ،
’’اور انہیں ملک پر قابض کریں اور فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس کا وہ خطرہ کرتے تھے (۶)‘‘
بالکل واضح ہے کہ قران مزدوروں کے انقلاب کی بات کررہاہے کیونکہ الفاظ یہ ہیں،
’’فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس کا وہ خطرہ کرتے تھے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار جو اشرافیہ بن کر لوگوں کے حقوق اور اِملاک پر قبضے کرتے اور پھر اپنے قبضوں کو دوام دیتے ہیں، وہی مزدوں کے انقلاب کو ہمیشہ اپنے بقا کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
قران کی ان آیات سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ مزدوروں کی حکومت کا تصور سب سے پہلے کس نے پیش کیا۔صرف یہی نہیں بہت سی دیگر آیات ہیں۔ پھر احادیث ہیں۔ پھر رسول للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور صحابۂ کرام کی زندگیاں ہیں۔ جیسا کہ مثلاً الکاسبُ حبیب للہ والی حدیث یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مزدوری کے واقعات اور بُوترابیاں۔ اِسی طرح بوذرؓ و سلمانؓ و حیدرؓ کے قصے، نانِ جویں کی باتیں، اور رسول اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس مشرک شاعرکو دیکھنےاور اس سے ملنے کی تمنّا کا اظہار کرنا جس نے مزدوری کی شان میں اشعار کہے تھے۔اِن تمام اسلامی روایات کی موجودگی میں ہم کیسے انکار کرسکتے ہیں کہ مزدورکی قوت و جبروت کا تصورحجاز کے بے نیازوں میں سب سے پہلے وارد ہوا۔ البتہ ایک بہت بڑا فرق ہے دونوں کے درمیان۔ یعنی اسلامی تصورمزدوری اور اشتراکیت کی تفہیمِ مزدوری کے درمیان۔اور اسی فرق کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے میں یہ پوسٹ لکھ رہاہوں۔

فرق یہ ہے کہ اشتراکیت نے مزدور کو جگانے کے لیے اسے کچھ اس طرح سے جھنجوڑا جیسے کسی کو کان سے پکڑ یا جُوتا مار کر جگاتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے مزدورکی قوت پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔بالکل ویسے جیسے حضرت علیؓ بیک وقت قوت اور مزدوری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

اشتراکیت نے مزدور پر یہ احساس طاری کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ ’’اے مزدور تُو ذلیل و رسوا، خوارو پامال و زبوں حال ہے۔تجھےاپنے حق کے لیے مستبد طبقے کے ساتھ ٹکرا جانا چاہیے۔‘‘ جبکہ اسلام نے مزدور کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ، ’’اے مزدور! تو طاقتورہے۔مضبوط ہے۔ کونیاتِ سماج کا مالک و مختار ہے۔ تیرے بازوؤں کی مچھلیاں حیاتِ ارضی کا حُسن ہیں۔تیرا وجود اُجلا اور روشن ہے۔ تجھ میں شاہین کی درویشی ہے کہ جو آشیانہ نہیں بناتا۔تیری ہتھیلیاں چُومنے کے لائق ہیں ۔تیری چال میں شاہانہ جلال ہے کہ تُو خودداراورغیرت مند ہے۔ سو حکمرانی تجھی کو زیب دیتی ہے۔

اس کے برعکس اشتراکی ادب نے ہمیشہ مزدور کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ تُو ارذل المخلوقات ہے۔تیری کوئی اوقات نہیں۔ تیری کیا مجال کہ تُو سر اُٹھا سکے۔ ساحرلدھیانوی کی تلخیاں پڑھتے ہوئے تو یوں لگتاہے کہ جیسے مزدور صرف ارذل نہیں بلکہ غلیظ اور ناپاک بھی ہے۔
جشن مناؤ سال نو کے
بھوکے زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کھجلاتے

اس طرح کے خیالات سے اشتراکی ادب بھراپڑاہے۔
آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
نور سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

بھوک پر جون ایلیا کہتاہے،
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی

ساحر ایک اور مقام پر کہتاہے،
جانے ان مَرمَریں جسموں کو یہ مریل دہقاں
کیسے اِن تیرہ گھروندوں میں جنم دیتے ہیں

سوال یہ ہے کہ کیا کسی آج تک کوئی مریل دہقان دیکھاہے؟دہقان تو ہرسال بیساکھی کے بعد میلوں میں کُشتیاں، کبڈیاں، بھاری پتھر اُٹھانا، بَیلوں کے جلسے اور قوت واستقرارکے ایسے ایسے نمونے پیش کیا کرتے ہیں کہ روغنی غذاؤں کے شیدائی اُن کو حسرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

فیض جیسا مدبر اور دانا شخص بھی اس قباحت سے خود کو نہیں بچا سکا۔ فیض نے تو مزدوروں کو ’’گلیوں کے آوارہ بیکار کتے‘‘ کہا۔
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہلا دے

اردو ادب کے طلبہ جانتے ہیں کہ فیض نے یہ نظم دراصل اقبال کی نظم پر طنز کے طورپر لکھی تھی۔ اقبال کی نظم سے سب قارئین واقف ہیں، اس لیے فقط تعارفی اشعار پیش کرتاہوں،
یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

کسی کسی وقت یوں محسوس ہونے لگتاہے جیسے کوٹھیوں میں بیٹھے یہ شاعر اور ادیب کہیں اندر ہی اندر خود بھی مزدور سے نفرت کرتے ہیں۔ انہیں سچ مچ گھٹیا اورغلیظ سمجھتے ہیں۔ ان کی بدبو سے نالاں ہیں۔ لیکن چونکہ انہیں جدید خیالات کا پرچار بھی کرناہے، اس لیے وہ ایسے ادب کے آخر میں دوجملے یہ بھی بول دیتے ہیں کہ اُٹھو! جاگو! حکمرانوں کو لُوٹ لو ! وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری دلی تمنا ہے کہ ہم مزدوروں کو جگائیں، ان کی حکومتیں بنوائیں۔ لیکن ایسے نہیں جیسے ہمارے ترقی پسندوں کا خواب رہاہے۔ بلکہ ویسے جیسے ہمارے اسلام نے بتایا ہے۔سچ یہ ہے کہ مزدور گندا نہیں ہے۔ مزدور خوبصورت ہے۔اورمزدور طاقتور ہے۔ مزدور کا بدن سنہرا ہے اور سنہرے بدن کا ذکر کرنے والے شعرا کو رسول للہ صلی للہ علیہ والہ وسلم نے دیکھنے اور اُن سے ملنے کی تمنا کا اظہار فرمایا ہے۔
میرے ملاح لہروں کے پالے ہوئے
میرے دہقاں پسینوں کے ڈھالے ہوئے
میرے مزدور اس دور کے کوہ کن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن
میرے فوجی جواں جرأتوں کے نشاں
میرے اہل قلم عظمتوں کی زباں
میرے محنت کشوں کے سنہرے بدن !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply